دونوں ملک انٹیلی جنس شیئرنگ کو رہنما اصول بنا کر امن و امان کی مستقل بحالی کا خواب شرمندۂ تعبیر کر سکتے ہیں
پاکستان اور افغانستان کا ایک دوسرے کیخلاف اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے اور مسئلہ دہشت گردی کے سیاسی حل پر اتفاق
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے دورہ کابل کے موقع پر پاکستان اور افغانستان نے باہمی روابط کے ذریعے علاقائی سکیورٹی کے مشترکہ ہدف کے حصول پر اتفاق کیا ہے اور کہا ہے کہ افغان مسئلہ کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ گزشتہ روز کابل میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور افغان صدر اشرف غنی کے مابین خوشگوار اور دوستانہ ماحول میں ہونیوالی میٹنگ میں دونوں رہنمائوں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ افغان مسئلہ کا سیاسی حل ہی بہترین آپشن ہے۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے افغان صدر کے امن پسندانہ اقدامات اور طالبان کو مذاکرات کی دعوت کا خیر مقدم کیا۔ دونوں قائدین میں اس امر پر بھی اتفاق پایا گیا کہ دہشت گردی پاکستان اور افغانستان کا مشترکہ مسئلہ ہے اور اس مشترکہ دشمن کا باہمی کوششوں سے قلع قمع کیا جانا چاہئے۔ دوران ملاقات دونوں قائدین نے اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ دونوں ممالک میں ترقی، استحکام اور امن ایک دوسرے سے منسلک ہے۔ علاوہ ازیں دونوں ممالک نے مذاکرات کے ذریعے ٹرانزٹ اور باہمی تجارت سے متعلق مسائل حل کرنے پر اتفاق کیا اور علاقائی روابط کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔ دونوں ممالک نے مشترکہ اقتصادی کمشن کا اجلاس جلد بلانے پر بھی اتفاق کیا جس میں ریل، روڈ ،گیس اور توانائی کے منصوبوں پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جائے گا۔ وزیراعظم نے افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقات کی اور ان سے دو طرفہ امور پر بات چیت کی۔
برادر پڑوسی ملک ہونے کے ناطے پاکستان اور افغانستان کے مابین تو مثالی تعلقات اور باہمی تعاون کی خوشگوار فضا استوار ہونی چاہئے تھی مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا اور قیام پاکستان سے اب تک افغانستان کی جانب سے بوجوہ سرد مہری کی فضا قائم رہی ہے۔ امریکی نائن الیون کا سانحہ تو 17سال قبل رونما ہوا جس کے بعد افغان سرزمین امریکی نیٹو فورسز کے نشانے پر آئی جنہوں نے مسلسل 12سال تک افغان دھرتی پر قیام کرکے یہاں دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ جاری رکھی اور اس میں افغانستان کا تورا بورا بنا دیا گیا۔ اس سرزمین کے لاکھوں باشندے اس جنگ کی بھینٹ چڑھا کر اس دھرتی پر نفرت اور انتقام کی آگ کو ہوا دی گئی۔ پاکستان کی یہ بدقسمتی ہے کہ اُس وقت کے کمانڈو جرنیلی آمرمشرف نے محض اپنے اقتدار کے تحفظ کیلئے دہشت گردی کے خاتمہ کی اس پرائی جنگ میں پاکستان کو امریکی فرنٹ لائن اتحادی بنایا جس کی بنیاد پر نیٹو کے جنگی جہاز پاکستان کے ایئر بیسز سے اڑانیں بھر کر افغانستان میں انسانی تباہ کاریوں کا اہتمام کرتے رہے۔ اس کے ردعمل میں نیٹو فورسز سے برسرپیکار افغان انتہاء پسند گروپوں کی پاکستان کے ساتھ بھی دشمنی کی فضا گرم ہو گئی۔ نتیجتاً ہماری ارض وطن بھی بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آ گئی جس سے ہمیں بھاری جانی اور مالی نقصانات اٹھانا پڑے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ اس خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنے کیلئے پاکستان کے بے لوث کردار اور بے مثال قربانیوں کے باوجود امریکہ اور اس کی کٹھ پتلی افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کے بارے میں بدگمانیوں اور تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا اور اس سے ناروا طور پر ڈومور کے تقاضے شروع کردیئے گئے۔اس سے لا محالہ پاکستان کے افغانستان کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ ہوئے جبکہ سابق افغان صدر حامد کرزئی اپنی دونوں ٹرموں میں پاکستان کے ساتھ عملاً دشمنی پراترے ہوئے نظر آتے رہے جو نیٹو فورسز کو پاکستان پر حملہ آور ہونے کی ترغیب بھی دیتے رہے اور پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو اپنی سرزمین پر پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کیلئے اپنا دہشت گردی کا نیٹ ورک پھیلانے کی بھی سہولت فراہم کرتے رہے۔ صرف یہی نہیں، انہوں نے ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانے کی بھی ہمیشہ مخالفت کی تاکہ بھارتی دہشت گردوں کے افغانستان سے کھلم کھلا پاکستان میں داخلے کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو سکے۔ کرزئی ہی کے دور میں افغانستان کی جانب سے ڈیورنڈ لائن کے پار پاکستان کی چیک پوسٹوں پر جتھّا بند حملوں کا سلسلہ شروع ہوا جن میں سکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ پاکستان کی سرحدی سویلین آبادیاں بھی نشانہ بنتی رہیں، اس حوالے سے یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ کابل انتظامیہ کے پاکستان کے ساتھ خداواسطے کے بیر کے تناظر میں بھی امریکہ کو دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے غلط فہمیاں لاحق ہوئیں کیونکہ کابل انتظامیہ نے بھارت کے ایماء پر واشنگٹن انتظامیہ کو پاکستان کے معاملہ میں بھڑکایا اور اس کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھائیں۔
کابل انتظامیہ کا پاکستان کے ساتھ مخاصمانہ رویہ قیام پاکستان کے بعد اس وقت ہی شروع ہو گیا تھا جب اقوام متحدہ کی رکنیت کیلئے اس وقت کے افغان صدر ظاہر شاہ نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا جو اس کے خلاف پڑنے والا واحد ووٹ تھا۔ ضیاء الحق کے دور میں امریکی ایماء پر سوویت یونین کیخلاف شروع ہونے والے افغان جہاد کا عرصہ پاکستان کے ساتھ افغانستان کے خوشگوار تعلقات کا عرصہ رہا اور یہ خوشگوار تعلقات طالبان کی حکومت تک برقرار رہے تاہم اس دوران بھی دونوں برادر مسلم پڑوسی ممالک میں مثالی تعلقات استوار کرنے کی کوئی ٹھوس حکمت عملی طے نہ ہو سکی۔ چنانچہ نیٹو فورسز کی شروع کی گئی افغان جنگ کے دوران پاک افغان تعلقات میں بھی بگاڑ پیدا ہو گیا جو کرزئی کے بعد اشرف غنی کے دور اقتدار میں بھی اب تک برقرار رہا ہے۔
اگرچہ اشرف غنی نے صدر منتخب ہونے کے بعد پاک افغان خوشگوار تعلقات کی بحالی کیلئے پیش رفت کی اور اسلام آباد اور جی ایچ کیو کا دورہ کرکے انہوں نے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے باہمی تعاون کی یقین دہانیاں بھی کرائیں مگر یہ باہمی خوشگوار صورتحال زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکی اور بھارت نے اشرف غنی کو ٹریپ میں لاکرکر زئی ہی کی طرح اپنی کٹھ پتلی بنا لیا جس کے بعد انہوں نے پاکستان کے ساتھ بھارتی لب و لہجہ میں ہی بات کرنا شروع کر دی اور بھارت ہی کی طرح افغانستان میں ہونے والی ہر دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا شروع کر دیا جس سے امریکہ کو بھی دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے حوالے سے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کا موقع ملا۔ اس کے باوجود پوری دنیا دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار اور قربانیوں کو آج بھی تسلیم کرتی ہے اور گزشتہ روز بھی اسلام آباد کے دورے پر آئے ہوئے برطانوی فوجی سربراہ جنرل نکولس نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے دوران اس امر کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات کے مثبت نتائج نکلے ہیں۔ جنرل باجوہ نے اس موقع پر خطہ میں قیام امن کیلئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اجتماعی کوششیں اگر صرف پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ حکمت عملی کے تحت بروئے کار لائی جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس خطہ کو دہشت گردی کے ناسور سے مکمل طور پر پاک نہ کیا جا سکے۔ پاکستان کا ہمیشہ یہی تھیسس رہا ہے کہ افغان سرزمین ہی دہشت گردی کا منبع ہے جہاں تمام انتہا پسند اور دہشت گرد گروپوں نے اپنے محفوظ ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں اور یہیں سے دہشت گرد بھارتی سرپرستی اور سہولت کاری میں پاکستان آکر یہاں دہشت اور وحشت کا بازار گرم کرتے ہیں۔ اسی طرح عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے بھی افغانستان میںہی اپنی جڑیں مضبوط کی ہوئی ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ کابل انتظامیہ کو اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے ان ٹھکانوں کا علم نہ ہو۔ اگر کابل اور اسلام آباد باہمی طور پر انٹیلی جنس شیئرنگ کریں تو دہشت گردوں کا کوئی ٹھکانہ برقرار ہی نہیں رہ سکتا۔ پاکستان کی طرف سے متعدد مواقع پر کابل انتظامیہ کو باور کرایا جا چکا ہے کہ اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے بنیادی طور پر اس نے خود کردار ادا کرنا ہے اور جہاں پاکستان کے تعاون کی ضرورت محسوس ہو وہ اس کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔
اگر دونوں ممالک پہلے ہی اپنی معیشت کی ترقی اور خطے کی سلامتی کے حوالے سے باہمی تعاون کی بنیاد مضبوط بنا لیتے تو دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں نیٹو فورسز کے افغان دھرتی میں داخل ہونے کی بھی نوبت نہ آتی۔ اب باہمی مناقشتوں سے بہت کچھ کھونے کے بعد اگر کابل اور اسلام آباد کے مابین دہشت گردی کے خاتمہ اور اقتصادی استحکام کیلئے باہمی تعاون کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے جس کا گزشتہ روز وزیراعظم پاکستان اور افغانستان صدر کی باہمی ملاقات سے راستہ ہموار ہوا ہے تو اسے خوش آئند سمجھا جانا چاہئے۔ اگر پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عہد پر کار بند ہو جائیں اور انٹیلی جنس شیئرنگ کو رہنما اصول بنا لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس خطہ کو دوبارہ امن و امان کا گہوارا بنانے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے۔ اگر افغان صدر کو دہشت گردی کے پس منظر میں زمینی حقائق کا ادراک ہو گیا ہے تو یہ پاک افغان خوشگوار تعلقات کی جانب اہم پیش رفت ہے۔دہشت گردی کے مسئلہ کا سیاسی حل بھی کابل اور اسلام آباد کے باہمی تعاون سے ہی نکل سکتا ہے۔