بھاری بستے
سکول کے معصوم بچوں کو بھاری بستوں کے بوجھ تلے ادھ موا ہوتے دیکھ کر دل سے آہ نکلتی ہے۔ اپنا وقت یاد آجاتا ہے جب کھیل کے میدان پہنچ کر ان بستوں کو گناہ کے بوجھ کی مانند اتار پھینکتے تھے۔ کچھ سکول کے اساتذہ کی مانگ تھی کہ ہر کاپی اور ہر کتاب کی کسی وقت بھی ضرورت پڑ سکتی ہے اور کچھ اپنی کاہلانہ سوچ کہ روزکے ٹائم ٹیبل کے مطابق کاپیوں اور کتابوں کو بستے میں کون ترتیب سے رکھتا پھرے۔ ‘‘ایک گناہ اور سہی’’ کے اس دور میں تو یہ بھی سمجھ نہیں آتی تھی کہ لوگ ہمیں اور ہمارے بستے کو دیکھ کر یہ کیوں کہتے تھے ’’نالائقوں کا بستہ بھاری‘‘۔ ایسے نالائقوں کو اس سے غرض نہ تھی کہ کسی خاص دن انہوں نے کونسی کتاب کا کونسا سبق پڑھنا ہے اور کونسی کاپی پر کیا ہوم ورک کرنا ہے-۔ وہ تو بس اپنے بھاری بھرکم بستوں سے اپنے اہل خانہ، استادوں اور دوستوں پر امتحانی نتیجے کے دن تک خوب رعب ڈالتے رہتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ہمارا عقیدہ تھا کہ نتیجے کا ایک ہی دن مقرر ہے نیند یوں رات بھر خوب آتی۔ نوجوانی کے ان تمام نظریات ضروریات کے باوجود اللہ کاشکر ہے کہ ہم جیسوں نے اپنے ان بھاری بھرکم بستوں کے نیچے اپنی سوچ کی صلاحیت اور ضمیر کو دفن نہیں ہونے دیا۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم بھی کولہو کا بیل بن کر کسی خاص محکمے یا ادارے میں ترقی کے دائرے میں گھومتے عمر کے خاص حصے میں میں پہنچ کر کسی قسم کے چیف لگ ہی جاتے۔ ایف جی سکول پشاور کینٹ کے زمانے میں میٹرک کے اردو کے استاد حافظ صاحب کے دئیے گئے مضمون ‘‘بزدلی ناکامی کا باعث ہے’’ میں مشہور شعر کی پیرو ڈی کر کے خوب داد سمیٹی۔حفیظ جالندھری کا شعر تھا:
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
اپنے مضمون کے آغاز میں عرض کیا
وہ کیا کھائیں گے جن کے دل میں یہ کانٹا کھٹکتا ہے
کہیں ہیضہ نہ ہو جائے کہیں ہیضہ نہ ہو جائے
اسی ہیضے سے ساری عمر بچ بچا کر اعلی ترین عہدوں پر پہنچنے والے اب بھاری بستوں کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ان کو قبر میں بھی ساتھ لے جانے کا سوچ رہے ہیں۔ کوئی تو اپنے بستے کی کتابوں پر اپنے سگار کے دھوئیں کے مرغولے چھوڑ چھوڑ کر فلاسفر قرار پایا تو کوئی جمہوریت سے کتابی محبت کے سر عام اظہار میں اس حد تک چلا گیا کہ لوگ باتیں بنانے لگے۔ اسی طرح کتابوں کے عشاق کے قافلے میں ایسے قانون دان بھی ہیں جو آئین، قانون اور عدالتی فیصلوں کی کتابوں کے ڈھیر پر بیٹھ کر ہر وہ بات کرتے ہیں جنکی ان کتابوں میں واضح ممانعت ہوتی ہے۔ ایک عام سائل قانون کی ان کتابوں کے ڈھیر پر بیٹھے قانون دانوں کی باتوں اور فیصلوں پر اندھا اعتماد نہ کرے تو کیا کرے؟ وہ بیچارا کیا جانے کہ اس بستے میں پڑی کتابیں اور کاپیاں اسکے اپنے ٹائم ٹیبل کیمطابق ہیں ہی نہیں اور پھر ان میں وہ نہیں جو اس چوٹی پر بیٹھے کوہ پیماہ کا دعویٰ ہے۔ پچھلے ستر سال میں اقتدار کی شیرینی کی خاطر قانون کی کتابوں کے ان پہاڑوں میں آمریت کے فرہادوں نے راستے تو کیا سرنگیں بھی بنا ڈالی ہیں۔ مرضی ہو تو فرہاد کے تیشے کو دلیل کی چٹانوں سے کند کر دیں اور مرضی ہو تو ان پہاڑوں کے خاموش راستوں یا سرنگوں سے نکل لیں۔ پہاڑ کی ظاہری شان و شوکت بھی برقرار اور کوہ پیما بھی سرخرو۔
آج کی سیاسی صورت حال بھی کچھ ایسا ہی چشم کشا منظر پیش کر رہی ہے۔ الیکشن سے چند ماہ پہلے آئین کے اہم ستون حکومت کو جس طرح مفلوج کیا جا رہا ہے اس میں بھاری بستے اور اس کے لوازمات کی ہی کار فرمائی ہے- پانی میں رسہ کشی کے کھیل کے آغاز سے پہلے سیاسی تالاب میں اتری دو میں سے ایک ٹیم کے رسے کے کونے کو مضبوطی سے باندھا جا رہا ہے، دوسری ٹیم بے شک زور لگاتی رہے۔
اس وقت پاکستان کا پورا میڈیا سپریم کورٹ میں بطور سائل دست بستہ کھڑا ہے۔الیکشن سے پہلے کے اور اس دوران عوام کا جاننے اور آزادانہ بولنے کا حق انسانی حقوق کے نام پر قانون کی بھاری بھرکم کتابوں کے نیچے کچلنا کسی طور بھی منصفانہ انتخابات کے آئینی مفاد کے مطابق نہیں۔ الیکشن کے دوران الیکٹرانک میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہو گا- تنخواہوں اور اشتہارات کی چابیوں کے علاوہ ٹی وی چینلوں کو کنٹرول یعنی ریگولیٹ کرنے والی اتھارٹی’’ پیمرا’’ کے بستے کی قانونی کتابوں کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے۔ ان قوانین کی کتابوں سے بھرے ہماری قوم کے بستے اس وقت تک گناہوں کے بوجھ کی مانند ہم پر مسلط رہیں گے جب تک ہم اپنے آئین اور قانون میں درج ٹائم ٹیبل کے مطابق اپنی کتابوں اور سوچ کو ترتیب نہیں دینگے۔ اب قوم کے بستے ہلکے کرنے کا وقت آ گیا ہے تاکہ ہماری جسمانی اور ذہنی نشونما میں بہتری آئے۔