• news

نوجوان کی ہلاکت : امریکی ملٹری اتاشی کو واپس بھجوانے کا امکان‘ جاں بحق نوجوان کے لواحقین اور زخمی کو معاوضے کی پیشکش ہو گی

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر + ایجنسیاں + بی بی سی) امریکی سفارت خانہ، اپنے دفاعی اتاشی کی وجہ سے ایک نوجوان کی ہلاکت کے معاملہ کے جلدنمٹانے کا خواہاں ہے تاکہ اس حادثہ کے سیاسی و سفارتی مضمرات کو محدود رکھا جاسکے۔ اس حادثہ کی تفصیلات سے واقف ایک ذریعہ کے مطابق قوی امکان یہی ہے کہ دفاعی اتاشی کو حاصل استثنیٰ سے استفادہ کرتے ہوئے اسے امریکہ واپس بھجوا دیا جائے گا اور مرحوم کے لواحقین اور ایک زخمی کو معاوضہ کی پیشکش کی جائے گی۔ حکومت پاکستان کے پاس واحد دستیاب آپشن یہ ہے کہ وہ مذکورہ سفارت کار کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر اسے واپس بلوانے اور مقامی قوانین کے خلاف ورزی پرمقدمہ چلانے کا مطالبہ کرے۔ اسلام آباد اگر اس معاملہ پر سخت ترین پوزیشن لینا چاہتا تو وہ امریکہ سے اس سفارت کار کا استثنیٰ ختم کرنے کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق گاڑی کی ٹکر سے نوجوان کو ہلاک کرنےوالے امریکی ملٹری اتاشی کرنل جوزف کے بیرون ملک فرار ہونے کی کوشش ناکام بنا دی گئی، نام واچ لسٹ میں شامل کرلیا گیا ۔ ملک بھر کے تمام ایئر پورٹس، سمندری اور زمینی راستوں پر تعینات بھی امیگریشن حکام کو امریکی ملٹری اتاشی کا نام دے دیا گیا ہے تاکہ وہ فرار نہ ہونے پائے۔نجی ٹی وی کے مطابق کرنل جوزف نے گزشتہ روز بھی بیرون ملک بھاگنے کی کوشش کی تھی جسے وفاقی پولیس نے ناکام بنا دیا۔ امریکی ملٹری اتاشی کرنل جوزف کے بیرون ملک فرار ہونے کی خبر ملنے پر پولیس نے ائیر پورٹ کا گھیراو¿ کرلیا۔ ایئرپورٹ پر پولیس کی موجودگی کی اطلاع پا کر کرنل جوزف راستے سے ہی واپس چلا گیا۔ کرنل جوزف غیر ملکی ایئرلائن کے ذریعے بیرون ملک فرار ہونا چاہتا تھا لیکن وفاقی پولیس نے ملٹری اتاشی کے ایئر ٹکٹ کا سراغ لگا کر اس کے فرار کی کوشش ناکام بنادی۔اسلام آباد پولیس نے کرنل جوزف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کیلئے وزارت داخلہ کو خط بھی لکھ دیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ملزم ملک سے فرار ہونے کا خطرہ ہے اس لئے کرنل جوزف کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے، ملزم کا پاکستانی ڈرائیونگ لائسنس بھی کینسل کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف ذرائع نے بتایا کہ وزارت داخلہ کی برہمی کے بعد ایس ایچ او کوہسار کو واقعہ میں ملوث ملزم کو سفارتی استثنیٰ کی آڑ میں چھوڑنے کے حوالے سے شوکاز نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ کے ترجمان رچرڈ سنلسری کا کہنا ہے کہ امریکن سفارتخارنہ اسلام آباد میں کارحادثے میں ہلاک ہونے والے شخص کے ورثا ء کو کسی قسم کی ادائیگی نہیںکررہا اور نہ ہی سفارتخانے نے کسی کو ایسی کوئی پیشکش کی ہے۔ خصوصی بات کرتے ہوئے ترجمان رچرڈ کا کہنا تھا کہ ہفتہ کے روز رونما ہونے والے محض ایک حادثہ ہے جس کا ہم سب کو بھی اتنا ہی افسوس ہے جتنا کہ کسی پاکستانی کو افسو س ہے۔ البتہ سفارتخانے کا عملہ پاکستانی تفتیشی اداروں کے ساتھ واقعے کی تحقیقات میں مکمل تعاون کررہا ہے۔ انہوںنے کہا کہ ویانا کنونشن کے تحت کسی بھی سفارتی اہلکار کو سفارتی استثناءحاصل ہوتاہے۔لہذا ملٹری اتاشی کرنل جوزف ایمانویل کی گرفتاری کاکوئی جواز نہیں بنتا۔ کرنل جوزف نے حادثے کے وقت متعلقہ پولیس اہلکاروں کے ساتھ کوئی بدتمیز ی نہیںکی اور نہ ہی موقع واردات سے بھاگنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے اس سلسلے میں سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کے ساتھ ملاقات کے دوران تمام تر صورتحال واضح کردی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں امریکی سفارت کار کی گاڑی سے ایک شہری کی ہلاکت کے بعد حکومت کے پاس اس سفارت کار کے خلاف کارروائی کرنے کے بہت محدود اختیارات ہیں۔ امریکی سفارت خانے کے فوجی اتاشی جوزف امانوئل نے اشارہ توڑ کر ایک پاکستانی طالب علم کی موٹر سائیکل کو ٹکر ماری تھی جس کے نتیجے میں وہ طالب علم ہلاک اور ان کا ساتھی شدید زخمی ہو گیا تھا۔ اب کیا اس سفارت کار کے خلاف پاکستان کے اندر کارروائی ہو سکتی ہے؟ تو اس کا جواب نہ میں ہے۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے سابق قانونی مشیر اور لمز یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر سکندر شاہ کے مطابق امریکی سفارت کار کو ویانا کنونشن کے تحت مکمل سفارتی استثنیٰ حاصل ہے اور اس کی وجہ سے حکومت زیادہ سے زیادہ اس سفارت کار کو ناپسندہ شخصیت قرار دے کر ملک سے نکال سکتی ہے۔ ویانا کنونشن کے بارے میں بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اس کنونشن کے تحت کوئی بھی انسان اپنے ملک کی سفارت کار کے طور پر نمائندگی کرتا ہے تو اس کو بذاتِ خود ریاست ہی تصور کیا جاتا ہے تو اس صورتحال میں چونکہ ملک خود مختار ہوتا ہے تو ایسے نہیں ہو سکتا ہے کہ امریکی ریاست کو پاکستانی ریاست سزا دے رہی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ کنونشن کے تحت سفارتی ایجنٹ کو نہ صرف سرکاری فرائض کی ادائیگی بلکہ اپنے نجی کاموں کے دوران مکمل سفارتی استثنیٰ حاصل ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستانی سیکریٹری خارجہ نے اس واقعے کے بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ سفارتی تعلقات کے حوالے سے 1961ءکے لا آف دا لینڈ اور ویانا کنونشن کے تحت کارروائی ہو گی۔ تو اس کے تحت پاکستان کیا کارروائی کر سکتا ہے؟ اس پر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حکومتِ پاکستان کے سیاسی عزم پر انحصار کرتا ہے کہ اس معاملے کو کتنی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ پروفیسر سکندر شاہ کے مطابق پاکستان امریکہ کو کہہ سکتا ہے کہ وہ اس سفارت کار کی سفارتی استثنیٰ ختم کرے یا اس کے خلاف امریکی قوانین کے تحت کارروائی کرے کیونکہ وہاں بھی ٹریفک سگنل توڑنا اور حادثے میں ملوث ہونا جرم ہے۔ ’اگر امریکہ اس میں سے کوئی بھی اقدام نہیں اٹھاتا ہے تو یہ سیاسی مسئلہ بن سکتا ہے لیکن یہ پاکستان کے سیاسی عزم پر ہے کہ وہ اس معاملے کو کتنا آگے لے کر جانا چاہتا ہے کیونکہ جنوبی کوریا سمیت دنیا میں پہلے ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں جس میں امریکہ کو سفارتی استثنیٰ ختم کرنا پڑی تھی اور مقامی طور پر سزا دی گئی۔‘ انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے دو ویانا کنونشن ہیں جن میں ایک قونصلر تعلقات اور دوسرا سفارتی تعلقات کا کنونشن ہے اور پاکستان نے ان دونوں کنونشن پر عمل درآمد کے لیے دونوں کو ملا کر 1961ءمیں لا آف لینڈ بنایا تھا۔ ’لیکن اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ اس کے تحت مقامی قوانین کا اطلاق کرنے کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔‘ 2011ءمیں ایک امریکی اہلکار ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں لاہور میں دو افراد کی ہلاکت اور اسلام آباد میں پیش آنے والے واقعات میں کیا فرق ہے؟ اس پر بین الاقوامی قانون کے ماہر جمال عزیز نے بتایا کہ ریمنڈ ڈیوس کنٹریکٹر تھا اور اس کے پاس سفارتی استثنیٰ نہیں تھی جبکہ فوجی اتاشی جوزف امانوئل کے پاس مکمل سفارتی استثنیٰ ہے۔ پروفیسر سکندر شاہ نے بھی بتایا کہ ریمنڈ ڈیوس کے کیس میں پاکستان نے دو ٹوک کہا تھا کہ اس کے پاس سفارتی استثنیٰ نہیں ہے کیونکہ کسی ملک کے لیے کنٹریکٹ پر کام کر رہے ہوں یا قونصل سروسز میں ہوں تو مکمل سفارتی استثنیٰ حاصل نہیں ہوتی لیکن اگر مکمل استثنیٰ حاصل ہو تو اس صورت میں چاہے قتل کر دیں تو حل صرف ملک بدری ہو سکتا ہے۔
نوجوان ہلاکت

ای پیپر-دی نیشن