حکومت تعاون نہیں کررہی ،گھر ٹھیک کرنے کا وقت آگیا: چیف جسٹس
کوئٹہ (بیورورپورٹ +ایجنسیاں) چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ حکومت عدلیہ کو مطلوبہ تعاون اور وسائل فراہم نہیں کر رہی، ہم عام قاضی نہیں‘ مرضی کے فیصلے نہیں کرتے بلکہ آئین اور قانون کے مطابق چلتے ہیں۔ بعض عدالتوں میں 40،40سال سے مقدمہ بازی میں پھنسے لوگ روز جیتے روز مرتے ہیں۔ فراہمی انصاف میں تاخیر پر مجھ اور ہائیکورٹ اور دیگر عدالتوں کے ججز سب ذمہ دار ہیں، اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کا وقت آگیا ہے۔ یہ بات انہوں نے بدھ کو بلوچستان ہائیکورٹ میںصوبے کے ججز کوگاڑیوں کی فراہمی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس محمد نور مسکانزئی بھی موجود تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ججز کی ذمہ داری ہے وہ انصاف کی فراہمی کے لئے صحیح قانون کا استعمال کریں۔ میں حیران ہوں کہ ہمارے ججز میں سے وہ قابل جج کہاں گئے جو ہاتھ سے فیصلہ تحریر کرتے تھے جن کے فیصلے موتیوں سے لکھے جاتے تھے، ایسے ججز تھے کہ ان کے فیصلے سپریم کورٹ آتے تو تبدیل نہیں ہوتے تھے۔ ججز تدبر اور قانون کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ بعض مقدمات میں بنیادی اصولوں کو بھی مد نظر نہیں رکھا جاتا۔ شاہد ہمارے پاس جذبے کی کمی ہوگئی ہے۔ اللہ نے ہمیں ایسے شعبے سے منسلک کیا ہے جو باعث عزت اور مغفرت ہے۔ مقدمہ سازی معاشرے کے سدھار کا آلہ ہے اور ججز اس کے اہم ترین ستون ہے۔ انہوں نے کہا میں برملا کہوں گا کہ ہم شوق، عبادت سے انصاف نہیں کر رہے، جو جہاد ہم نے شروع کیا ہے اس میں عدلیہ کو بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ججز انصاف کے ستون مضبوط نہیں کرتے تو یہ آنے والی نسلوں پر بو جھ ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس قانون سازی کا اختیار نہیں ہے۔ ہمارے پاس طاقت نہیں کہ انگریزوں کے دور کے قوانین بدل سکیں۔ 1908 میں جو قانون بنایا گیا اسے تبدیل کیا جائے۔ اس قانون پر ہی عمل کرلیں تو انصاف کی جلد فراہمی ممکن ہوسکے گی۔ کتنے کتنے سال لوگوں کو 30یا 40سال بھی مقدمہ بازی میں پھنسے رہتے ہیں۔ مظلوم اور جس کا حق مارا گیا ہے اسکا کیا قصور ہے کہ وہ انصاف کے لئے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتا ہے، اس تاخیر کا میں اور آپ (ماتحت عدلیہ) ذمہ دار ہیں۔ ہم کیوں مقدمات کو اتنی طوالت دیتے ہیں جو لوگ اپنے حق کے لئے چالیس سال انصاف کا انتظار کر تے ہیں وہ روز جیتے اور مرتے ہیں۔ انہوں نے اقرار کیا حکومت کی طرف سے جو تعاون اور وسائل فراہم کئے جانے چاہئیں وہ نہیں مل رہے۔ حکومت کا تعاون ناگزیز ہوچکا ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہم انصاف سے پہلو تہی کریں۔ انہوں نے عدلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قانون سیکھئے اور جانئے اگر آپ کو قانون نہیں آتا تو اس کی ذمہ داری کسی مقننہ پر نہیں جاتی یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ اب وقت آگیا ہے ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ تمام باتیں کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہورہی کیونکہ میں اپنوں سے بات کر رہا ہوں۔ ججز قانون کے مطابق انصاف کریں۔ بلوچستان سے کم شکایت ہے مگر دیگر صوبوں میں دس دس سال کیوں مقدمے چلتے ہیں۔ ججز کو قانون آنا چاہیے۔ مجھے اندازہ ہے کہ لوگ ہمارا نا م استعمال کرتے ہیں۔ لوگ چیمبر میں آکر سلا م کرتے ہیں اور باہر جا کر کہتے ہیں ہم نے آپ کا کام کردیا ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی ہوتی۔ انہوں نے کہا کبھی نہیں کہا کہ عدلیہ کرپٹ ہے۔ میں کسی بھی جج سے یہ محسوس نہیں کیا کہ اسکا دائرہ اختیار محدود ہو۔ ججز کے پاس بنچ باکس ہونی چاہئیں ججز کو قانون کی دفعات یاد ہونی چاہیے۔ انہوں نے ججز سے قانونی سوالات بھی کئے۔ انہوں نے کہا کہ جوڈیشل ریفارمز کے آغاز پر ہم نے قانون کو سب سے پہلے سمجھنا اور سکیھنا ہے تاکہ ہم قانون کی غلطی نہ کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان سے عدالتی اصلاحات کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ عدلیہ ریاستی ادارہ ہے جس کے بغیر اس کا قیام ناممکن ہے۔ کفرکا معاشرہ چل سکتا ہے مگر ظلم و ناانصافی کا معاشرہ نہیں چل سکتا۔ انہوں نے کہا اگر آپ کو ریاست سے کتابیں نہیں مل رہیں تو آپ خود کام کی کتابیں لیں اور پرانے فیصلوں کو پڑھیں۔ ہم سب سے زیادہ مراعات یافتہ سول ملازم ہیں جو کا م ہمیں دیا گیا اور قوم سے پیسے سے جو تنخواہ مل رہی ہے ہمیں اس سے انصاف کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ میرا ساتھ دیں آنے والی نسل کے لئے فوائد پیداکریں اور انہیں عدلیہ پر یقین ہو۔ چیف جسٹس نے کہا مرضی کے فیصلے نہیں کرتے، آئین و قانون کے مطابق چلتے ہیں۔ عدلیہ بھرپور انداز میں اپنا کام کر رہی ہے جس پر فخر ہے۔ قانون میں سقم رہ گیا تو اس کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ ہم کوئی معمولی قاضی نہیں ہیں۔ قوم کا مستقبل ہمیں بھی دیکھنا ہے۔ انصاف نہیں کرینگے تو اپنے مستقبل کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ ہم قانون سازی نہیں کر سکتے لیکن قانون پر عمل ضرور کرا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ مقدمہ بازی ہمارے معاشرے کی بیماری ہے جیسے جسم کی بیماری ہوتی ہے انسان بیمار ہوتا ہے اور اس کو ٹھیک کرنے کے لئے سب سے بڑا ٹول ایک ڈاکٹر کا ہے جس کو مسیحا کہتے ہیں‘ ہم مقننہ نہیں ہیں ہم قانون سازی نہیں کر سکتے۔دریں اثنا چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے زیارت کا دورہ کیا ڈی سی زیارت اسد اللہ خان کاکڑ اور دیگر انتظامیہ نے چیف جسٹس کو وادی زیارت سے متعلق بریفنگ دی جس پر چیف جسٹس نے وادی زیارت کی خوبصورتی کو سراہا اور کہاکہ اس طرح خوبصورت علاقوں کی دیکھ بھال حکومت وقت کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس پر مکمل توجہ دیں کیونکہ وادی زیارت کیلئے نہ صرف اندرون پاکستان بلکہ باہر سے بھی لوگ آکر یہاں پر گزارتے ہیں۔