ہائر ایجوکیشن کمیشن اور ڈاکٹر مختار احمد
آج کے دور میں تعلیم اور خصوصاً اعلیٰ تعلیم کا قوم کی سماجی اور اقتصادی ترقی اور مورال میں بنیادی کردار ہے۔ اسی لئے دنیا بھر میں انسانی وسائل کی ترقی کو کسی بھی ملک و قوم کی مجموعی ترقی کا گراں قدر وسیلہ خیال کیا جاتا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اُس ترقی کا دروازہ ہے جو ملک کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں قابلِ قدر سہولیات فراہم کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔ یہ تعلیم و تربیت کی طرف لے جانے والی رہگزر ہے۔ اس عظیم ادارہ نے گزشتہ چار سالوں سے ایک رول ماڈل ادارہ بننے کی طرف پیش رفت کی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد کی چیئرمین شپ نے اسے بلندیوں کی طرف محوِ پرواز کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سالانہ بجٹ کی مد کو 100 بلین تک لے جا کر نوجوان تحقیق دانوں کو تمام سہولیات مہیا کرنے کی نیک نیتی سے سنجیدہ کوشش کی گئی ہے۔ ڈاکٹر مختار احمد نے انتہائی محنت و لگن کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان کے اعلیٰ نظامِ تعلیم کو ترقی یافتہ دنیا کی طرح جدید مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کی ہیں۔ مثال کے طور پر 2002-12ءتک 3201 طالب علموں کو پی ایچ ڈی کے لئے مختلف ترقی یافتہ ممالک کی یونیورسٹیوں میں بھیجا گیا تھا اور ان میں سے 1334 لوگ واپس لوٹے 2013-17ءمیں 1518 سکالروں کو بیرونِ ملک بھیجا گیا جن میں سے 1246 لوگ پی ایچ ڈی پروگرام کو مکمل کرتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کے لئے واپس لوٹ چکے ہیں جو کہ ایک بڑی شرح ہے۔ اسی طرح مقامی طور پر 2515 طالب علموں کو پی ایچ ڈی کے لئے ایچ ای سی کی جانب سے وظائف مہیا کئے گئے اور 1857 لوگ اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر مختار احمد کی سربراہی میں میرٹ اور ضرورت کے تحت فراہم کئے گئے وظائف کی تعداد بھی 2777 سے بڑھ کر 14621 تک پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح کم مراعات یافتہ علاقوں کیلئے 2013ءمیں Fee-Reimbursement Scheme کا اجراءکیا گیا اور اب تک تقریباً 149695 طلبہ اس سکیم کے تحت 7.5 بلین روپے سے مستفید ہو چکے ہیں۔ بلوچستان اور فاٹا کے طلبہ کے لئے ایچ ای سی نے لامتناہی مواقع پیدا کرتے ہوئے انڈر گریجوایٹ کی مد میں تقریباً ایک ہزار وظائف اور پوسٹ گریجوایٹ کی مد میں 200 وظائف کا اجراءکیا۔ 61 سکالروں کو مختلف بیرونی ممالک میں پڑھنے کے لئے فارن فنڈڈ سکالر شپ کے تحت بھجوایا گیا جب کہ 916 طلبہ جنہیں اسی سکیم کے تحت میڈیکل تعلیم کے لئے کیوبا بھجوایا گیا تھا، واپس لوٹتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کی راہ پر گامزن ہیں۔
انٹرنیشنل ریسرچ سپورٹ پروگرام کے تحت 1736 پی ایچ ڈی سکالروں کو بیرونی ممالک کی بہترین یونیورسٹیوں میں بھجوایا گیا۔ اسی طرح 2016ءمیں ہنگری کی حکومت کے ساتھ ایک سکالر شپ سکیم کا اجراءکرتے ہوئے بائی لیٹرل ایکسچینج پروگرام کے تحت حکومت ہنگری کی جانب سے بی ایس، ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے 400 طلبہ کو وظائف کی پیشکش ہوئی اور 2016ءمیں 67 اور 2017ءمیں 147 طلبہ کو روانہ کیا گیا جب کہ باقی وظائف 2018ءمیں پیش کئے جائیں گے۔ علاوہ ازیں تقریباً 3000 افغان طلبہ کو 2017ءمیں جاری ہونے والے علامہ اقبال سکالر شپ پروگرام کے تحت پاکستانی یونیورسٹیوں میں داخلہ دیا گیا۔
ریسرچ ڈویلپمنٹ کی ذیل میں بھی 2013-17ءکے دوران ایچ ای سی کے پروگرام نئی وسعتوں سے ہمکنار ہوئے۔ NRPO کے تحت 1522 منصوبوں کی منظوری کے علاوہ تمام ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اختراع و تخلیق اور انٹر پرینیئر شپ کے فروغ کے لئے 35 او آر آئی سی اور 19 بزنس انکوبیشن سنٹروں کا قیام عمل میں لایا گیا تا کہ دورانِ تعلیم ہی ذہین و ہونہار طلبہ کو سیلف بزنس اور ملکی ترقی کی راہوں پر گامزن کیا جا سکے۔ 2015ءمیں پاکستان فرانس PERIDOT ریسرچ پروگرام کا اجراءکیا گیا تھا تا کہ دونوں ممالک کے ریسرچروں کے مابین شراکت عمل کو مضبوط بناتے ہوئے ترقی کے نئے در وا ہوں۔ سماجی و معاشرتی ترقی اور مقامی مسائل پر بھرپور توجہ دیتے ہوئے ان کے ممکنہ بہترین حل تلاش کرنے کی غرض سے 2015ءہی میں Social Integration Outreach Programme روبہ عمل لایا گیا۔ 2013-17ءکے دوران مقامی یونیورسٹیوں کے اساتذہ و محققین کو بیرونی ممالک میں منعقدہ سیمیناروں اور کانفرنسوں میں شرکت کے لئے 4282 ٹریول گرنٹس کی منظوری دی گئی۔ ایچ ای سی آﺅٹ سٹینڈنگ ریسرچ ایوارڈ کی تعداد کو بڑھاتے ہوئے 104 تک لے جایا گیا تا کہ ملکی یونیورسٹیوں میں بہترین ریسرچ کلچر کو فروغ دیتے ہوئے علمی تحقیق کے نتائج کو ملکی صنعت کے فروغ کے لئے سود مند بنایا جا سکے۔ 2016ءمیں ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ فنڈ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ ڈاکٹر مختار احمد کی کاوشوں کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرتے ہوئے انہیں 3G گڈ گورننس ایوارڈ کا مستحق ٹھہرایا گیا جو ان کی انتظامی و قائدانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ خدا کرے کہ ملک کے ہر ادارے کو ایسی قائدانہ صلاحیتوں کے حامل رہنما میسر آئیں تا کہ ملک حقیقی معنوں میں ترقی کی راہوں پر گامزن ہو سکے۔