• news
  • image

لاپتہ افراد‘ملالہ یوسف زئی اورفاٹا ایشو!!

لاہور میں ما ہنامہ جریدے ”منشور“ کے ایڈیٹرشوکت چوہدری کے ساتھ کافی عرصہ بعد ملاقات ہوئی ہماری 'گفتگو' لاپتہ افراد'کے حساس موضوع پرتھی' کافی سیر حاصل مکالمہ رہا ،50-55 سالہ طویل دورانیہ کی انتھک اور شب روز کاوشوںجان توڑ ترقی پسند ٹریڈیونین کی عمیق سیاست کا گہرا عملی تجربہ رکھنے وا لے شوکت چوہدری ایک صحافی بھی ہیں‘ ا±نہوں نے بتایا گزشتہ دِنوں پریس کلب لاہور کے سامنے'لاپتہ افراد'کی گمشدگی کے حوالے سے احتجاجی مظاہرہ منعقد ہوا تھا'جس میں پریس کے قریبی دوستوں کے بے حد اصرار پر شوکت چوہدری بھی وہاں جا پہنچے، ا±ن کا واحد مقصد اتنا تھا کہ وہ خود دیکھیں کہ ایسے جانثار 'انمول' اور حقیقی سیاسی کارکن آخر ہیں کون؟ اور ا±نہوں نے آخر ایسا 'نیا' کون سا کارنامہ سرانجام دیا ہوتا ہے کہ وہ ریاست کی سلامتی وبقاءکے لئے سنگین خطرہ بن جاتے ہیں اور راتوں رات وہ'لاپتہ'بھی کر دئیے جاتے ہیں اُس روز جب چوہدری صاحب کی نظریں احتجاجی کیمپ کے منتظمین پر پڑیں تو وہ بتاتے ہیں کہ احتجاجی کیمپ سے کچھ فاصلے پر بڑی بڑی لگژری گاڑیاں وہاں کھڑی دکھائی دیں معلوم کرنے پرپتہ چلا کہ اِس احتجاجی کیمپ میں آنے والی نیم عریاں لباسوں میں ملبوس اور خوشبوو¿ں میں رچی بسی 'لگژری خواتین' مختلف احتجاجی بینرز ا±ٹھائے ہوئے پہلی صفوں میں کھڑی جو نعرے بازیاںکر رہی تھیں یہ پ±رتعیش گاڑیاں ا±ن کی ہیںمزید اور تفصیلات کے بعد عقدہ کھلا یہ خوش پوشاک اشرافیہ طبقے کی خواتین کئی این جی ا±وزچلاتی ہیں اور خالص ذاتی مفاد پرستانہ اغراض و مقاصد کی خاطر لاپتہ افراد کی بازیابی کے معاملات ‘ خواتین کے ساتھ پیش آنے والے گھریلو تشدد یا ا±نہیں ہراساں کرنے جیسے اکا دکا واقعات کو بڑھا چڑھاکر ’کاسمیٹکس‘ کی لیپا پوتی کے بعد اپنی” کنندہ مارکیٹ“کے لئے اُنہیں پریس میں چھپوایا جاتا ہے یہاں یاد رہے ایسے احتجاجی کیمپس وغیرہ پریس کلپنگ کے ساتھ فوٹوگرافی تک ہی محدودہوا کرتے ہیں، جہاں تک 'لاپتہ افراد' کی بات ہے تو ہمیں یہی بتایا گیا آپ یوں سمجھ لیں کہ 'ا±ٹھائے جانے والے'یعنی نام نہاد لاپتہ کئے جانے والوں کو کوئی چھوٹے موٹے کیسوں میں جگہ جگہ سے اُٹھاتا نہیں پھرتا، بقول شوکت چوہدری کے' ملکی سماج اورمعاشرے میں اسٹبلیشمنٹ کے'سیاسی رول' کے خلاف وہ خود گزشتہ 55۔50 برسوں بلاتعطل مسلسل ڈنکے کی چوٹ پر پاکستان میں پسے ہوئے کمزور طبقات کی سیاست کررہے ہیں، مگر آج تک ا±نہیں یا ا±ن کے کسی بھی ساتھی کو کسی 'جانب' سے نہ کوئی دھمکی ملی، ا±ٹھانے کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا توسمجھ میں آیا کہ 'گمنام لوگوں' کو نجانے کون کس مقصد کے لئے 'لاپتہ' کر دیتا ہے؟
ماما قدیر سے موجود 'گمنام لاپتہ افراد' کا احوال بہت ہی مشکوک اور غور طلب ہے، لہذاءاب جبکہ ملک میں یہ رواج عام ہوچلا ہے اب تو قومی سیاست کرنے اوروفاق کی علامت کا دم بھرنے والے سیاست دان بھی شہرت حاصل کرنے کے چکر میں 'لاپتاو¿ں' کی شارٹ کٹ سیاست کرنے پر اتر آئے ہیں، ایسے ہی صحافیوں کی ایک طویل فہرست کا تذکرہ بھی ملک بھر میں زبان زدعام ہے جو لکھتے ہیں 'لاپتاو¿ں کے لئے‘بولتے بھی ایسے ہی 'گمناموں' کے لئے اور 'انگشت نمائی ا±ن کی اگر کسی کی طرف ہو بھی جاتی ہے توصرف” ملٹری اسٹبلیشمنٹ“ کی جانب ہوتی ہے، جس کسی نے یہ سب کر لیا سمجھ لیجئے وہ مغربی دنیا‘ خاص کر امریکا کی نظروں میں ” فوکس“ ہوجاتا ہے بس پھر کیا چاہیئے اگلے پچھلے سبھی قرض سمجھئے ادا ہوگئے پاکستانی فوج کو کون آڑے ہاتھوں لیتا ہے آئی ایس آئی پر کون سوالیہ انگلی ا±ٹھاتا ہے ہمہ وقت ملکی سیکورٹی اداروں کو بدنام کون کرتا ہے؟
یہ اصل مسئلہ ہے امریکا اور مغربی دنیا سمیت ڈالردینے والاہر ملک کا جو گھیرنے کے لئے دانہ پھینکتے رہتے ہیں، جیسے حال میں 'ملالہ یوسف زئی' کے دورہ ِسوات کے موضوع کو چند مخصوص صحافیوں اور اینکر پرسنز نے بلا وجہ زیر بحث لاکر انتہائی نامناسب لب ولہجہ اختیار کیا ’ملالہ یوسف زئی کو فوج نے اِتنی سخت سیکورٹی کیوں دی‘ پاکستان کی کسی شخصیت کوجوعالمی سطح پراپنی ذاتی کاوشوں سے اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے ِکار لاکر اپنے ملک کے مجموعی قومی وقار کے امیج کولائق ِتعریف بنانے میں اپنا نام بنا لیتی ہے، تو ایسی شخصیات کے لئے عالمی پیمانے پر خود بخود ایک اعلیٰ مقام بن جاتا ہے جن پر ہمہ وقت دنیا کی نگاہیں لگی رہتی ہیں، ملالہ یوسف زئی کا شمار ایسی ہی شخصیات میں اگر ہو رہا ہے تو یہ بھی منائیے کہ پاکستان میں ا±س کے آبائی شہر سوات میں اب بھی ا±ن کو کئی اقسام کے جان لیوا چیلنجز کا سامنا تو ہے نا‘ وہ دہشت گرد تنظیموں کے لئے قابل ِ قبول نہیں ہیں دہشت گرد اُسے کیوں درخور ِاعتنا سمجھیں گے؟
اگر دورہ ِپاکستان میں (خدانخواستہ) ا±ن پر دہشت گرد کوئی کارروائی ڈالنے میں کامیاب ہوجاتے تو پاکستان کے نام کے ساتھ امن اور تعلیم کا جو چراغ ملالہ یوسف زئی نے روشن کیا اور جس طرح بیرون ِملک رہ کر ا±نہوں نے اپنے مشن کی تکمیل کوہر حالت میں نبھانے کا عہدکیا ہے اُس نوبل ِانعام یافتہ ملالہ پر (خدانخواستہ) کوئی’وار‘ کر جاتا تو اِس صورت میں کیا ملک کی نیک نامی ہوتی؟دہشت گردوں نے نہ صحافیوں کو بخشا نہ ہی زندگی کے کسی شعبہ سے تعلق رکھنے والے کسی پاکستانی کو'چند مخصوص گروہ کے صحافیوں نے ملا لہ یوسف زئی تک پریس کی رسائی نہ ملنے پر اگر اپنی ناگواری کا اظہار کیا تو ا±نہیں سمجھنا چاہیئے کہ دہشت گرد خاموش ضرور ہوگئے ہیں لیکن اِکادُکا دہشت گردی کی کارروائیاں اب بھی جاری ہیں یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں کے مقامی سہولت کاروں تک حکومتی ذمہ داروں کا شکنجہ چاہتے ہوئے بھی نجانے اب تک کیوں نہیں کسا جاسکا؟
کاش! فاٹا کے حساس ایشوکو باہمی قومی اتحاد واتفاق کی قومی سیاست کے توسط سے سیاسی مصلحتوں کا شکار نہ بنایا جاتا؟بلا تاخیر فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کر لیا جاتا سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں پر آئین ِپاکستان کا قانون نافذ ہو جاتا جوکہ مصلحتوں کا شکار ہوگیا پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کی سرحدیں افغانستان کی اندرونی امن وامان کی بگڑتی ہوئی سنگین صورتحال کے سبب کسی طور پاکستان کے لئے لائق ِ اطمنان نہیں تورخم سے چمن تک افغانستان سے دہشت گرد آرہے ہیں واپس جارہے ہیں‘ یہی وہ لمحہ ِ فکریہ ہے ہمیں باامر مجبوری ماننا ہوگا کہ ملک پر نامعلوم آسیب زدہ کمزور طرز ِحکمرانی نے درمیانے مزید نچلے طبقے کے محروم عوام کی زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں ہمارے سیاست دان مستقبل کے ویژن سے نابلد' دوربینی فکرکے فہم وادراک کی گہرائیوں کی سیاسی بصیرتوں سے تہی دست وہ کیا فی زمانہ سیاسی مفادات کو ترجیح نہیں دے رہے ‘ افغانستان کا دورہ چند برس پیشتر ایک ایسے نام نہاد قوم پرست لیڈر کو کروایا گیا جن کے نزدیک ملکی معیشت‘ ملکی بقاءاور ملکی سلامتی کی کوئی اہمیت ہی نہیں، وہ اگرملک میں رہیں یا افغانستان جائیں بھارتی پوائنٹ آف ویو کی زباں زیادہ سمجھتے دکھائی دیں گے، صدر غنی اورمودی کے پلڑے میں بیٹھے دکھائی دیں گے کیا وہ وقت اب بھی نہیں آیا کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے پاکستان اور افغانستان کے مابین طے شدہ ڈیورنڈلائن کو جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الااقوامی سرحد ہے زمینی حالات واقعات کی سنگینی میں ترجیحی بنیا دوں پر کوئی دیر کیئے بنا خود بھی ہمیں سمجھنا ہوگا اور عالمی سطح پر مضبوط‘ ٹھوس اور تاریخی دلائل سے ’ڈیورنڈ لائن‘ کی تزویری اہمیت کو افغانستان سے بھی تسلیم کروانے کی اعلیٰ سطحی قومی پالیسی پر ہرصورت میں گامزن ہونا ہوگا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن