....اب کس کی باری ہے؟
پاکستان کے گرد و قریب حالات اتنی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں کہ پاکستان کے اندرونی و بیرونی چیلنجز میں ہر روز اضافہ ہوتا نظر آتا ہے۔ سینٹ کے سابقہ چیئرمین جناب رضا ربانی نے گزشتہ روز آئین کے نفاذ کا دن مناتے ہوئے سینٹ کو اپنے خطاب میں کہا ہے کہ حکومت کی معیاد آئینی طور پر ختم ہونے سے قبل سالانہ بجٹ 2018-19ءابھی سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے سامنے لانا ایک ایسا غیر معمولی فیصلہ ہے جس نے طرح طرح کے الارم کی گھنٹیاں بجانا شروع کر دی ہیں۔ آخر وہ کون سے اسباب ہیں جن کی وجہ سے موجودہ اقتدار میں پارٹی یعنی مسلم لیگ نون کو یہ اقدام اٹھانے پڑے ہیں۔ اگرچہ پارٹی قیادت اور وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی کے علاوہ وفاقی حکومت و وزیراعلیٰ پنجاب کے بیانات سے سابق وزیراعظم جناب میاں محمد نواز شریف کے اس بیان کو تقویت ملتی ہے کہ موجودہ حکومت ہر شعبہ میں خصوصاً ترقیاتی کاموں میں ترقی اور تیزی کے ساتھ روشن مستقبل کی طرف آگے بڑھ رہی ہے لیکن عدالتوں میں سابق وزیراعظم اور ان کے خاندان کے خلاف مقدمات جو منفی رخ اختیار کرتے نظر آتے ہیں اور عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی مہنگائی بے روزگاری کے علاوہ عام طور پر گڈ گورننس کے کالعدم ہونے کا زمینی حالات جو عندیہ دیتے ہیں ان سے ”سب اچھا“ محسوس نہیں ہوتا۔ مقدمات کا یہ سلسلہ سلجھنے کی بجائے مزید الجھتا جا رہا ہے اور NAB میں مختلف ریفریسنز کی پیروی کے دوران شریف خاندان کی مختلف گزارشات کو طول دینے کی بجائے جس تیزی کے ساتھ نمٹایا جا رہا ہے اس سے بظاہر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ماہ اپریل کے آخر یا ماہ مئی کے وسط تک ان مقدمات یا ریفرنسز کے فیصلے آنے شروع ہو جائیں گے۔ جن میں سابق وزیراعظم ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز اور بیٹی مریم صفدر اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر کے خلاف فیصلوں کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ذرائع نے اڈیالہ جیل میں مرمت اور صفائی و دیگر آرائش کی سہولتوںکی تیاری کے بارے میں خبریں اور تصویریں بھی شائع کی ہیں جن سے حالات کی نزاکت کا اندازہ لگایا جا سکتاہے۔دوسری طرف اندرونی سطح پر ملک کے داخلی معاملات میں وفاق سمیت تمام صوبوں میں بھی سیاسی سطح پر غیر معمولی سرگرمی بلکہ ہنگامہ کی صورت پائی جاتی ہے نہ صرف ملک کے تمام بڑے شہروں میں تمام بڑی سیاسی جماعتیں بڑے بڑے جلسے جلوس اور ریلیاں نکال رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون پشاور اور ہزارہ میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہے جبکہ دوسری جماعتیں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف بھی پنجاب کے علاوہ سندھ اور بلوچستان میں اپنا پاور شو کا مظاہرہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کر رہی ہیں۔ جماعت اسلامی نے گزشتہ دنوں لاہور میں مینار پاکستان کے وسیع سبزہ زار میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ دینی جماعتیں متحدہ مجلس عمل کی صورت میں مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں جمع ہو رہی ہیں۔ اس طرح سیاست کے میدان میں ایک پرسکون اور توازن کا ماحول پیدا کرنے کی بجائے مختلف بڑی سیاسی جماعتوں کے اندر توڑ پھوڑ اور بدنظمی کا ماحول ایک غیر صحت مند ”فرنٹ“ کی شکل دینے کی مختلف کاوشوں میں سرگرم ہیں تاکہ مرکز میں نگران حکومت قائم ہونے سے پہلے اور انتخابات کے انعقاد سے قبل قوم کو مسلم لیگ نون کے زیر اثر سٹیٹس کو کو قائم رکھنے یا موجودہ حکومت کو گرا کر نئی حکومت میں موجودہ پوزیشن مل کر اپنے لئے ایک مضبوط ایسی حکومت قائم کر سکیں جس میں شریف خاندان کے موجودہ اثر و رسوخ کو ختم کیا جا سکے۔ اس سلسلہ میں چند ہفتے پہلے بلوچستان میں شروع کیا گیا۔ آزاد ممبران کا ایک آزاد محاذ قائم کرنا افق پر صاف نظر آ رہا ہے جس کا مظاہرہ گزشتہ روز جنوبی پنجاب میں چند ایم این ایز اور ایم پی ایز نے ایک سیاسی دھماکہ کی صورت میں کیا ہے۔ بلوچستان میں ظہور پذیر ہونے والے طوفان کے پہلے قطرے کے بعد جنوبی پنجاب میں اپنی محرومیوں کو دور کرنے کیلئے اتحاد کا جو اعلان سامنے آیا ہے یہ کوئی معمولی وقت گزر جانے والا حادثہ نہیں ہے۔ ان دڑاروں کو مزید وسعت دینے کیلئے کئی طاقتیں انتظار میں تاک لگا کر بیٹھی ہیں کہ وہ بھی میدان میں کود پڑیں جس کیلئے اب سنٹرل پنجاب میں نئے چہرے اب اپنے نئے اور پرانے گلے شکوﺅں کے ساتھ جلد ہی بجٹ سے پہلے سامنے آنے کی تیاری کو آخری شکل دینے میں مصروف ہیں۔ اس میں سابق وزیر داخلہ چودھری نثار اہم کردار ادا کر رہے ہیں اس سلسلہ میں مسلم لیگ کے اقتدار سے باہر رہے۔ دھڑے اکھٹے ہو کر پیر صاحب پگاڑا کی سرکردگی میں مسلم لیگ کو مائنس نواز شریف خاندان اکٹھا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ جس کیلئے پیر صاحب پگاڑا آج کل لاہور میں مسلم لیگ کی مختلف شخصیات سے ملاقاتیں کر رہے ہیں تاکہ اگلے انتخابات کے بعد پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ قاف سمیت ایک متحدہ مسلم لیگ کی حکومت وجود میں آ سکے۔ بیرونی محاذ پر وزیراعظم درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے چین گئے ہوئے ہیں۔ ادھر ہمارے ازلی دشمن بھارت نے پاکستان کے دیگر دشمنوں کے ساتھ مل کر عدم استحکام کا جو ناپاک بیڑا اٹھا رکھا ہے ان سے نمٹنے کیلئے خدا کا شکر ہے کہ ہماری بہادر فوج ہر لمحہ تیار اور چوکس ہے۔ پاکستان کو درپیش اکنامک اور معاشی جو بحرانی وارننگ کی گھنٹیاں بج رہی ہیں ان سے محفوظ راستہ تلاش کرنے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے جارحانہ رویہ کا بین الاقوامی سطح پر مناسب اور موثر جواب قومی سطح پر ہماری اولین ترجیح ہونا چاہئے جس کا اگلے کالم میں انشاءاللہ ذکر کروں گا۔پاکستان زندہ باد