نااہلی مدت پارلیمنٹ کا استحقاق‘ نوید قمر : فیصلہ عوام کو کرنا چاہیے : بلاول
کراچی/ لاہور/ اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں+ خصوصی نامہ نگار+ وقائع نگار+ نوائے وقت رپورٹ) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نااہلی سے متعلق عدالتی فیصلوں کا ذمہ دار مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو قرار دے دیا ہے۔ آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے ٹویٹر پر اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا میں اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں سیاستدانوں کے مستقبل کا فیصلہ عوام کو کرنا چاہئے۔ بدقسمتی سے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے سیاسی معاملات عدالت کے حوالے کر دئیے۔ اب نااہل نواز شریف اور جہانگیر ترین اپنے کئے کے نتائج بھگتیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا نوازشریف نے 62 ایف ون کی حمایت کی اور یہ اسی فیصلے میں پھنسے۔ اگر پارلیمنٹ کو تسلیم کریں گے تو فیصلے پارلیمنٹ اور عوام کریں گے۔ 73 کے آئین کے تحت اداروں کو چلنے کی گائیڈلائن دی گئی لیکن جمہوریت، ملک دشمن اور عوام دشمنوں نے پارلیمنٹ اور ملک کے آئین کو پامال کیا اور عوام سے حقوق چھین لئے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں نے اقتدار کی خاطر ڈکٹیٹر کا ساتھ دیا اور دیتے آئے۔ 18 ویں ترمیم ہوئی تب بھی اس نشانی کو قائم رکھنے کے لیے اٹھارویں ترمیم ختم کرنے کی تجویز کو قبول نہیں کیا، پارلیمنٹ کی بالادستی کسی اور کے ہاتھ میں دیں گے تو سیاستدانوں کو نقصان ہو گا۔ اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ آج بھی سیاستدانوں سے کہتا ہوں پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کروگے تو سیاست اور جمہوریت چلے گی۔ اس سپرٹ کے ساتھ تسلیم نہیں کرو گے تو سیاست کو کھو دو گے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ پانامہ کے سلسلے میں بھی کوشش کی کہ پارلیمنٹ فیصلہ کرے، سیاستدانوں کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے مگر نواز شریف نے بار بار کہنے کے باوجود پارلیمنٹ کی گزارش کو تسلیم کرنے کی بجائے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، اپنی سیاست کا منبع پارلیمنٹ سے ہٹا کر سپریم کورٹ لے گئے، وہ آئین کے تحت فیصلہ کرے گی، اب جو فیصلہ کیا اسے خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ لڑنے جھگڑنے کی ضرورت نہیں۔اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھاکہ عدالتوں کے فیصلے ہوتے ہیں اور وہ مظلوم نہیں ہوتے۔ نواز شریف نے 62 ون ایف کی خود حمایت کی اور یہ اسی فیصلے میں پھنسے۔ آج نواز شریف کی اپنی حکومت ہے، کیبنٹ اور ادارے ان کے ہیں، اس درمیان ان کو سزا ہورہی ہے، اس لیے مظلوم ہونا مشکل ہے۔ ایک سوال کے جواب میں خورشید شاہ نے کہا کہ طیارہ کیس کسی اور طریقے کا تھا، وہ ایک ڈکٹیٹر بمقابلہ وزیراعظم تھا، ڈکٹیٹر کے جتنے قانون تھے ختم کردیئے گئے لیکن نوازشریف نے 62 اور 63 ختم نہیں ہونے دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ترجمان چوہدری منظور نے کہا اگر 62 ون ایف پر فیصلہ پارلیمنٹ کرتی تو زیادہ مناسب تھا۔ پیپلز پارٹی نواز شریف کو کہتی رہی کہ ضیا دور کی چیزوں میں ترامیم کریں۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ پارلیمنٹ کی بالا دستی کی بات کی۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آرٹیکل 62 ون ایف کی تعریف واضح ہوگئی ہے۔ شیخ رشید احمد نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کی تعریف کا مسئلہ تھا لیکن آج اس کی تعریف کلیئر ہوگئی ہے اور واضح ہوگیا ہے کہ نااہلی تاحیات ہوگی۔ یہ آئین کا سب سے اہم مسئلہ تھا جس کا فیصلہ سنادیا گیا ہے اور صورتحال واضح ہوگئی ہے۔اپنے خلاف زیر سماعت نااہلی کیس کے حوالے سے شیخ رشید احمد نے کہا کہ میرے کیس میں جو بھی فیصلہ ہوگا وہ قبول کروںگا۔ قومی اسمبلی میں میرا سپیکر ہی نہیں کھلتا۔ میں واحد آدمی ہوں جس کا 80 فیصد سپیکر بند رہا لیکن پھر بھی میں نے ختم نبوت پر آواز اٹھائی۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا تاحیات نااہل ہونے والے اب استغفار کریں، سپریم کورٹ پانامہ لیکس کے دیگر 435 افراد کو بھی بلاتی۔ ان کا کہنا تھا کرپٹ لوگوں سے کوئی رعایت نہ کی جائے کیونکہ پاک صاف پاکستان کیلئے سب کا احتساب ناگزیر ہے۔ سراج الحق نے کہا نیب کے پاس کرپشن کے 150 میگا سکینڈلز ہیں انہیں کیوں نہیں کھولا جا رہا۔ انہوں نے اپیل کی کہ چیف جسٹس اپنی نگرانی میں لوٹی گئی دولت کی واپسی کا میکنزم بنائیں کیونکہ حقیقی احتساب بیرون ملک پڑی قومی دولت کی واپسی سے شروع ہو گا۔ امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا الیکشن کمشن آئندہ انتخابات میں کرپٹ ٹولے کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دے۔ وائس چیئرمین تحریک انصاف شاہ محمود قریشی نے کہا پی ٹی آئی جہانگیر ترین کی نااہلی کا فیصلہ قبول کرتی ہے۔ سپریم کورٹ بڑی عدالت ہے لہٰذا فیصلے کو تسلیم کرنا چاہیے۔ تاریخی نوعیت کا فیصلہ آیا ہے اور جہانگیر ترین کی نااہلی کا فیصلہ قبول کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا تحریک انصاف قانون کی بالادستی چاہتی ہے تاہم (ن)لیگ ترمیم لائی تو تحریک انصاف چیلنج کرے گی۔ نواز شریف نے خود کو سیاسی طور پر زندہ رکھنے کے لیے بیانیہ بنایا۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 2013کے الیکشن میں دھاندلی کیس کا فیصلہ بھی ہماری خواہش کے مطابق نہیں آیا۔ مسلم لیگ(ن)والے بادشاہ لوگ ہیں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں تاہم تحریک انصاف سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرتی ہے۔ جماعتیں چند شخصیات کے گرد نہیں گھوما کرتیں جبکہ(ن)لیگ کو کوئی ایسی قانون سازی نہیں کرنی چاہیے جس سے انہیں اور جمہوریت کو نقصان ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب کے علیحدہ صوبے کی خواہش پچھلے 40 سال سے چلی آرہی ہے، ایوب خان کے دور میں پانی کی تقسیم میں بھی جنوبی پنجاب متاثر ہوا۔ علاوہ ازیں قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر نے واضح کیا کہ 1973ءکا آئین مقدس دستاویز ہے‘ اس میں کسی کو بھی ایک لفظ لکھنے کی اجازت نہیں‘ پارلیمنٹ ہی اس میں ردوبدل کا مکمل اختیار رکھتی ہے۔ نکتہ اعتراض پر سید نوید قمر نے کہا کہ واقعی یہ ایسا دن تھا جس وقت ضرورت اس بات کی تھی ہم آئین بنانے والوں کے کردار کو زیر بحث لاتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کا وژن اور تمام جماعتوں کا اکٹھا ہو جانا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اس آئین کا کمال یہ ہے کہ متعدد مرتبہ مارشل لاءلگے مگر یہ آئین ختم نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ جب سیاسی جماعتیں یکسو ہو جاتی ہیں تو ملک کی ڈائریکشن بدلی جاسکتی ہے۔ آج آئین کے آرٹیکل 62(1) ایف پر عدالتی فیصلہ آیا ہے۔ 1973ءکے آئین میں کسی کو کوئی لفظ لکھنے کی اجازت نہیں۔ یہ استحقاق صرف پارلیمنٹ کا ہے کہ نااہلی کی کوئی حد مقرر کرنی ہے یا نہیں۔اس حوالے سے صرف پارلیمنٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کے 1973ءکے آئین پر دستخط کرنے والے رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ نذیر سلطان نے سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب ان کی جگہ ان کا بیٹا الیکشن لڑے گا‘ ذوالفقار علی بھٹوکا کارنامہ ہے کہ انہوں نے 1973ءکے آئین کو غیر متنازعہ بنایا۔ قومی اسمبلی میں سپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ ہمارے لئے اعزاز کی بات ہے کہ اس ایوان میں 1973ءکے آئین پر دستخط کرنے والے رکن صاحبزادہ نذیر سلطان موجود ہیں۔ ہم آپ کے اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی کیپٹن (ر) محمد صفدر نے مطالبہ کیا ہے کہ 1973ءکا آئین توڑنے والے سابق صدر پرویز مشرف کو عدالتی کٹہرے میں لانے کے لئے سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے۔ جمعہ کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیپٹن (ر) محمد صفدر نے کہا کہ ہمارے لئے اعزاز کی بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں ایسے رکن موجود ہیں جنہوں نے 1973ءکا متفقہ آئین دیا۔ متنازعہ فیصلوں سے ریاست کو نقصان اٹھانا پڑا۔ جسٹس منیر کے متنازعہ فیصلے کے بعد ملک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ آئین تین دفعہ ٹوٹا مگر عدالتوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ آئین میں آرٹیکل بھی موجود ہے۔پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے آئین کے آرٹیکل62ون ایف کے تحت ہونے والی نااہلی کی مدت تاحیات مقرر کیے جانے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے متفقہ فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلہ سے آئینی ایوانوں میں بدعنوانوں کا داخلہ روکنے میں مدد ملے گی۔ وقت آگیا آئین کی طاقت سے کرپشن ،بدعنوانی اور جھوٹ کی سیاست کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا جائے۔ گزشتہ روز انہوں نے نااہلی مدت میں فیصلہ آنے کے بعد اپنے موقف میں کہا کہ سپریم کورٹ نے 62 ون ایف کی تشریح کر کے ایک اہم آئینی فریضہ انجام دیا، شفافیت کے کلچر کو پروان چڑھانے کیلئے فیصلہ سنگ میل ثابت ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ بدعنوانی کے خاتمہ کی قومی جنگ میں محب وطن عوام، دانشور حلقے سپریم کورٹ ایک پیج پر ہیں۔نااہل، قاتل اور کرپٹ ٹولے نے جو بویا آج دونوں ہاتھوں سے کاٹ رہا ہے ۔ یہ ابھی ابتدا ہے، ان کا عبرتناک انجام پوری دنیا دیکھے گی۔ ابھی سانحہ ماڈل ٹاﺅن اور احتساب عدالت کے فیصلے آنا باقی ہیں، ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ نااہل ٹولہ اپنی کرپشن اور جھوٹ پکڑے جانے پر جس طرح پاکستان کی سب سے بڑی عدالت اور اس کے معزز ججز کو ٹارگٹ کررہا ہے وہ شرمناک اور قابل گرفت ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو اور کرپٹ نواز شریف کے کیس میں کوئی مماثلت نہیں، احتساب عدالت میں دائر کرپشن ریفرنسز کے فیصلے کرپٹ اشرافیہ کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ثابت ہونگے۔
طاہر القادری
نوید قمر/ بلاول