• news

لاہور : سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن کی رہائش گاہ پر 2 بار فائرنگ‘ چیف جسٹس خیریت دریافت کرنے پہنچ گئے

لاہور‘ اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی‘سٹاف رپورٹر‘ایجنسیاں‘نوائے وقت رپورٹ‘نیٹ نیو ز )سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن کی لاہور میں ماڈل ٹاﺅن کے علاقے میں رہائش گاہ پر فائرنگ کی گئی ہے، فائرنگ کا واقعہ ہفتہ کی رات 10 بج کر 50 منٹ پر اور اتوار کی صبح 9 بجکر 45 منٹ پر پیش آیا۔ سپریم کورٹ سے جاری اعلامئے کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار جسٹس اعجاز الاحسن کی خیریت دریافت کرنے کیلئے ان کی رہائش گاہ 112 ایچ ٹو ماڈل ٹاﺅن پہنچ گئے۔ چیف جسٹس پاکستان صورتحال کی خودنگرانی کررہے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر گیراج سے گولی کا سکہ ملا ہے، ملنے والا سکہ نائن ایم ایم پستول کا ہے، فرانزک لیب بھجوا دیا۔ پولیس نے علاقے کی سی سی ٹی وی ویڈیو حاصل کرلی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے جسٹس اعجاز الاحسن کی رہائش گاہ پر فائرنگ کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے ہدایت کی کہ ملزمان کو قانون کی گرفت میں لاکر فوری کارروائی کی جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے پرسنل سٹاف آفیسر، جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پہنچے تھے تاہم ترجمان سپریم کورٹ کے مطابق سپریم کورٹ انتظامیہ نے پی ایس او کی جسٹس اعجاز الاحسن سے ملاقات کروانے سے انکار کردیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے ذمہ داروں کو جلد سے جلد کٹہرے میں لانے کی ہدایت کی ہے۔ واضح رہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن پانامہ کیس کی سماعت کرنے والے بنچ میں شامل تھے اور وہ احتساب عدالت میں زیر سماعت ریفرنس کے نگران جج بھی ہیں۔ پنجاب حکومت کے ترجمان ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر فائر نگ کی تحقےقات کو وزےر اعلی پنجاب خود مانٹےر کر رہے ہےں ‘فائر نگ کے واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے اس سے زیادہ شرمناک عمل ہو نہیں سکتا۔ ملزمان کوجلد سے جلد گرفتار کر کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن سپریم کورٹ کے جسٹس ہیں اور انہیں فول پروف سکیورٹی دی جاتی ہے اور اسے مزید بڑھایا دیا گیا ہے۔ تاحال حملے میں ملوث کسی شخص کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق رات کو فائر کی گئی ایک گولی مرکزی دروازے اور صبح فائر کی گئی دوسری گولی کچن کی کھڑکی پر لگی۔ فائرنگ نائن ایم ایم پستول سے کی گئی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے آئی جی پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ عارف نواز خان کو بھی جسٹس اعجازالاحسن کے گھر طلب کر لیا۔ اس حوالے سے صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کی رہائش گاہ کے باہر سکیورٹی موجود ہوتی ہے اور وہاں کلوز سرکٹ کیمرے بھی نصب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فائرنگ کے واقعے کے حوالے سے فی الحال کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ پولیس، رینجرز اور حساس ادارے اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں اور تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچا جا سکے گا۔ چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب پولیس کو ہدایت کی کہ ملزمان کا فوری پتہ لگایا جائے اور فائرنگ کے واقعہ کے محرکات دیکھے جائیں۔ پولیس اور رینجرز نے علاقہ کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن کیا۔ ادھر اسلام آباد میں بھی ججز کی سکیورٹی سخت کردی گئی ہے۔ سپریم کورٹ بار نے جسٹس اعجازالاحسن کے گھر پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جج کے گھر پر یوں فائرنگ ہونا افسوسناک عمل ہے، ججز کی سکیورٹی پر خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ واقعہ کا مقدمہ تھانہ ماڈل ٹاﺅن میں درج کر لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق ماڈل ٹا¶ن میں پولیس کی چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں اور جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر کے قریب بھی ایک پولیس چیک پوسٹ ہے لیکن فائرنگ کے واقعات کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر کے باہر پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری کو تعینات کیا گیا ہے اور وہاں سے گزرنے والے ہر شخص کو شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد آگے جانے کی اجازت دی جارہی ہے۔ واقعہ کے بعد سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے کئی ججز بھی انکی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ پاکستان بار کونسل،پنجاب بار کونسل،لاہور ہائی کورٹ بار اور دیگر وکلاءتنظیموں نے سپریم کورٹ کے جسٹس اعجازالاحسن کے گھر فائرنگ کے واقعہ کے خلاف آج عدالتی بائیکاٹ اور ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ جبکہ سپریم کورٹ بار نے چیف جسٹس کی ہدائت پر ہڑتال کی کال واپس لے لی۔پاکستان بار کونسل کے وائس چئیرمین کامران مرتضی کے مطابق پاکستان بار کونسل نے وکلاءکو اس واقعے کے خلاف جزوی ہڑتال کی کال دی ہے۔وکلاء11سے11.45تک ہڑتال کریں گے۔بازوﺅں پر سیاہ پٹیاں باندھیں گے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں گے۔ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنز بھی مذمتی اجلاس منعقد کریں گی۔جسٹس اعجازالاحسن کے گھر کے باہر فائرنگ کے واقعہ کے خلاف سپریم کورٹ بار کے عہدیداروں نے ہنگامی پریس کانفرنس کی۔ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پیر کلیم احمد خورشید نے کہا کہ عدلیہ کو دباﺅ میں لانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ آئندہ کاالائحہ عمل طے کرنے کے لئے وکلاءکنونشن بلایا جائے گا۔ہمارا مطالبہ ہے کہ جے آئی ٹی تشکیل دی جائے۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے ادارے کو اس طرح ختم قنے نہیں دیں گے۔ فائرنگ جیسے واقعات سے ججز کو دباﺅ میں نہیں لایاجا سکتا۔ وکلاءعدلیہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔نائب صدر قمرالزمان قریشی نے کہا کہ واقعہ کے خلاف ملک بھر کے وکلاءآج عدالتی بائیکاٹ اور ہڑتال کریں گے۔ سیکرٹری سپریم کورٹ بار کے سیکرٹری صفدر تارڑ نے کہا کہ فائرنگ کا واقعہ کھلی دہشت گردی ہے۔ دو مرتبہ فائرنگ کا واقعہ پنجاب حکومت کی مجرمانہ غفلت ہے۔ بار کے سینئر ممبر میاں ظفر اقبال کلانوری اوردیگر عہدیداروں نے کہا کہ ملک میں کسی سیسیلین مافیا کی گنجائش نہیں۔فائرنگ جیسے واقعہ سے عدلیہ کو دھمکایا نہیں جا سکتا۔ہڑتال کی کال کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے سپریم کورٹ بار کے صدر کو فون کیا اور عوامی مفاد میں ہڑتال کی کال واپس لینے کو کہا۔ انہوں نے واقعے کے خلاف اظہار مذمت پر بار کا شکریہ بھی ادا کیا۔جس کے بعد سپریم کورٹ بار نے کال واپس لے لی۔ فائرنگ کے واقعہ کے خلاف پنجاب بار کونسل اورلاہور ہائیکورٹ بار نے بھی احتجاج کی کال دے دی ہے۔چیئرمین اوورسیز پاکستانیز فاونڈیشن بیرسٹر امجد ملک نے بھی جسٹس اعجازلاحسن کے گھر فائرنگ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا کہ واقعہ میں ملوث ملزمان کو جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ جوڈیشل ایکٹوازم پینل کے عہدیداروں کا ہنگامی اجلاس ہوا۔چیئرمین جوڈیشل ایکٹوازم اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ واقعہ خوف و ہراس پھیلانے کی بدترین مثال ہے۔ ملزمان کو کٹہرے میں لایاجائے۔سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجازالاحسن کے گھر فائرنگ کا واقعہ کے خلاف تحریک انقلاب کے سربراہ علم الدین غازی ایڈووکیٹ نے بھوک ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ینگ ڈاکٹرزایسوسی ایشن نے بھی اس واقعے پر شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔علاوہ ازیں جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر فائرنگ کا مقدمہ تھانہ ماڈل ٹاﺅن میں درج کرلیا گیا۔ پولیس کے مطابق ایف آئی آر میں اقدام قتل اور دہشت گردی کی دفعات شامل ہیں۔ مقدمہ پولیس کانسٹیبل آصف کی مدعیت میں درج کیاگیا ہے۔ دوسری طرف پنجاب حکومت نے جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر فائرنگ کے واقعہ کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دیدی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی رائے محمد طاہر جے آئی ٹی کے سربراہ ہوں گے۔ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن سلطان چودھری بھی جے آئی ٹی کا حصہ ہیں۔ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی‘ ایم آئی اور آئی بی کے نمائندے شامل ہیں۔ سپیشل برانچ اور فرانزک ایجنسی کے نمائندے بھی جے آئی ٹی میں شامل ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر فائرنگ کے واقعہ کے مقدمہ کی تحقیقات کے لئے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور چودھری سلطان احمد کی سربراہی میں پولیس کی بھی چار رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔ تحقیقاتی کے ٹیم کے ممبران میں ایس ایس پی انویسٹی گیشن لاہور غلام مبشر میکن‘ ایس پی سی آئی اے ندیم عباس اور ایس پی انویسٹی گیشن ماڈل ٹاﺅن شاکر احمد شاہ شامل ہیں۔ پولیس نے جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر فائرنگ کے واقعہ کی ابتدائی رپورٹ جاری کر دی۔ پولیس رپورٹ کے مطابق ایک اندھی گولی گھر کے گیٹ کے اوپر کے حصے پر لگی۔ نائب حوالدار رینجرز کے مطابق فائرنگ کا واقعہ رات پونے گیارہ بجے پیش آیا۔ ایس پی آپریشنز ماڈل ٹاﺅن نے فائرنگ کے واقعہ کی ابتدائی رپورٹ جاری کی ‘ گولی کا زاویہ پیرا بولک انداز میں تھا ابتدائی تجزئیے کے مطابق گولی کچھ فاصلے سے فائر کی گئی۔
فائرنگ

ای پیپر-دی نیشن