چوہدری شجاعت حسین کا ’’کڑوا سچ‘‘۔۔1
تین سال قبل کی بات ہے مسلم لیگ(ق) کے صدر و سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کا فون آیا وہ کبھی خبر کی اشاعت کے لیے فون نہیں کیاکرتے لیکن انہوں نے ’’بلا گ ‘‘ لکھنے کی خبر کی اشاعت کا تقاضا کیا میں نے ازراہ مذاق کہا کہ ’’ آج بڑی خوشی کا دن ہے بلبل کی آواز سن رہا ہوں ‘‘ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں بڑے اتار چڑھائو دیکھے ہیں اگرچہ انہوں نے اپنی یادداشتیں اس بلاگ میں تحریر کرنے کا عندیہ دیا جو ان کی ویب سائٹ (چودھری شجاعت حسین ڈاٹ کام) پر اقساط کی صورت میں شائع کی جانی تھیں لیکن انہوں اپنا ارادہ ترک کر دیا اور یہ سب کچھ اپنی کتاب میں تحریر کرنے کا فیصلہ کیا لیکن کتاب کی اشاعت کو بھی تین سال لگ گئے چوہدری شجاعت حسین نے وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں’’ سادگی اور خاموشی‘‘ سے اپنی 70ویں سالگرہ منائی تو ان کوایک بار پھر تاریخی حقائق منظر عام پر لانے کا وعدہ یاد کرایا گیا ۔ چوہدری شجاعت حسین کی خود نوشت جو 328صفحات پر مشتمل ہے جو 2008ء تک کے واقعات پر محیط ہے ۔انہوں نے کتاب کے اختتام پر 2008ء کے بعد کے واقعات کو بھی کتاب میں شامل کرنے کا وعدہ کیا ہے مجھے امید ہے جب وہ 2008ء کے بعد کے واقعات کو قلمبند کریں گے تو ان سوالات کا جواب بھی دیں گے جو قاری ان سے جاننا چاہتا ہے چوہدری شجاعت حسین کا پچھلی پانچ دہائیوں سے ملکی سیاست میں ایک کردار ہے جسے کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ان کا شمار پاکستان کے ان سیاست دانوں میں ہوتا ہے جن کے حوالے سے سیاست میں ’’کہاوتیں‘‘ مشہور ہیں جنہوں نے نئے ’’ سیاسی محاورے‘‘ متعارف کرائے مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین کا شمار پاکستان کے چند چوٹی کے سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی سیاسی زندگی میں وہ سب کچھ حاصل کر لیا جو ایک سیاسی رہنما اورکارکن کی خواہش ہوتی ہے۔ ان کا تعلق گجرات کے اس سیاسی خانوادے سے ہے جس کا اوڑھنا بچھونا سیاست ہے اور وہ سیاست کو عبادت سمجھ کر سرانجام دیتے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین دھیمے مزاج کے سیاست دان ہیں۔جارحیت انھیں چھو کر بھی نہیں گزری۔ چوہدری شجاعت حسین نے اپنی کتاب ’’سچ تو یہ ہے‘‘ کی تمہید میں چوہدری ظہور الہیٰ شہید کی استقامت و شہادت کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے ایک پورے باب میں اپنے خاندانی پس منظر کو بیان کیا ہے ۔انھوں نے بتایا ہے کہ 1962 کے انتخابات چوہدری ظہور الہیٰ شہید کی سیاسی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس انتخاب میں کامیابی سے وہ قومی سطح پر سیاسی افق پر ابھرے۔ چوہدری ظہور الہیٰ نے نوابزادہ اصغر علی خان کو انتخابات میں شکست دے کر گجرات میں نوابزادہ خاندان کی سیاسی اجارہ داری کا خاتمہ کر دیا۔ چوہدری شجاعت حسین نے اپنی کتاب میں طارق عزیز کا خاص طور پر ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ طارق عزیز نے پاکستان ٹائمز میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ بعد ازاں انھوں نے سول سروس جوائن کر لی۔ چوہدری شجاعت حسین نے لکھا ہے کہ 1967 میں جب ذوالقفار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو انھوں نے چوہدری ظہور الہیٰ کو پیپلز پارٹی میںشرکت کی دعوت دی۔ وہ میری ہمشیرہ کی شادی میں شرکت کے لئے آئے تھے تاہم چوہدری ظہور الہیٰ نے پیپلز پارٹی میں شمولیت سے انکار کر دیا۔ 1970 کے انتخابات کے بعد میرے والد نے ذوالفقار علی بھٹو سے کہا کہ شیخ مجیب الرحمٰن کو حکومت سازی سے روکنے کا نتیجہ تباہ کن ہو سکتا ہے۔ انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ وہ بھی ان کے ساتھ بیٹھیں گے لیکن ا نھوں نے یہ مشورہ قبول نہیں کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو جب وزیراعظم بن گئے تو انھوں نے میرے والد کو وفاقی وزارت کی پیشکش کی جو انھوں نے قبول نہیں کی۔ ذوالفقار علی بھٹو پنجاب میں میرے والد کے سیاسی اثر و رسوخ سے خائف تھے لہذا میرے والد کو باقاعدہ سیاسی ہدف بنا کر ان کے خلاف انتقامی کاروائیاں شروع کر دی گئیں ۔ پیپلز پارٹی کے دور میں ہمارے خاندان کے خلاف سو کے قریب مقدمات قائم کئے گئے۔ میرے والد 5 جولائی 1977 ء تک پانچ سال جیل میں رہے۔ ہمارے ڈیرے پر بندھے ہوئے مویشی جن میں بھینسیں بھی شامل تھیں کومال مسروقہ قرار دے کر مویشی چوری کا مقدمہ بنایا گیا۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو نے رات کے اندھیرے میں چوہدری ظہور الہیٰ کے گھر سے اسلحہ برآمد کرنے کا ڈرامہ رچایا۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہیٰ کو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پہلی بار جیل یاترا کرنی پڑی تا ہم وہ جیل یاترا سے نہیں گھبرائے۔ جرات و استقامت سے جیل کاٹنا انھوں نے اپنے والد سے سیکھا تھا۔ چوہدری صاحب نے اپنی کتاب میں 1974 ء میں تحریک ختم نبوت میں اپنے والد کے کردار کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ختم نبوت کے حوالے سے ان کی کتاب میں پیر مہر علی شاہ، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا عبدالستار خان نیازی، سید ابو الاعلیٰ مودودی ،ذوالفقار علی بھٹو اور آغا شورش کاشمیری کا خاص طور پر ذکر ہے۔ کتاب میں خان عبدالولی خان کے والد خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ سترہ سال بعد جب لاہور آئے تو انھی کے گھر میں قیام پذیر رہے۔ انھوں نے لیاقت باغ کے جلسے اور اجمل خٹک کے کردار کے حوالے سے بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔غوث بخش بزنجو اور مفتی محمود کی دلچسپ عادات کا بھی ذکر کیا ہے۔ غوث بخش بزنجو کو گڑ والی مکس چائے پسند تھی، وہ لال مرچ کے شیدائی تھے۔ لال مرچ کے دو بڑے چمچے دیکھتے ہی دیکھتے نگل جاتے تھے۔ اکبر بگٹی کو سبز مرچ مرغوب تھی۔ وہ دس بارہ بڑے سائز کی ہری مرچیں کچی ہی چبا جاتے تھے جبکہ مفتی محمود جو شوگر کے مریض تھے وہ آم میں سے گٹھلی نکال کر آئس کریم ڈال کر دیوار کی طرف منہ کر کے ڈھیروں آم کھا جاتے تھے۔ چوہدری شجاعت حسین نے پاکستان کے سینئر صحافی سعود ساحر کی شرارتوں کا بھی ذکر کیا ہے جو یو ڈی ایف کے اجلاس میں میز کے نیچے چھپ کر رپورٹنگ کرتے رہے اور ایکسکلیوس سٹوری فائل کرتے لیکن وہ ایک روز پکڑے گئے اور سارا بھانڈا پھوٹ گیا۔ چوہدری ظہور الہیٰ استاد دامن کے بڑے پرستار تھے۔ حبیب جالب کا چوہدری ظہور الہیٰ سے خصوصی تعلق تھا۔ انھوں نے چوہدری ظہور الہیٰ پر نظم لکھی جس کا درج ذیل شعر بہت مشہور ہوا
؎؎آبرو پنجاب کی ، تو شان ہے پاکستان کی
پیار کرتی ہے تجھے دھرتی بلوچستان کی
چوہدری شجاعت صاحب کی کتاب میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء اور ابتدائی دور 1977 سے 1985تک کے عرصے پر محیط ہے۔ جنرل ضیاء الحق سے ان کی پہلی ملاقات چوہدری ظہور الہیٰ کی شہادت کے بعد ہوئی۔جنرل صاحب چوہدری ظہور الہیٰ کو ایک دلیر اوراصول پسند سیاست دان سمجھتے تھے۔ چوہدری شجاعت حسین کی میاں نواز شریف سے پہلی ملاقات 1977 میں اس وقت ہوئی جب جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد 90 دنوں میں الیکشن کرانے کا اعلان کیا تھا۔ چوہدری ظہور الہیٰ لاہور میں بھٹو کے مقابلے میں الیکشن لڑنا چاہتے تھے۔ا یک روز ہمارے گھر ایک نوجوان آیا اور اس نے کہا کہ وہ چوہدری ظہور الہیٰ سے ملنا چاہتے ہیں لیکن ان کی ملاقات نہ ہو سکی۔ وہ چوہدری پرویز الہیٰ کو اپنا وزیٹنگ کارڈ دے کر چلا گیا اور کہا کہ اسے اس کے والد میاں محمد شریف نے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ وہ چوہدری ظہور الہیٰ کی الیکشن مہم میں فنڈ دینا چاہتے ہیں۔ بہرحال ہم نے ان سے فنڈ نہیں لیے۔ یہ اس نوجوان ’’نواز شریف‘‘ سے ہماری پہلی ملاقات تھی۔ چوہدری شجاعت حسین نے اپنی کتاب میں ’’نواز شریف کی مسلسل عہد شکنی‘‘ کے نام سے ایک باب تحریر کیا ہے جو 1985 تا 1988 تک محیط ہے۔ 1985 کے الیکشن غیر جماعتی تھے۔ میاں نواز شریف کا نام بھی وزیر اعلیٰ کے لئے فلوٹ کیا گیا۔ سب کا یہی کہنا تھا کہ ہماری طرف سے چوہدری پرویز الہیٰ کا نام تجویز کیا جائے۔ گورنر پنجاب غلام جیلانی اور برگیڈیئر( ر) قیوم ہمارے گھر تشریف لائے اور انھوں نے کہا کہ وہ نواز شریف کو وزیر اعلیٰ بنانا چاہتے ہیں اور ہمیں سپیکر، ڈپٹی سپیکر اپنی مرضی کے منتخب کرانے کی اجازت ہے۔ میاں شہباز شریف سارے فیصلوں کی قرآن پاک پر ضمانت دینا چاہتے تھے لیکن ہم نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ اگلے روز جنرل جیلانی نے ضمانت دی۔ نواز شریف وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تو ان کے تیور ہی بدل گئے اور ہمارے ساتھ کیے ہوئے معاہدے کو انھوں نے پس پشت ڈال دیا۔ انھیں کچھ لوگوں نے پنجاب میں چوہدریوں کو ’’کٹ ٹو سائز‘‘ کرنے کا مشورہ دیا۔ چوہدری شجاعت حسین نے نواز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تیاری شروع کی۔ جنرل حمید گل اور بعض دیگر کی جانب سے ضیاء الحق کو یہ باور کرایا گیا کہ اگر نواز شریف کی جگہ چوہدری پرویز الہیٰ وزیر اعلیٰ بن گئے تو پنجاب میں چوہدری بہت طاقتور ہو جائیں گے۔ بعد ازاں جنرل حمید گل نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انھوں نے آخری موقع پر جنرل ضیاء الحق کا فیصلہ تبدیل کرا دیا تھا۔ میاں نواز شریف ایک بار پھر جنرل غلام جیلانی اور بریگیڈیئر(ر) قیوم کو سامنے لے آئے ۔ ان کے ساتھ نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی بھی تھے۔ ہمیں پیغام ملا کہ اپنے اختلافات ختم کر دیں اور میٹنگ کرلیں ۔سو اس طرح میاں نواز شریف کیلئے آگے بڑھنے کے راستے کھلتے گئے ۔ چوہدری شجاعت حسین کا ’’ سچ تو یہ ہے ‘‘ایک کالم میں قلمبند کرنا ممکن نہیں لہذا باقی اگلی قسط میں بیان کروں گا ۔