• news

قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس ،ترقیاتی پروگرام پر اختلاف، سندھ ، خیبرپی کے، بلوچستان کے وزرائے اعلٰی کا واک آؤٹ

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) سندھ، خیبر پی کے اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس سے واک آئوٹ کر دیا۔ تینوں وزرائے اعلیٰ نے ترقیاتی پروگرام اور آئندہ مالی سال کے بجٹ پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ پنجاب کو زیادہ فنڈز دئیے جاتے ہیں۔ واک آئوٹ کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے ۔قومی اقتصادی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے ۔اجلاس میں 13 میں سے 9 نمائندے موجود تھے۔ قومی اقتصادی کونسل اجلاس میں پی ایس ڈی پی پر بحث ہوئی۔ موجودہ حکومت مئی میں ختم ہوگی اگلے مالی سال کی پی ایس ڈی پی موجودہ حکومت نہیں بنا سکتی۔ قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس سے ہم 5 لوگ واک آئوٹ کرگئے۔وفاقی حکومت غیر آئینی اقدامات کررہی ہے۔ اجلاس میں پی ایس ڈی پی کی سمری پیش ہوئی۔ سمری میں لکھا تھا کہ اس کی منظوری دی جائے۔ ہم نے اپنا مؤقف اجلاس میں پیش کیا۔ اجلاس کے کچھ لوگوں نے کہا کہ آپ کی منظوری کی ضرورت نہیں۔ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے انہوں نے کہا کہ اجلاس میں ہم نے کہا جاری منصوبوں کیلئے رقم مختص کریں۔ ہم نے کہا جاری منصوبوں کیلئے بھی رقم مختص کرتے وقت صوبوں کا خیال رکھیں۔ ہم نے وزیراعظم سے کہا کہ ووٹنگ کرالیں وزیراعظم زبردستی اس سمری کی منظوری لینا چاہتے تھے۔ اجلاس میں ہمیں کہا گیا کہ آپ کی منظوری کی ضرورت ہی نہیں ہم نے کہا کہ جب منظوری کی ضرورت نہیں تو ہمارے یہاں بیٹھنے کا جواز نہیں۔ قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں پی ایس ڈی پی کو منظور نہیں کیا گیا۔ ہمارے واک آئوٹ کے بعد قومی اقتصادی کونسل کا کورم ٹوٹ گیا اگر ہمارے جانے کے بعد پی ایس ڈی پی منظور ہوئی ہے تو وہ غیر قانونی ہوگی۔ اجلاس میں باقی چار لوگ رہ گئے تھے۔ پی ایس ڈی پی میں چھوٹے صوبوں کا بالکل خیال نہیں کیا گیا۔ وزیراعلیٰ خیبر پی کے نے کہا ہے کہ ہماری گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ یہی بحث رہی کہ آپ انصاف نہیں کر رہے ہم سب نے کہا کہ انصاف کیا جائے یہ ترقیاتی بجٹ میں مرضی کے منصوبے شامل کر رہے ہیں پہلے بھی ہمارے ساتھ یہی دھوکہ ہوتا رہا ہے۔ ہماری سفارشات کو سکیم میں شامل نہیں کیا جاتا وفاق صوبوں کے اعتراضات نظر انداز کر رہا ہے۔ وہ ہم سے کم ریٹ پر بجلی لیکر مہنگے داموں فروخت کرتا ہے اگلی حکومت کیلئے بجٹ منظور نہیں۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ لائحہ عمل تو یہ ہے ہم 2018ء کے انتخابات میں جا رہے ہیں۔ نئے بجٹ کی نئی سکیمز سے متعلق آئین کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں نئی ترقیاتی سکیمز پر اعتراض ریکارڈ کرایا۔ این ایچ اے کے 79 منصوبوں کیلئے 150 ارب روپے رکھے گئے ہیں 79 منصوبوں میں سے صرف آٹھ منصوبے سندھ کیلئے ہیں، سندھ میں این ایچ اے کے منصوبوں کیلئے صرف چار ارب 15کروڑ روپے رکھے گئے۔ جاری منصوبوں کیلئے برابری کی بنیاد پر رقم مختص کرنے کا کہیں گے۔ ہم نے سیاسی نہیں آئینی بات کی۔ سندھ کے لئے صرف 12 کروڑ 50 لاکھ روپے کا صرف ایک منصوبہ رکھا گیا ہے۔ وزیراعظم نے این ای سی کا اجلاس دوبارہ بلایا تو آئینی ذمے داری پوری کریں گے۔ این ای سی میں نئے منصوبوں کی مخالفت کریں گے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ حکومت نے ترقیاتی بجٹ میں گزشتہ منصوبوں کو نیا بنا کر پیش کیا۔ وفاقی حکومت 3 ماہ کا بجٹ پیش کرے۔ حکومت کو چھٹا بجٹ پیش نہیں کرنا چاہئے۔ جو ڈرافٹ پیش کئے گئے اس میں نئی سکیمیں نہیں تھیں۔ وفاق کی جانب سے مرضی کی سکیمیں دی گئیں۔ وفاق اور صوبوں کے آمنے سامنے آنے سے نئے بجٹ کی تیاری کھٹائی میں پڑ گئی۔ قومی اقتصادی کونسل کا اہم اجلاس اختلافات کی نذر ہو گیا۔ اجلاس ترقیاتی پروگرام اور معاشی اہداف کی منظوری کیلئے بلایا گیا تاہم تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے ترقیاتی پروگراموں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ کورم پورا نہ ہونے کے باعث اجلاس ختم کر دیا گیا۔ اجلاس میں آئندہ مالی سال کے بجٹ اور ترقیاتی پروگراموں کی تفصیلات پر بریفنگ دی گئی جس پر وزیر اعلٰی سندھ ، وزیراعلیٰ خیبر پی کے اور وزیراعلٰی بلوچستان نے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ پنجاب کو تمام وسائل اور سب سے زیادہ فنڈز دیے جاتے ہیں جس پر وزیر اعظم نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا اور کسی صوبے کے ساتھ زیادتی نہیں ہو سکتی تمام صوبوں کو طے شدہ فارمولے اور کوٹہ کے تحت فنڈز دیئے جاتے ہیں اور اگر کسی صوبے کے ساتھ زیادتی ہوئی تو اس کے خلاف میں خود کھڑا ہوں گا۔ وزیر اعظم کی جانب سے معاملے کو حل کرانے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی مگر تینوں وزراء اعلیٰ باہر چلے گئے۔وزیر اعلیٰ پنجاب اجلاس کے آغاز کے ساتھ ہی چلے گئے تھے۔ قبل ازیں مشترکہ مفادات کی کونسل نے پہلی قومی واٹر پالیسی کی منظوری دیدی ہے۔ وزیراعظم اور چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ نے ’’پاکستان واٹر چارٹر‘‘ پر بھی دستخط کئے ہیں جس کے تحت ’قومی واٹر پالیسی‘ سے وابستگی کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ چارٹر کی بھی متفقہ طور پر منظوری دی گئی۔ مشترکہ مفادات کونسل کا 37واں اجلاس وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں ہوا۔ ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمشن سرتاج عزیز نے مشترکہ مفادات کی کونسل کو قومی واٹر پالیسی پر بریفنگ دی۔ سرتاج عزیز نے کہاکہ پالیسی تمام بڑے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ صلاح مشورہ سے مرتب کی گئی ہے۔ قومی سطح پر سیمینار بھی کرائے گئے تاکہ پالیسی پر اتفاق رائے پیدا ہو سکے۔ مشترکہ مفادات کی کونسل کے 36ویں اجلاس میں جو تجاویز آئی تھیں ان کو بھی پالیسی میں سمویا گیا ہے۔ قومی واٹر پالیسی پانی کے استعمال‘ ترجیحات کے تعین‘ پانی کے وسائل کی مربوط منصوبہ بندی اور ترقی‘ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا جائزہ‘ سرحدوں کے آر پار پانی کی تقسیم‘ پن بجلی‘ صنعت‘ زیرزمین پانی‘ پانی کے حقوق‘ ذمہ داریوں‘ پائیدار پانی کے انفراسٹرکچر کے قیام‘ کوالٹی‘ پانی کے متعلق مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس میں لیگل فریم ورک اور پانی کے وسائل کی ترقی اور پانی کے متعلق اداروں کے بارے میں بھی رہنمائی دی گئی ہے۔ مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس میں بتایا گیا کہ قومی واٹر پالیسی پر عملدرآمد کے لئے قومی سطح پر ’’نیشنل واٹر کونسل‘‘ قائم کی جائے گی جس کی صدارت وزیراعظم کریں گے۔ کونسل میں وفاقی وزرا جن میں پانی کے وسائل‘ خزانہ‘ پاور‘ پلاننگ کے وفاقی وزراء شامل ہیں رکن ہوں گے۔ اس کے علاوہ چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ بھی کونسل کے رکن ہوں گے۔ کونسل واٹر پالیسی پر عملدرآمد کی نگرانی کرے گی۔ وفاقی وزیر پانی کی سربراہی میں سٹیئرنگ کمیٹی بنائی جائے گی جو پالیسی پر عمل درآمد کا جائزہ لے گی۔ کمیٹی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں‘ متعلقہ محکموں کے نمائندے شامل ہوں گے۔ مشترکہ مفادات کی کونسل نے منصوبہ بندی کمشن اور وزارت پانی کی کوششوں کو سراہا اور متفقہ طور پر ملک کی پہلی واٹر پالیسی کی منظوری دیدی۔ حکومت کے پی کے کی طرف سے نیٹ ہائیڈل منافع کے تعین کے لئے ’’قاضی کمیٹی کے طریقہ کار‘‘ پر عملدرآمد کی رپورٹ پیش کی۔ مشترکہ مفادات کی کونسل نے وزارت بین الصوبائی رابطہ‘ منصوبہ بندی کمشن اور وزارت پانی کو ہدایت کی تمام کلیمز کو صوبوں کے مشاورت کے ساتھ ’’ری کنسائل‘‘ کیا جائے۔ اور کونسل کے آئندہ اجلاس میں اس معاملہ کو دوبارہ پیش کیا جائے۔ ’’پاکستان واٹر چارٹر‘‘ میں قومی واٹر پالیسی سے وابستہ رہنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ نئی واٹر پالیسی سے ملک کے اندر پانی ذخیرہ کرنے کی موجودہ گنجائش میں آئندہ برسوں کے دوران اضافہ کیا جائے گا۔ مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل صوبائی حکومتوں کے مشورے سے پالیسیز بنائی جاتی ہیں۔ پی ایس مظاہرہ میں کوئی بڑا منصوبہ نہیں لا رہے بجٹ لانے کا فیصلہ کیلئے ہی کیا جا چکا ہے۔ صوبائی حکومتوں کو بھی بجٹ لانے کا کہنا ہے وزراء اعلیٰ کا واک آئوٹ سیاست تھی۔ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ کا بڑا حصہ اب قومی انفراسٹرکچر تک محدود ہے۔ بعض صوبے صوبائی دائرہ کار کی سکیمیں وفاقی ترقیاتی بجٹ میں شامل کرانا چاہتے ہیں۔ اقتصادی کونسل پی ایس ڈی پی کو پاس نہیں کرتی، پسماندہ صوبوں کیلئے ہمیشہ حقوق فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں۔ بلوچستان ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کیلئے ریکارڈ فنڈز جاری کئے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن