ووٹ کو عزت دو کا معاملہ رکے گا نہیں ، قوم حساب مانگ رہی ہے : نواز شریف
اسلام آباد(خصوصی نمائندہ؍ وقائع نگار خصوصی) سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ ہمیں علم تھا کہ نیب مارشل لا کا قانون ہے لیکن غلطی یہ ہے کہ اس کو ختم نہیں کرسکے، عدلیہ ہمارا 8 ماہ سے جس طرح خیال رکھ رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے، قومی احتساب بیورو یعنی نیب کو یہ تحقیقات بھی کرنی چاہئیں کہ پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو پہلے سیکرٹری قانون اور پھر جج کیسے بنایا گیا۔ عدلیہ میں اصلاحات ہونی چاہئیں، ووٹ کو عزت دو کا نعرہ گائوں گائوں پھیل چکا ہے، اب یہ معاملہ نہیں رکے گا، قوم حساب مانگ رہی ہے اور مانگے گی، آپ جو مرضی کرلیں اور کہہ دیں، پھر یہ توقع کریں کہ دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آئے گا، جواب آئے گا، صرف نوازشریف سے نہیں آئے گا بلکہ ملک کے 22 کروڑ عوام کی طرف سے آئے گا، جو اب کسی طور پر اس قسم کی پابندیوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ احتساب عدالت کے کمرے میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو اور کمرہ عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ ہمیں علم تھا کہ نیب مارشل لا کا قانون ہے لیکن غلطی یہ ہے کہ اس کو ختم نہیں کرسکے۔ اب مشرف دور کے کالے قانون کو ختم ہونا چاہئے۔ ہمارے خلاف جس طرح کے کیسز بنائے گئے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی، اربوں کھربوں کا الزام لگایا گیا لیکن آج تک کوئی بھی چیز ثابت نہیں ہوسکی، اللہ تعالی ہمیں تمام الزامات سے سرخرو کرتا جارہا ہے، لندن فلیٹس ہم نے قومی خزانے سے نہیں خریدے، اگر ہم نے کرپشن کے ذریعے مال بنا کر اثاثے بنائے تو پھر الزام ثابت بھی ہونے چاہئیں اور جب کرپشن کا کوئی معاملہ دور دور تک نہیں تو یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ ہمارا8 ماہ سے جس طرح خیال رکھ رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے، عوام اور سول سوسائٹی بھی اس بات پر متفق ہے کہ عدلیہ میں اصلاحات ہونی چاہئیں۔ یہ اکیسویں صدی ہے، اب آزادی اظہار کو دبایا نہیں جاسکتا اور کسی کی زبان بندی نہیں کی جاسکتی، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ایسا کیا جاسکتا ہے تو یہ ایسا ہی ہے کہ کبوتر اپنی آنکھوں کو بند کرلے۔اس طرح سے معاملہ نہیں چلے گا، قوم حساب مانگ رہی ہے اور مانگے گی، آپ جو مرضی کرلیں اور کہہ دیں، عوام کسی طور پر پابندیوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تمام الزامات سے سرخرو کرتا جارہا ہے، لندن فلیٹس ہم نے قومی خزانے سے نہیں خریدے اگر ہم نے کرپشن کے ذریعے مال بنا کر اثاثے بنائے تو پھر الزام ثابت بھی ہونے چاہئیں اور جب کرپشن کا کوئی معاملہ دور دور تک نہیں تو یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے ۔نوازشریف نے کہاکہ نیب کو یہ بھی تحقیقات کرنی چاہئے کہ چیف جسٹس کو پہلے سیکرٹری لاء اور پھر جج کیسے بنایا گیا، عدلیہ ہمارا 8 ماہ سے جس طرح خیال رکھ رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے، قومی احتساب بیورو یعنی نیب کو یہ تحقیقات بھی کرنی چاہییں کہ پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو پہلے سیکرٹری قانون اور پھر جج کیسے بنایا گیا۔انہوںنے کہا کہ جس طرح کی میڈیا پر پابندیاں موجودہ چیف جسٹس نے لگائی ہیں اس طرح کی پابندیاں تو ڈکٹیٹر بھی نہیں لگاتے‘ عدلیہ تو ان پابندیوں سے معاشرے کو آزاد کرواتی ہیں‘ ثاقب نثار صاحب آپ ملک کو کس طرف لے کر جارہے ہیں ‘ وہ دن دور نہیں یہ قوم آپ سے حساب لے گی مجھے پتہ ہے کہ یہ باتیں نہ ٹیلی ویژن پر دکھائی جائیں گی اور نہ ہی پرنٹ میڈیا میں مگر میں اس قوم کے لئے بولتا رہوں گا۔ انہوں نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جو مرضی کہہ دیں اور یہ سوچیں کہ اس کا جواب نہیں آئے گا ‘ ضرور جواب آئے گا ۔ آپ اپنے کام سے کام رکھیں جس کا کام اسی کو ساجھے ‘ آپ لوئر کورٹس کی طرف توجہ دیں بازاروں‘ سکولوں اور اداروں کا دورہ نہ کریں لوئر کورٹس میں لاکھوں کے حساب سے کیسز زیر التواء ہیں ان کو نمٹائیں ۔آپ نے کہا کہ لاہور اورنج ٹرین بند کرواسکتا ہوں آپ لوگوں کو کیوں سفری سہولیات سے محروم کرنا چاہتے ہیں؟ میرے خلاف جو ہورہا ہے ایسا کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دوں گا۔ آئین اور قانون کے دائرے کے اندر رہ کر سارے کام کئے جائیں کسی کو اس سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ قوم آپ سے یہ حساب لے کر رہے گی۔ آپ 22 کروڑ عوام کی تضحیک کررہے ہیں میں ملک کیلئے آخری حد تک جانے کو تیار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بیوروکریسی، سیاستدانوں، وزیراعلیٰ اور کابینہ کا کام انہیں کرنے دیں، ان کے کاموں میں دخل دینے کی بجائے اپنا کام کریں۔میاں نوازشریف نے کہا کہ کیا پاکستان کے محروم لوگوں کو انصاف مل رہاہے، کس طرح سے لوگ مقدمات کا سامنا کرتے ہیں، ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے، وہ مقدمہ لڑنے کے لیے جائیدادیں بیچ دیتے ہیں کیا ان کی داد رسی ہورہی ہے؟۔ اگر آپ کے پاس کوئی شکایت آتی ہے تو اس کا نوٹس لیں اگر کوئی فریاد لے کر آتا ہے اس کا نوٹس لیں، آپ خود کیسے جاسکتے ہیں۔ احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں استغاثہ کے گواہ ڈی جی نیب آپریشنز ظاہر شاہ پر جر ح مکمل کرلی گئی ہے۔ فلیگ شپ ریفرنس میں ظاہر شاہ پر خواجہ حارث نے جرح شروع کر دی جوآج بھی جاری رہے گی۔ظاہر شاہ نے فلیگ شپ ریفرنس سے متعلق کمپنی ہائوس ریکارڈ کی تصدیق شدہ کاپیاں عدالت میں پیش کر دی ہیں،دوران جرح نیب پراسیکیوٹر کی طرف سے گواہ کو لقمہ دینے پر مریم نواز کے وکیل برہم ہو گئے اور انہوں نے نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی کوکہا کہ آپ خاموش رہیں۔فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت (آج)بدھ کی سہ پہر 2 بجے تک ملتوی کردی۔گزشتہ روز احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت جج محمد بشیر نے کی ۔عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر)صفدر پیش ہوئے۔ احتساب عدالت میں مریم نواز کے وکیل امجد پرویز کی استغاثہ کے گواہ ظاہر شاہ پر جرح کی ،ظاہر شاہ نے عدالت کو بتایا والیم ٹین کی کاپی رجسٹرار سپریم کورٹ کے خط کے ذریعے حاصل کی سپریم کورٹ سے والیم ٹین متعلقہ کوآرڈی نیشن آفیسر نے وصول کیا تھانیب پراسیکیوشن ونگ نے والیم ٹین کے حصول کیلئے سپریم کورٹ کو خط لکھا تھانیب نے سپریم کورٹ میں والیم دس وصول کرنیکی رسییونگ نہیں دی والیم 10 کا متعلقہ حصہ تفتیشی افسر کے علاوہ کسی کے ساتھ شئیر نہیں کیا ۔وکیل امجد پرویز نے گواہ سے سوال کیا کہ کیا آپ کے علم میں ہے کہ والیم 10 کی کچھ دستاویزات میڈیا پر چلتی رہیں، 27 مئی 2017 کے ایم ایل اے کا ریفرنس نمبر کیا ہے؟ جس پر گواہ نے جواب دیاکہ میں میڈیا بہت کم دیکھتا ہوں ، میرے علم میں نہیں اور نہ ہی مجھے ریفرنس نمبر یادہے، نیب پراسیکیوٹر اور امجد پرویز کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، امجد پرویز نے کہاپراسیکیوٹر صاحب آپ گواہ کو کیوں بتا رہے ہیں،گواہ پر میری جرح شروع ہے، آپ اس سے بات نہیں کر سکتے، جس پر نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی نے کہاکہ میں کچھ نہیں بتا رہا صرف تاریخ کے بارے میں بتایا ہے فلیگ شپ ریفرنس میں استغاثہ کے گواہ ظاہر شاہ نے بیان قلمبند کروایا اور فلیگ شپ سے متعلق کمپنی ہا ئو س ریکارڈ کی تصدیق شدہ کاپیاں عدالت میں پیش کر دیں کمپنی کی سالانہ آمدن کا ریکارڈ بھی عدالت میں جمع کوئنٹ سیلون لمیٹڈ کے میمورنڈم اور سالانہ آمدن کی تفصیلات عدالت میں پیش کوئنٹ سیلون لمیٹڈ کے سابق اور موجودہ شئیر ہولڈرز کی تفصیلات پیش کر دی گئیں۔ کوئنٹ ایٹن کمپنی سے متعلق تفصیلات بھی عدالت میں پیش کی گئی، فلیگ شپ ریفرنس میں بیان قلمبند ہونے کے بعد خواجہ حارث کی جانب سے گواہ کے بیان پر جرح کی گئی، خواجہ حارث نے گواہ سے پوچھاکہ والیم ٹین کے مخصوص حصے آپ کو سپریم کورٹ سے موصول ہوئے کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ کس صورت میں ملا؟جس پر گواہ نے جواب دیاکہ والیم ٹین بانڈ فارم میں موصول ہوئے متعلقہ تفتیشی افسران کو والیم ٹین کے پورشن بھیجے تھے دو الگ الگ ریجن لاہور اور راولپنڈی کے ریجن میں بھیجے تھے اس وقت 6 ایم ایل اے موجود ہیں یو کے سینڑل اتھارٹی کو نیب کی جانب سے ان کی آبزرویشن کے رسپانس دیا گیا یو کے سنڑل اتھارٹی کو نیب کی جانب سے کوئی دستاویزات فراہم نہیں کی گئی۔ خواجہ حارث کی گواہ ظاہر شاہ پر جرح مکمل نہ ہو سکی۔ عدالت نے گواہ ظاہر شاہ کو دستاویزات حاصل کرنے کے لئے لکھی گئی ایم ایل اے کی اصل کاپیاں پیش کرنے کی ہدایت کر تے ہوئے فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت (آج) بدھ کی سہ پہر 2 بجے تک ملتوی کردی۔ (آج) بدھ کو بھی خواجہ حارث کی گواہ ظاہر شاہ پر جرح جاری رکھیں گے۔