گگن شکتی 2018ءاور بھارتی فضائیہ کی اصل حقیقت
بھارت عرصہ دراز سے جنگی منصوبہ بندی کو پاکستان اور چین کے خلاف ایک ہی وقت میں جنگ لڑنے کے حوالے سے استوار کرنے کا عندیہ دیتا چلا آ رہا ہے۔ ”کولڈ سٹارٹ وارڈ ڈاکٹرائن“ کے نام سے بھارت کے حکمران اور فوجی سربراہان اکثر و بیشتر پاکستان کو دھمکانے کا شوق پورا کرتے رہتے ہیں لیکن سوائے کنٹرول لائن پر بلااشتعال فائرنگ اور مارٹر شیلنگ کے ذریعے آزاد کشمیر میں نہتے کشمیریوں کو نشانہ بنانے کے بھارت کچھ نہیں کرتا۔ تاہم 10 اپریل 2018ءسے 24 اپریل تک دو مرحلوں میں ”گگن شکتی 2018ئ“ کے نام سے بھارتی فضائیہ کی جاری رہنے والی مشقوں کو بھارتی میڈیا اور وزارت دفاع اس طرح پیش کر رہے ہیں کہ جیسے ”انڈین ایئر فورس“ نے دنیا فتح کرنے کی استعداد حاصل کر لی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق گزشتہ سات دہائیوں میں بھارتی فضائیہ کی یہ سب سے بڑی اور دو ہفتوں تک جاری رہنے والی مشق ہے جس میں بھارتی فضائیہ کے 1100 سے زیادہ طیاروں و جنگی ہیلی کاپٹروں نے حصہ لیا۔ بھارتی فضائیہ کے 300 سے زیادہ افسران کے علاوہ 15000 ایئر مین دن رات حالت جنگ میں رہے۔ ان مشقوں میں بھارتی فضائیہ کی صحرا¶ں‘ پہاڑوں اور سمندری علاقوں میں آپریشنل استعداد کو جانچا گیا۔ جس میں دوران پرواز دشمن کے طیاروں سے لڑائی‘ اڑتے ہوئے زمین پر موجود دشمن کو نشانہ بنانے‘ چھاتہ بردار فوج کو دشمن کے علاقے میں اتارنے‘ دشمن کے جنگی بحری جہازوں کو تباہ کرنے کے علاوہ اپنے زخمی فوجیوں کو میدان جنگ سے طبی سہولیات کےلئے ”ائر لفٹ“ کرنا شامل تھا۔ پہلا مرحلہ پاکستانی سرحد کے قریب 10 اپریل کو شروع ہوا جس میں پہاڑی علاقوں سے لے کر سمندر تک مختلف طرح کی مشقیں کی گئیں۔ ان مشقوں میں جیگوار کے علاوہ ایس یو 30 جنگی طیاروں نے حصہ لیا۔ جو براہموس فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں کے علاوہ سمندر میں بحری جہازوں و آبدوزوں کو نشانہ بنانے والے ہارپون میزائلوں سے لیس تھے۔ اس پہلے مرحلے کا دوسرا حصہ بھارت کے شمال مشرقی علاقے میں چین سے ملحقہ بارڈر پر مشقوں کا تھا جس میں چینی فضائی استعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارتی فضائیہ کو مشقیں کرائی گئیں۔ ان مشقوں کا دوسرا مرحلہ بحرہ ہند میں بھارتی جزائر نیکوبار و انڈمان تک سمندری حدود کی فضائی نگرانی کے علاوہ بحری و فضائی جنگ کےلئے بھارتی فضائیہ کو تیار کرنا اور انکی پیشہ ورانہ آپریشنل قوت میں جدت پیدا کرنا تھا۔ ان مشقوں میں بھارتی بحریہ کے پاس موجود P-81MR کو بھی مشقوں کا حصہ بنایا گیا۔ ٹائم آف انڈیا کے مطابق بھارت نے اپنی ان مشقوں سے متعلق چین اور پاکستان دونوں کو آگاہ کر دیا تھا‘ جو بھارت کے دونوں دشمنوں کو حیرانی و پریشانی میں مبتلا کرنے کےلئے کافی تھا۔ ٹائم آف انڈیا کے مطابق پاکستان و چین کے ساتھ ایک ہی وقت میں جنگ کےلئے بھارت کو 42 فائٹر سکواڈن درکار ہیں لیکن بھارتی فضائیہ نے اس کمی کے باوجود صرف 31 دستیاب سکوارڈنز کے ساتھ دونوں محاذوں پر بھارتی فضائیہ کو ناقابل تسخیر ثابت کر دکھایا۔ بھارت کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے روزانہ کے حساب سے جس طرح اپنی فضائی قوت کی دیومالائی کہانیوں کی طرز پر تشہیر کی اور ایکشن سے بھرپور فلموں کی طرح بھارتی جنگی طیاروں کو لپکتے اور جھپٹتے دکھایا یہ سب دیکھ کر بھارتی عوام خواب دیکھنے میں حق بجانب ہیں کہ اب دنیا کی کوئی طاقت بھارتی فضائیہ کے مدمقابل نہیں ٹھہر سکتی۔ یہ سب منظر کشی کرتے ہوئے بھارتی میڈیا اور فوج کی وزارت اطلاعات نے فراموش کر دیا کہ گگن شکتی 2018ءمشقوں کے آغاز سے صرف 4 روز قبل Daniel Darling نے اپنے Why Indian,s Air Force is Dynig کے عنوان سے طویل مضمون میں بھارتی فضائیہ کو مری ہوئی فضائی قوت لکھا ہے جسکے پاس موجود جنگی طیاروں کی اکثریت بنا جنگ لڑے اپنی عمر کب کی پوری کر چکی ہے۔ دوران جنگ جن پر انحصار خود کشی کے مترادف ہے۔ مضمون نگار کے مطابق پاکستان اور چین کے خلاف ایک ہی وقت میں فضائی جنگ کےلئے بھارت کے پاس کم از کم 45 سکواڈنز کا ہونا ضروری ہے اور بھارت بھی ان حقائق سے اچھی طرح آگاہ ہے کہ بھارتی فضائیہ کے پاس اس وقت صرف کاغذوں میں 31 سکواڈن جس میں نئے طیاروںکی شمولیت ابھی منصوبوں تک محدود ہے۔ یہ بروز منگل 26 مئی 1999 کی بات ہے کہ کنٹرول لائن پر کشمیر کے دراس‘ کارگل و بٹالہ سیکٹر پر مقبوضہ کشمیر کی چند اہم متنازعہ چوکیوں پر پاکستان نے قبضہ کر لیا تھا جسے آرٹلری و انفنٹری کے بھرپور استعمال کے باوجود ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد بھارت اپنی فضائیہ کو مدد کےلئے لے آیا تھا۔ دن کے گیارہ بجے پاکستانی میڈیا نے خبر بریک کی کہ پاکستان نے دو بھارتی جنگی طیارے مار گرائے ہیں۔ ایک طیارے کا پائلٹ ہلاک ہو گیا ہے دوسرے طیارے کا پائلٹ زندہ حالت میں گرفتار کر لیا گیا ہے مذکورہ خبر فوری طورپر عالمی الیکٹرانک میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی مگر بھارت نے خبر کو جھوٹ قرار دے کر مسترد کر دیا بھارت کا اپنے جھوٹ پر تادیر قائم رہنا ممکن نہیں تھا کیونکہ ایک تو پاکستان نے بھارتی پائلٹ کی زندہ سلامت اپنے پاس موجودگی کا بتا دیا تھا۔ علاوہ ازیں آزاد کشمیر میں گرنے والے بھارتی طیارے کے ملبے کو بھی جلد ہی منظر عام پر لانے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ پاکستان کی طرف سے اس بیان کے بعد نیو دہلی میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے کابینہ کی ہنگامی میٹنگ میں عالمی سطح پر شرمندگی سے بچنے کےلئے طیاروں کی تباہی کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ میٹنگ ختم ہوئی تو وزیر دفاع جارج فریننڈس نے وزیراعظم کے مشیرو برائے دفاع برجیش مسرا کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ بھارتی فضایہ کے دونوں طیارے بھارت کی اپنی حدود میں پرواز کر رہے تھے جب انہیں پاک فوج نے زمین سے فضا میں مار کرنےوالے میزائلوں سے نشانہ بنایا ایک طیارہ اس کی زد میں آنے کے بعد تیز رفتاری کی وجہ سے پاکستان کے زیر قبضہ علاقے میں جاگرا جبکہ دوسراطیارہ فنی خرابی کی بدولت بھارت کی اپنی حدود میں گر کر تباہ ہوا۔ جس کے پائلٹ کو بچا لیا گیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے تباہ شدہ بھارتی MIG-27 کے ملبے کی جاری کردہ تصاویر اور ویڈیو فوٹیج دنیا بھر کے میڈیا کےلئے اہم خبر تھی جس میں بتایا گیا کہ بھارتی فضائیہ کے پاکستان کے ہاتھوں تباہ ہونےوالے دونوں طیارےMIG-27 تھے ایک بھارتی جنگی ہیلی کاپٹر کے پاک فوج کے ہاتھوں مار ے جانے کی خبر بھی ساتھ ہی نشر ہوئی۔ اس حوالے سے جب نیو دہلی میں میڈیا نے بھارتی وزارت دفاع سے رابطہ کیا تو بھارتی فضائیہ کے نمائندے ائیر کموڈور سبھاش بھوجوانی نے جواب دیا کہ بھارتی ائیر فورس کے طیارے دشمن پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اس نے اس خبر کی سختی سے تردید کر دی کہ پاکستان کے پاس موجودہ طیارہ شکن میزائل سسٹم کی موجودگی کی بدولت بھارت کے پائلٹ مزید خطرہ مول لینے کو تیار نہیں جس وقت بھارت میں ائیر کموڈور سبھاش کی میڈیا والوں سے گفتگو جاری تھی تو اس وقت اطلاع آئی کہ پاکستان نے گرفتار شدہ بھارتی پائلٹ کو اسلام آباد میں بھارتی سفارت خانے کے حوالے کر دیا ہے ان حقائق کے بعد بھارت اپنی فضائیہ‘ بحریہ و بری فوج کےلئے جس قدر جی چاہے جنگی مشقوں کا اہتمام کرے یہ عملی جنگ کا متبادل نہیں ہو سکتا۔