کیا گوادر‘ چاہ بہار بندرگاہیں ایکدوسرے کی حریف ہیں؟
بھارت کے ساتھ بیک وقت قربتیں اور پاکستان سے دوستی ایران کے لئے ہمیشہ مشکل کا باعث رہی ہے۔ ایران وہ ملک ہے جس نے پاکستان کو اس کے قیام کے بعد سب سے پہلے تسلیم کیا اور اس کے مقابلے میں افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی سخت ترین مخالفت کی۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو پاکستان‘ افغانستان اور ایران کی تکون جسے عالم اسلام میں ایک قوت کے طورپر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے‘ ماضی بعید اور ماضی قریب میں اس پر کبھی بھارت اور کبھی امریکہ نظر بد رکھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح بھارت‘ پاکستان کا ازلی دشمن ہے‘ اسی طرح امریکہ بھی ایران کو دل سے تسلیم نہ کرنے کی قسم کھائے ہوئے ہے‘ لیکن اس کھلی حقیقت کے برعکس یہ حقیقت بھی اپنی جگہ عیاں و بیاں ہے کہ دو سال قبل 23 مئی کو ایران‘ بھارت اور افغانستان نے چاہ بہار ایرانی بندرگاہ کے لئے مشترکہ سرمایہ کاری کا باہمی معاہدہ کیا‘ لہذا ہر سال تینوں ممالک 23 مئی کو یوم چاہ بہار مناتے ہیں۔ علاوہ ازیں دو سال قبل اسی روز بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ایرانی قائد حسن روحانی کے درمیان 20 کروڑ کی ابتدائی سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس موقع پر نریندر مودی نے بندرگاہ اور ٹریڈ زون بنانے کے لئے 50 کروڑ ڈالر ادا کرنے کا اعلان بھی کیا۔ بات یہیں نہیں رکی بلکہ رواں سال یہی ٹرائیکا دہلی میں اکٹھی ہوئی جہاں ایرانی صدر نے چاہ بہار بندرگاہ 18 ماہ کی لیز پر بھارت کو دینے کا اعلان کیا اور اس معاہدے پر دستخط بھی کئے۔ اس معاہدے کے تحت آج چاہ بہار بندرگاہ بھارت کی تحویل میں ہے۔ اب یہاں سوال صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ بھارت آخر ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے معاملات میں اس قدر غیر معمولی دلچسپی اور عملی حصہ کیوں لے رہا ہے؟ یقیناً اس کے بظاہر مقاصد تو وہی ہیں جو معاہدے میں بیان کئے گئے ہیں لیکن درپردہ اور مستور مقاصد سراسر پاکستان کے خلاف ہیں‘ جن کو وہ کبھی ظاہر نہیں کر سکتا۔ یہ مقاصد کیا ہیں؟ ظاہر ہے پاکستان کے وجود کے خلاف ہر وہ حربہ استعمال کرنا جس سے اسے نقصان پہنچے۔ سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لئے اندرون خانہ گھنا¶نے حربے استعمال کرنا بھی اس کے مذموم مقاصد میں شامل ہے۔ پھر سوال یہ بھی ہے کہ بھارت اگر پاکستان دشمن عزائم نہیں رکھتا تو وہ سی پیک منصوبے میں شامل کیوں نہیں ہو جاتا؟ جس کے فوائد آج جنوبی ایشیائی ممالک انگلیوں پر گن رہے ہیں۔ اسے آخر چاہ بہار پورٹ پر دنیا کے سامنے تماشا بن کر بیٹھنے کی کیا ضرورت ہے؟ سی پیک منصوبے بارے اس کی امریکہ بہادر کے ساتھ گڈ مڈ ہے اور افغانستان تو کب سے امریکی گماشتے کی صورت دنیا کو جوکر بن کر عجیب و غریب تماشے دکھا رہا ہے۔ اب یہاں ذہن کے نہاں خانوں میں ایک تیسرا سوال بھی ابھر کر سامنے آتا ہے کہ کیا ایران اور ایرانی قیادت بھارت اور افغانستان کی امریکی حاشیہ بردار کی حیثیت کا بخوبی ادراک نہیں کر سکی؟ اگر ایرانی قائدین کو اس ساری صورت حالات کا علم ہے تو پھر چاہ بہار بندرگاہ پر جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ تو سراسر امریکی مفادات کے عین مطابق اور ایرانی عوام و حکومت کی منشاءکے سراسر برعکس ہے۔ اس ساری صورت حالات کو سمجھنے کے لئے بھارت کے اندرون خانہ مذموم مقاصد ہی کافی ہیں۔ لہذا اگر کوئی سمجھتا ہے بھارت چاہ بہار پورٹ پر بیٹھ کر ایرانی منشاءاور ایرانی نیک عزائم کے مطابق کام کرے گا تو این خیال است و محال است و جنوں۔ بھارت کی اندرونی اور بیرونی تمام پالیسیوں کے مقاصد سات تہوں میں چھپی ہوئی پاکستان دشمنی پر مبنی ہیں اور واقفان حال کا برملا کہنا ہے کہ یہی اس کی عوام کا روگ بنا ہوا ہے۔ بھلا کوئی بھارت سے پوچھے کہ پاکستان دشمنی کو اپنے بے پناہ وسائل کے زور پر آئندہ بیس نسلوں کے خون میں منتقل کرنا بھی کوئی احسن کام ہے؟ یقیناً اس سے بڑا کام یہ ہوتا کہ وہ اپنے عوام کی غربت اور افلاس کو انہی وسائل سے ختم کرنے کی کوشش کرتا اور پاکستان کے ساتھ سنگین دشمنی کی بجائے دوستی کا رشتہ استوار کرتا۔
بھارت‘ افغانستان اور ایران کی اقتصادی ٹرائیکا دراصل گنجلک رسی کو بہت سے بل دے کر دوسروں کو سیدھی دکھانے کا ایک طریقہ ہے‘ جس کے پیچھے بھارت‘ اس کی قیادت کا ہی ہاتھ نظر آتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے آقا امریکہ بہادر کی منفی ذہنیت بھی کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ اسی بنیادی صورت حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایرانی صدر روحانی کے حالیہ ایک بیان کا جائزہ لیں جو انہوں نے مظلوم کشمیری عوام کے حق میں دیا ہے تو صورت حالات مختلف نظر آتی ہے۔ صدر روحانی نے اپنے اس بیان میں کشمیری عوام کی بھارتی فورسز کے ہاتھوں ظالمانہ پامالی کا سخت نوٹس لیا اور توقع ظاہر کی کہ مظلوم کشمیری عوام جلد ظلم و استبداد سے نجات حاصل کر لیں گے‘ اس ضمن میں اب ایک دوسرا بیان سی پیک منصوبہ سے متعلق پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر مہدی ہنردوست کا سامنے آیا ہے‘ جس میں ان کا کہنا ہے کہ چاہ بہار اور گوادر کی بندرگاہیں ایک دوسرے کی حریف نہیں بلکہ ان میں باہمی معاونت کا عملی رشتہ قائم کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا دونوں پورٹس کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے کا کام جلد شروع کر دیا جائےگا، ان کا یہ کہنا انکشاف تھا کہ ایران گوادر کے لئے پاکستان کو بجلی تک فراہم کر رہا ہے۔ وقت ٹی وی سے ایک انٹرویو میں جب انہوں نے یہ کہا کہ کچھ مخالف قوتیں چاہ بہار اور گوادر کو حریف قرار دے کر منفی پراپیگنڈہ کر رہی ہیں تو ان کا لہجہ خاصا معنی خیز تھا‘ اس ضمن میں قرائن کا جائزہ لےکر یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ منفی پراپیگنڈہ بھارتی لابی کے سوا اور کون کر سکتا ہے‘ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت فی الوقت ایران کا حلیف ہے‘ اس نے گوادر پورٹ لیز پر لے رکھی ہے اور وہ پاکستان دشمن عزائم بھی رکھتا ہے۔ اب بتایئے ایرانی سفیر کا اشارہ کس جانب ہے؟ اگر وہ بھارت کی بات کر رہے تھے تو یہ بالکل صدر روحانی کے لب و لہجے کی بات ہے‘ جنہوں نے بھارت کا حلیف ہونے کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں بہنے والے کشمیری مظلوم عوام کے خون پر صدائے احتجاج بلند کی‘ اگر ایسی ہی بات ہے تو ایران درحقیقت بھارت کا نہیں پاکستان کا دوست اور بھائی ہے۔ پاکستان ایران دوستی کے رشتے پر شک و شبے کی گنجائش پیدا کرنے والے ہی دراصل ایرانی سفیر کا ہدف تھے۔ بھارت‘ ایران کے ساتھ کتنی بھی دوستی لگا لے‘ اس کی یاری اغراض پر محیط ہو گی‘ جبکہ پاکستان ایران کا بھائی اور دینی رشتے میں منسلک ہے‘ اس حوالے سے اس دوستی کے رشتے کو دونوں ممالک کی قیادت اور عوام جانتے اور پہچانتے ہیں۔ اسکے بین بین یہ امر بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ پاکستان‘ ایران دوستی میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکہ بہادر ہے اور بھارت اس کے اشارے پر ایسی رکاوٹیں پیدا کرتا رہتا ہے‘ جس سے دونوں مذکورہ ممالک قریب تر نہ آ سکیں‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بہت خوش آئند اور حوصلہ افزاءہے کہ ایران کی جانب سے ہمیشہ پاکستان کےلئے محبت اور گرم جوشی زیادہ دکھائی دی ہے‘ کیوں نہ ہو دونوں ممالک دینی‘ ثقافتی اور تہذیبی بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ سابقہ پاکستانی حکومتوں کی خارجہ پالیسی ہمیشہ کمزور اور ناتواں رہی ہے‘ بھارتی لابی کو اس ضمن میں نرم گوشہ دینے والی بھی یہی پاکستانی خارجہ پالیسی ہی رہی ہے‘ اگر پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات اور پالیسی ساز ادارے فعال ہوتے تو چاہ بہار کا سہ فریقی معاہدہ ہوتا اور نہ ہی ایرانی اور افغانی قیادت کی بھارت یاترا ہو سکتی‘ اگر ایسا ہوتا تو آج ایران چاہ بہار بندرگاہ سمیت سی پیک منصوبے میں پاکستان کےساتھ کھڑا ہوتا‘ بالخصوص ایرانی سفیر کے اس بیان کی روشنی میں کہ چاہ بہار اور گوادر کی بندرگاہیں ایک دوسرے کی حریف نہیں‘ حلیف ہیں۔