• news
  • image

پشتون حقوق کے نام پر پاکستان مخالف مہم!

پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے جو ہنگامہ پرور تنظیم سامنے آئی ہے اپنی سرگرمیوں‘ پروگرام اور نعروں کے اعتبار سے یہ مجھے ”پشتون زلمے“ کا تازہ ایڈیشن لگتی ہے صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خواہ کو پاکستان کی بجائے افغانستان میں شامل کرنے کی سعی¿ ناکام کرنے والے عبدالغفار خان کے بیٹے عبدالولی خان نے 1972ءمیں سردار دا¶د کی سربراہی میں افغانستان کی قوم پرست حکومت کے دوران اپنی نیشنل عوامی پارٹی کی قوم پرست تنظیم ”پشتون زلمے“ کے نوجوانوں کو تربیت کےلئے کابل بھیجا۔ یہ تاریخ کا سیاہ باب ہے اس تنظیم کے وابستگان نے پاکستان بھر میں تخریبی کارروائیاں کیں جن میں لاہور میں واپڈا کے آفس میں بم دھماکے‘ درجنوں بے گناہ انسان موت سے ہمکنار ہوئے اور حیات محمد شیرپا¶ کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ولی خان اور ساتھیوں پر غداری کا مقدمہ بنایا لیکن دیگر سیاستدانوں نے بھٹو مخالفت میں ولی خان کی حمایت کی جن کے مطالبہ پر جنرل ضیا الحق نے اقتدار سنبھالنے کے بعد حیدر آباد ٹریبونل توڑ کر ولی خان کو ساتھیوں سمیت رہا کر دیا۔ شیخ مجیب الرحمن کے حوالے سے بھی سیاستدانوں نے یہی کردار ادا کیا جنرل ایوب خان کی گول میز کانفرنس میں شرکت کو شیخ مجیب الرحمن کی رہائی سے مشروط کر دیا اور اسکے خلاف اگر تلہ سازش کیس ختم کرا دیا گیا بعد میں اس کی بیٹی حسینہ واحد نے اعتراف کیا اس کا باپ اگر تلہ سازش میں ملوث تھا بلکہ اس سے پہلے وہ بھارتی وزیراعظم نہرو سے مل چکا تھا حسینہ واجد کے بقول نہرو نے مشرقی پاکستان الگ کرنے کے سازشی منصوبے سے اتفاق کیا تاہم کچھ مدت انتظار کےلئے کہا نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی نے اس سازشی منصوبے میں حقیقت کا رنگ بھر دیا۔ اب یہ جو پشتون حقوق کے نام پر ”پشتون تحفظ موومنٹ“ قائم کی گئی ہے اس کے سربراہ منظور پشتین کی تقریروں اور نعروں میں پاکستان دشمنی کو صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ شیخ مجیب الرحمن اور عبدالولی خان کی طرح ملک کے اہم سیاستدانوں کی جانب سے منظور پشتین کی تقاریر اور اسکے جلسوں میں قابل اعتراض نعروں کا نوٹس لینے کی بجائے آزادی اظہار کے بنیادی حق کے نام پر اس کی حمایت کی جا رہی ہے۔ (ن) لیگ کے قائد میاں نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے کو روکنے کی کوشش کی مخالفت کرتے ہوئے جمہوری اور آئینی حق کی خلاف ورزی قرار دیا۔ انکی اس طرح حمایت کے کیا مضمرات ہو سکتے ہیں‘ دونوں بڑی جماعتوں کے لیڈروں نے اس پر توجہ نہیں دی۔ فوج کو دی جانے والی گالیاں اگر کسی کی دلبستگی کا سامان بنا ہے تو اس پر اظہار افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم عزت و آبرو کے ساتھ بیوی بچوں کے ساتھ گھروں میں سکون کی نیند لیتے ہیں تو خدائے عزوجل کی مہربانی کے بعد پاکستان کی مسلح افواج کے نوجوانوں کی ہمہ وقت چوکسی اور اس دوران زندگیوں کے نذرانے پیش کرنے کے ہی مرہون منت ہے۔ فوج کے بعض جرنیلوں کے حوالے سے اگر کسی کے تحفظات ہیں تو پوری فوج کو رگیدنا انصاف نہیں ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسوں میں فوج کو دی جانیوالی گالیوں پر میاں نواز شریف اور بلاول زرداری کو مذمتی بیان دینا چاہئے تھا۔لاہور میں ہونےوالے پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے میں ہونے والی تقاریر‘ ہتھیار اٹھانے کی دھمکیوں اور فوج مخالف نعروں سے ہی اس تنظیم کے ارادوں اور عزائم کی قلعی کھل گئی تھی اور رہی سہی کسر سیاسی اثر و رسوخ اور عوامی حمایت سے یکسر محروم بائیں بازو کی شناخت پر اصرار کرنے والے چند افراد عوامی ورکرز پارٹی کے نام سے‘ ایچ آر سی پی میں سرگرم حنا جیلانی جو عاصمہ جہانگیر کی بہن ہیں۔ صحافی امتیاز عالم‘ محمد تحسین‘ فانوس گجر‘ فاروق طارق‘ عصمت شاہ جہاں‘ فرزانہ باری اور نگہت سعید کی شرکت نے پوری کر دی اور اس طرح یہ عملاً غیر ملکی فنڈز پر پلنے والی این جی اوز کا جلسہ بن گیا جس میں جینز میں ملبوس سگریٹ کے مرغولے اڑاتی اور جدید ترین فیشن میں رنگی خواتین کے باعث جلسے کی رونق کو بلاشبہ چار چاند لگ گئے۔ لیکن پشتونوں کے حقوق کےلئے ہونےوالے اس جلسہ میں پشتون کلچر کی جو دھجیاں اڑیں اس سے بھی پشتون حقوق کے علمبرداروں کے چہرے بے نقاب ہو گئے۔ پھر غیر ملکی خواتین کی شرکت بھی تو سوالیہ نشان ہے۔ اس جلسے میں ہزارہ برادری کے کچھ افراد کی کوئٹہ سے آ کر اور ان کی وجہ سے مقامی شیعہ کمیونٹی کے بعض افراد کی شرکت معنی خیز ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے افراد دہشت گردوں کا نشانہ بنے تھے پورے ملک نے اسکی مذمت کی اور ہزارہ برادری سے اظہار ہمدردی کیا گیا مگر کیا یہ تعجب خیز نہیں جس فوج نے دہشت گردوں کو ختم کر کے ہزارہ برادری کیلئے آئے روز نشانہ بننے کے عمل کا خاتمہ کیا‘ یہ لوگ اس فوج کے ہی خلاف جلسہ کا حصہ بن گئے۔ویسے ایمانداری سے جائزہ لیا جائے پاکستان کا وہ کون سا صوبہ بلکہ شہر ہے جہاں پشتون مقامی لوگوں کی طرح زندگی بسر نہیں کر رہے۔
یہ قابل غور حقیقت ہے کہ خیبر پی کے اور بلوچستان میں شاید ڈھونڈے سے کوئی سندھی نہ ملے جبکہ نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ میں حیدر آباد سمیت پشتون رہائش پذیر اور کاروبار کر رہے ہیں۔ لاہور کی کئی مارکیٹوں پر انکی اجارہ داری ہے۔ ایک مثال اوریگا مارکیٹ گلبرگ کی ہے جہاں ننانوے فیصد دکانیں پشتونوں کی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک نے پنجابیوں کے ساتھ رہنے کے باعث اجنبیت کے احساس کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی پنجاب سمیت ملک کے کسی کونے سے کسی ایسے واقعہ کی آج تک اطلاع ملی جہاں مقامی لوگوں کے طرز عمل سے پشتونوں کے لئے زندگی گزارنا مسئلہ بنا ہو‘ انہیں ہر جگہ وہی حیثیت حاصل ہے جو پنجاب میں پنجابیوں‘ سندھ میں سندھیوں کو حاصل ہے۔ رہ گئے سماجی‘ معاشی اور دیگر مسائل تو یہ یکساں طور پر سب کو ہی درپیش ہیں۔رہ گئی فاٹا کے لوگوں کے آئینی اور جمہوری حقوق کی بات تو فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے اسے خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے کی راہ میں سب سے بڑی بلکہ واحد رکاوٹ محمود خان اچکزئی ہیں پشتون تحفظ موومنٹ جنہیں اپنا سرپرست بنائے ہوئے ہے۔ مولانا فضل الرحمن سیاسی مقاصد کیلئے ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ پورے فاٹا میں نہ تو محمود اچکزئی کی پارٹی کا دفتر ہے نہ کسی عمارت میں ان کا جھنڈا لگا ہوا ہے مگر وہ فاٹا کے سیاسی مقدر کا فیصلہ کرنے والوں میں خود کو صف اول میں سمجھتے ہیں۔ پی ٹی ایم کے جلسہ میں پاک فوج کے خلاف نعروں کو اگر امریکی سی این این‘ برطانوی بی بی سی اور بھارت کے پورے میڈیا میں اچھالا جا رہا ہے تو یقیناً ”بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنے“ والی بات ہے۔
اس صورتحال میں خوش آئند ہے پشتون حقوق کے نام پر گڑبڑ پھیلانے والوں کے خلاف خود فاٹا اور دیگر شہروں میں پشتونوں نے احتجاجی مظاہرے کئے جبکہ پشاور‘ سوات‘ مینگورہ‘ مہمند ایجنسی اور لاہور میں پشتونوں نے پاکستانی پرچموں کے ساتھ پاکستان زندہ باد موومنٹ کے زیراہتمام ریلیاں نکال کر وطن عزیز سے وفاداری اور پاک فوج کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ گہری نظر رکھی جائے آنے والے وقت میں ”پشتون تحفظ موومنٹ“ جیسے اور فتنے بھی جاگیں گے کیونکہ بھارت کی صورت کھلا دشمن ہر لمحے گھات میں ہے جسے امریکی آشیرباد بھی حاصل ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن