• news

معاشی ترقی 13 سال میں سب سے زیادہ 5.79 فیصد رہی بیشتر اہداف حاصل نہ ہو سکے : اقتصادی سروے

سلام آباد (نمائندہ خصوصی) مشیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے مالی سال 18-2017 کی اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کر دی۔ اقتصادی سروے کے مطابق بیشتر اہداف حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔ اسلام آباد میں وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل نے بتایا کہ ’رواں مالی سال اقتصادی ترقی کی شرح 5.79 فیصد رہی جو گزشتہ 13 سال میں سب سے زیادہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’مالی سال 18-2017 میں مہنگائی کی شرح 7.89 فیصد سے کم ہو کر 3.8 فیصد رہی، زرعی ترقی 3.81، صنعتی ترقی 5.8 اور بےروزگاری کی شرح 5.79 فیصد رہی۔بجلی، زرعی پیداوار، سکول داخلوں، برآمدات میں اضافہ ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال برآمدات 24 ارب 50 کروڑ ڈالر رہیں اور 180 ارب روپے کے پیکیج سے برآمدات میں اضافہ ہوا، اسی طرح مالی سال 18-2017 میں درآمدات میں بھی اضافہ ہوا اور یہ 53 ارب 10 کروڑ ڈالر رہیں۔ مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ’2013 میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا ریونیو ایک ہزار 946 ارب روپے تھا، رواں سال اس کا ریونیو 3 ہزار 900 ارب سے زائد ہے، جبکہ موجودہ مالی سال میں 3900 ارب سے زائد کا ریونیو جی ڈی پی کا11 فیصد ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ’بجٹ خسارہ 8.5 سے 5.5 فیصد کی سطح پر آچکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنا منتخب ایوان کی ذمہ داری ہے، صوبے جو بھی سیاست کرلیں بجٹ دیں گے۔ اس موقع پر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ 2008ءسے 2012ءتک اکنامک گروتھ 3فیصد تھی اور بیرونی سرمایہ کار پاکستان چھوڑ کر جا رہے تھے ۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ 2013ءمیں پاکستانی معیشت اور ریاست بحرانوں میں ملی تھی۔ معیشت توانائی بحران کے باعث تباہ حال تھی۔ معاشی بحران کی وجہ سے ملک خلفشار کا شکار ہو چکا تھا اور ملک کا معاشی حب کراچی بھتہ خوروں کے ہاتھوں یرغمال بن چکا تھا۔ سرمایہ کار ملک چھوڑ کر جا رہے تھے ان کا کہنا تھا ک حکومت نے ملکی ترقی کےلئے طویل المدت پلان وژن 2025ءبنایا حکومت نے اپنے وسائل سے سکیورٹی آپریشنز شروع کئے اور آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد سے پاکستان محفوظ ملک بن چکا ہے۔
اقتصادی سروے

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نمائندہ خصوصی) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد سابق وزیر اعظم نواز شریف نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے اور عوام کو زےادہ سے زےادہ ریلیف دینے کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت کا آخری بجٹ عوامی امنگوں کے مطابق ہونا چاہئے جبکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بجٹ ٹیکس فری ہو گا اور کوئی نئے ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے، ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔نواز شریف اور شاہد خاقان میں ملاقات کے دوران عام انتخابات اور نگران حکومت کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی۔ وزیراعظم نے نگران وزیراعظم کے حوالے سے ہونے والی مشاورت سے آگاہ کیا۔ جمعرات کو اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی زیر صدارت راولپنڈی ڈویژن کے پارٹی رہنماﺅں کے موقع پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نوازشریف سے علیحدہ ملاقات بھی کی۔ دونوں رہنماﺅں نے ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جبکہ مسلم لیگ ن کے پارٹی امور پر بھی بات چیت کی گئی۔ علاوہ ازیں مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل مالی سال 2018-19ءکے لئے 5.7 ٹریلین روپے سے زائد کا مجموعی میزانیہ قومی اسمبلی میں اپنی بجٹ تقریر میں پیش کریں گے۔ اس میں وفاقی بجٹ کا سائز 5.2 ٹریلین سے زائد ہے۔ اس سے قبل وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں منعقد ہو گا جس میں بجٹ کی منظوری دی جائے گی۔ اس اجلاس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ او ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافہ کی حتمی منظوری دی جائے گی۔ بجٹ دستاویز میں تنخواہوں میں اضافہ کی مد میں 36 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔ یہ اضافہ 25-15 فیصد کے درمیان ہو سکتی ہے۔ وفاقی حکومت آئندہ مالی سال کے منی بل میں شاید بعض اقدامات کا پہلے ہی اعلان کر چکی ہے جس میں سب سے اہم 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن تک کو ٹیکس فری کر دیا گیا ہے۔ سروسز سیکٹر میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کے لئے آئندہ بجٹ میں پیکیج دیا جا رہا ہے۔ ہزاروں آئٹمزجو خام مال کے زمرے میں آتے ہیں ان کی درآمدی ڈیوٹی میں کمی لائی جائے گی یا ان پر ریٹ زیرو کرایا جائے گا۔ بینکوں سے کیش نکلوانے پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں کمی کا امکان ہے۔ اس طرح فائلرز سے جو مختلف ناموں سے ودہولڈنگ ٹیکس پہ جارہے ہیں ان کی شرح میں بھی کمی کی جائے گی جبکہ نان فائلرز کے لئے مزید سخت اقدامات کی توقع ہے۔ دفاعی بجٹ 11 سو ارب روپے، سبسڈیز کے لئے 179 ارب روپے، 1030 اب روپے این ڈی پی رکھے جانے کی توقع ہے۔ ایف بی آر ریونیو کا ہدف 4435 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز ہے۔ بجٹ حسب سابقہ خسارے کا ہو گا اور خسارے کا تخمینہ قریباً 2030 ارب روپے کے قریب ہے۔ پنشن کی ادائیگیوں کیلئے 342 ارب روپے، سول ملازمین کے لئے 445 ارب روپے، قرضوں کی اقساط اور سود کی ادائیگی کے لئے 1607 ارب روپے رکھے جانے کی توقع ہے۔ جاری مالی سال کے دوران حکومت نے درآمدات روکنے کے نام سے ہزاروں آئٹمز پر ریگولیٹری ڈیوٹیز لگا دی تھیں۔ ن کے واپس کئے جانے کا کامکان ہے۔ نئی ٹیرف پالیسی کے تحت ایف بی آر نے کہا گیا ہے کہ کسٹمز ڈیوٹی کے موجودہ 16، 11 کی شرحوں میں بالترتیب 15 اور 10 کر دیا جائے۔ جن آئٹمز پر اس وقت 4 سے 9 فیصد تک ڈیوٹی ہے۔ ان تمام مدغم کر کے 5 فیصد کا ڈیوٹی ریٹ لگا دیا جائے۔ 3 فی صد کی سلیب کے آئٹمز کو دو مراحل میں زیرو ریٹ کر دیا جائے۔ ان سفارشات کے باعث ڈیوٹی سٹرکچر میں وسیع پیمانے پر ردوبدل کی توقع ہے۔ منی بل کے تحت متعدد قوانین میں تبدیلی ہو گی جن میں ای پی پی کے تحت آنے والی کمپنیوں کے معاملات بھی شامل ہیں۔ کارپوریٹ سے ٹیکس میں بھی کچھ کمی کا امکان ہے۔ کمپیوٹر پارٹس پر جی ایس ٹی ختم کر دیا جائے گا۔ برآمدات کے سیکٹر کے لئے جاری مالی پیکیج پر عمل دررآمد جاری رہے گا اور اس طرح اس میں مزید سیکٹر کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہو گا جب مشیر خزانہ اپنا پہلا بجٹ پیش کریں گے اور بجٹ تقریر کریں گے۔ اس سے قبل وزیر خزانہ کے طور پر اسحاق ڈار 5 بجٹ پیش کر چکے ہیں۔ یہ موجودہ حکومت کا چھٹا اور آخری بجٹ ہو گا۔
وفاقی بجٹ

ای پیپر-دی نیشن