سیاسی بنیادوں پر معاف قرضے واپس لیں گے‘ کتنے پاکستانیوں کے سوئس اکاﺅنٹس ہیں : چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں سابق نواز شریف، بے نظیر بھٹو، محمد خان جونیجو، چوہدری برادران سمیت متعدد سےاسی شخصےات کی جانب سے بینکوں سے لئے گئے قرضوں کی معافی اور فارن اکاﺅنٹس سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے جسٹس ریٹائرڈ جمشید علی شاہ انکوائری کمشن کی رپورٹ کے حوالے سے سٹیٹ بینک کو حکم دےا ہے کہ 9والیم پر مبنی رپورٹ کی کاپےاں کیس کے تمام فریقین کو فراہم کی جائیں جبکہ رپورٹ کی مختصر سمری اور مسئلے کی نوعیت کا تعین کرکے اپنی جائزہ رپورٹ ایک ہفتے میں عدالت میں پیش کی جائے جس کی روشنی میں عدالت کیس کی کارروائی کو آگے بڑھائے گی، عدالت نے گورنر سٹیٹ بنک سے ملک سے بیرون ملک بھیجی گئی50ہزار ڈالر ےا اس سے زائد رقم کی ٹرانزیکشن کا ایک سال کا ریکارڈ بھی طلب کرلےا ہے، رپورٹ میں انکشاف کےا گےا کہ سےاسی طور پر 54ارب روپے کے قرضے جات معاف کرائے گئے، عدالت نے تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کی بیرون ملک ٹرانزیکشن کا ریکارڈ بھی طلب کرلےا ہے، عدالت نے وفاقی و صوبائی لاءافسران کے توسط سے سرکاری محکموں میں استعمال ہونے والی لگژری گاڑیوں کی تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کئی پاکستانیوں کے اکاﺅنٹ اور فارن اکاﺅنٹ ملک سے باہر ہیں، سوئٹزرلینڈ، دبئی اور معلوم نہیں کدھر کدھر یہ اکاﺅنٹس ہیں، عدالت فارن کرنسی اکاﺅنٹس اور بیرون ملک خریدی گئی املاک کی معلومات چاہتی ہے، عدالت سےاسی بنےادوں پر خلاف قانون معاف کرائے گئے تمام قرضے واپس کرائے گی، کمیشن کی رپورٹ 2007ءمیں آنے کے باوجود کسی فرد کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی، ن لیگ کے ممبر اسمبلی کی جانب سے قرضہ معافی سے متعلق بات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ رولنگ پارٹی ہیں آپ خود کچھ کیوں نہیں کرتے؟ سندھ اسمبلی نے باقاعدہ ریزولوشن پاس کرکے معاملے پر سوموٹو ایکشن لینے کے لئے سپریم کورٹ سے کہا ہے۔ نیشنل بینک کے وکیل نے کہا کہ عدالت نے بنک کے قرضے معاف کرانے کے لئے کمیشن تشکیل دیا تھا، بنک کے قرضہ جات سرکلر جاری کرنے پر معاف کئے گئے، سٹیٹ بنک کے سرکلر پر بنکس نے عملدرآمد کیا، عدالت جسٹس جمشید کی رپورٹ کی روشنی میں کیس کا فیصلہ کرے، چیف جسٹس نے استفسار کےا کہ تقریباً کتنے ارب کے قرضے معاف کروائے گئے؟ رپورٹ کے مطابق 54ارب روپے کے قرضے معاف کئے گئے، وکیل نے کہا کہ کمیشن نے 54 ارب کے قرضوں کی معافی کو ماضی کا قصہ قرار دیا۔ سٹیٹ بینک کے نمائندہ نے عدالت کو بتاےا کہ سٹیٹ بینک نے مقدمہ میں اپنا جواب داخل کرا دیا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پرانے دبے ہوئے مقدمات کو نکلوا رہا ہوں ،کمیشن کی رپورٹ کی فائنڈنگ کیا تھی، سیاسی بنیادوں پر بھی قرضے معاف کیئے گئے، کسی جگہ فریقین نے سمجھوتہ بھی کر لیا ہو گا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 223 قرضہ معافی کے مقدمات مشکوک ہیں۔ غیرملکی اکاونٹس کے معاملے میں حکومت نے 4آرڈیننس جاری کیے ،حکومت کے آرڈیننس عدالت میں پیش کرنے ہیں، چیف جسٹس نے کہا پاکستانیوں کے فارن اکاﺅنٹس ہیں ایڈیشنل اٹارنی بتائیں کہ رقم کس طرح واپس ملک آسکتی ہے چیف جسٹس نے کہا کہ نیشنل بینک نے کئی ارب کے قرضے معاف کیے ،کمیشن کی رپورٹ آنے پر مقدمے کی کاروائی نہیں ہوئی ،2007سے یہ معاملہ زیرالتواہے ۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے معاملہ بینکوں کوبھجوادیاتھا،جنھوں نے سیاسی بنیادوں پر قرضے معاف کیے ان کونوٹس کریں گے ،سیاسی بنیادوں پرمعاف قرضے واپس کرائیں گے چیف جسٹس قرض معافی پر کمیشن کی فائنڈنگ کودیکھناہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی تویہ دیکھناہے اس کیس کو چلانا کیسے ہے، جو قرضے قانون کے مطابق معاف نہیں ہوئے وہ واپس لیں گے، وہ قومی خزانہ میں جمع ہوں گے اگروہ قرضے واپس نہیں ہوں گے تو ان سرمایہ دار سےاسی شخصےات کے صنعتی یونٹس ضبط کرلیں گے، رقم (قرضہ کی) نہیں تواثاثہ ریکور کرلیں گے، سٹیٹ بینک ایک ہفتے میں قرض معافی کی سمری بنا کردیں ،لگتا ہے کمیشن کی عبوری رپورٹ آئی تھی حتمی رپورٹ کمیشن نے نہیں دی، ابھی ہمیں معلوم ہی نہیں کتنا پیسہ بیرون ملک چلا گیا۔ گورنر سٹیٹ بینک طارق باجودہ نے کہا کہ عدالت نے ایڈووکیٹ خالد انور کی سربراہی میں کمیٹی بنائی ،کمیٹی کی رپورٹ آچکی ہے۔ اس بات کا احاطہ ہونا چاہیے بیرون ملک پیسہ کیسے گیا، موجودہ قوانین اور معاہدوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ٹی او آر میں یہ بات شامل ہے کہ غیر قانونی طریقے سے منتقل رقم واپس کیسے لایا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بیرون ملک رقم کی منتقلی کے سٹیٹ بینک کبھی بھی آڈر جاری کر سکتا ، اصل سوال یہ ہے کہ جو رقم باہر منتقل ہوئی وہ واپس کیسے آئے گی ، ان لوگوں کی نشاندہی کرنی ہے جبکہ بیرون ملک اکاو¿نٹس اور املاک ہیں ۔ گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ یہ بات ٹی او آرس میں شامل نہیں تھی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ پتہ چلنا چاہئے کتنے پاکستانیوں کے سوئٹزرلینڈ میں اکاو¿نٹس اور املاک ہے مگرہماری اس بات کو اہمیت نہیں دی گئی،چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ہم انتظار کریں حکومت پہلے معائدہ کرے اور پھر عدالتی کاروائی ہو،کیا ایف بی آر اپنے ٹیکس ہولڈر سے نہیں پوچھ سکتے کہ ان کے بیرون ملک اکاو¿نٹ ہے کہ نہیں۔ گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ ہر ٹیکس ہولڈر پابند ہے کہ وہ فارن اکاو¿نٹ اور املاک کا بتائے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہمارا سسٹم مفلوج ہے، اگر ٹیکس ادا کرنے والا معلومات نہ دے تو ہم فارن اکاو¿نٹس کا معلوم نہیں کر سکتے ،کیا اسٹیٹ بینک کے پاس معلومات ہے کہ کس شخص نے کتنے ڈالر بیرون ملک بھیجے۔گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ بینکوں سے ایسی معلومات لے سکتے ہیں،ایک سال میں پچاس ہزار ےا اس سے زائد جتنی رقم باہر بھیجی ساری معلومات لیں۔ جسٹس عمر عطاءبندےال نے کہا کہایسی معلومات اسٹیٹ بینک خود نکال کر جائزہ کیوں نہیں لیتا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈالر آج118 روپے پرچلا گیا ہے۔جسٹس عمر عطاءبندےال نے کہا کہ اثاثوں کو پکڑنے کے لیے فارن اکاونٹس میں ٹرانزیکشن کا جائزہ لے سکتے ہیں۔گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ 1992 کے ایکٹ کے مطابق یہ ٹرانزیکشن خفیہ ہوتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ 1992کا قانون دکھا دیں اس کو معطل کر دیتے ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ایف بی آر کے پاس درجنوں ڈبل کیبن گاڑیاں ہیں،ایسی گاڑیاں جن کی یہ اہلیت نہیں رکھتے ، ایف بی آر کے پاس یہ گاڑےاں کہا ں سے آگئی ہیں ۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ڈبل کیبن آپریشنل گاڑیاں ہیں ،کچھ گاڑیاں یوایس ایڈ نے دی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایف بی آر نے ایسا کیا آپریشنل کرنا ہوتا ہے جو 1300سی سی گاڑی سے نہیں ہوسکتا؟چیف جسٹس نے کہا کہ کسٹم حکام جو گاڑیاں نان کسٹم پیڈ پکڑتے ہیں ان کی تفصیلات واضح کی جائیں، نان کسٹم پیڈ گاڑیاں افسران سرکاری ضبط کرنے کے بجائے خود استعمال کرتے ہیں ، ایسی پالیسیاں خود بنائی گئی کہ پیسہ بیرون ملک چلا جائے، یہ ریاست کی ناکامی ہے ،مارکیٹ سے ہائیڈریش کر فارن اکاو¿نٹس میں ڈال دیا جاتا ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ ہم تو ملک کے قانون کے پابند ہیں،عدالت اپنی تشریح کر دے تو اس کی پابندی بھی کریں گے ۔ جسٹس عمر عطاءبندےال نے کہا کہ دوبئی میں کتنے پاکستانیوں کی جائیدادیں ہیں و ہ بھول جائیں ،اگر ایف بی آر کے پاس کوئی چھڑی نہیں ہے تو ایمنسٹی اسکیم کیوں دیتے ہیں۔ گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ ایمنسٹی اسکیم کے بعد جو لوگ سہولت اٹھائےں گے تو معلومات آجائے گی ۔ عمر عطاءبندےال نے کہا کہ حکومت پاکستان اپنے اقدام کرے ،اثاثوں کی ریکوری کے لئیے غیر ملکی معاہدوں پر انحصار نہ کریں ،اثاثے واپس لانے کے لئیے اقدامات کریں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کی بقا بیرون ملک اثاثوں سے اور پانی سے وابستہ ہے ۔ پانی ملک میں پینے کے لئیے نہیں مل رہا ۔ گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ 1998 دھماکوں کے بعد فارن اکاو¿نٹس منجمند ہوئے جس سے منفی اثرات پڑے،عدالت کے ریمارکس سے ڈالر کے ریٹ پر کوئی اثر نہیں پڑا ،چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ایسا اقدامات کریں جس سے معیشت پر منفی اثر نہ پڑے ،اب مقصد یہ ہے کہ ستمبر سے قبل ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھا لیں ۔ چھوٹی چھوٹی ٹرانزیکشنز سے بھی رقم جاتی ہے، گورنر سٹیٹ بینک نے جواب دےا کہ ٹیڈی بکریوں کوبھی پکڑ لیتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جہانگیرترین نے کتنے ملین ڈالرز بیرون ملک بھیج دئیے جہانگیرترین نے باہر اثاثے بنالئے ،جہانگیرترین نے گوشواروں میں کچھ اور بتایا ہے۔ دوران سماعت محمد علی درانی نے کہا کہ انہوں نے بھی پٹیشن دائر کی ہے پوری دنیا میں چور پکڑا جائے تو معیشت مضبوط ہوتی ہے،یہاں چیف جسٹس چور کو پکڑنے کی بات کریں تو معیشت پر منفی اثرات پڑ جاتے ہیں ، انہوں ایمنسٹی سکیم پر اعتراضات اٹھائے کہ انڈےا میں 45فیصد ٹیکس جمع کرنے پرایمنسٹی سکیم دی گئی جبکہ پاکستان کی ایمنسٹی سکیم صرف دو فیصد پر دی جاری ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ میں کسی کی سفارش پر نوکری کی بات کروں تو وہ ناراض ہو جاتا ہے،اسٹیٹ بینک بھی معلوم ان.کے پاس کتنی بڑی گاڑیاں ہیں ،جن کے پاس بڑی گاڑیاں ہیں واپس لے لیں۔ مجھے معلوم ہے چیئرمین ایف بی آر کے پاس 1300سی سی گاڑی ہے ،مجھے معلوم.ہے کن کے پاس بڑی گاڑیاں ہیںیہ قوم کاپیسہ قوم کامال،مشعل راہ بنیں ،میں نے تمام چیف جسٹس صاحبان سے بھی تفصیل مانگی ہیں۔گونر سٹیٹ بینک نے کہا میرے پاس ایک جیپ بھی ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ جیپ آپ کیسے استعمال کرسکتے ہیں، عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی اور ایڈوکیٹ جنرلز کے توسط سے حکومتوں کی جانب سے سرکاری محکوں کو دی جانے والی لگژری گاڑیوں کی تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں۔
چیف جسٹس