چوہدری شجاعت حسین۔سچ تو یہ ہے
اب تک تو بہت کچھ لکھا جاچکا چوہدری شجاعت حسین کی کتاب"سچ تو یہ ہے"پر، بہت سی نئی باتیں معلوم ہوئیں اور بہت کی تصدیق ۔اپنی اپنی پسند اور ناپسند کو موضوعات بنا کر کالم نویسوں نے خوب ذہنی لذت حاصل کی۔مجھے بھی گذشتہ دنوں جب برادرم فاروق انصاری نے کتاب پڑھنے کیلئے دی تو ایک ہی نشست میں پڑھ لی ۔واقعات اورپھر ان کا تسلسل دلچسپی سے بھر پور تھا۔کئی ایک غلط فہمیاں دور ہوگئیںپڑھنے والوں کی۔ جنرل ایوب خاں،جنرل یحی خاں،جنرل ضیاءالحق،جنرل پرویز مشرف،نواز شریف ،لال مسجد،ڈاکٹر قدیر، اکبر بگٹی اور سقوط مشرقی پاکستان کے ابواب خاص طور پر بڑے دلچسپ تھے۔میرا مقصد کتاب پر تبصرہ کی بجائے کچھ ایسے کرداروں کا مطالعہ تھا جو شروع سے ایک مثبت علامت کے طور پر سامنے آتے رہے۔حبیب جالب میرے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک ہے۔چوہدری شجاعت حسین نے بیان کیا ہے کہ" اسی طرح میں ایک روزایوان وزیر اعظم گیا تو معلوم ہوا کہ وزیراعظم محمد خاں جونیجو کی ہدائت پر وزیر خزانہ مستحق دانشوروں ،شاعروں اور ادیبو ں کی فہرستیں بنا رہے ہیں تاکہ ان کی مالی امدادکی جاسکے ۔میں ان دنوں وزیر اطلاعات ونشریات تھا۔وزیر اعظم جونیجو نے مجھ سے کہاآپ کے ذہن میں بھی اگر کوئی نام ہے تو بتادیں۔میں نے حبیب جالب کا نام لیا ۔وزیر اعظم نے کہا کہ تو پھر حبیب جالب کا پانچ لاکھ روپے کا امدادی چیک آپ ہی ان کو جاکر دے آئیں ۔حبیب جالب عجیب درویش آدمی تھے ۔میں پانچ لاکھ روپے کا چیک لے کرانکے گھر پہنچا۔ملتان روڈ پر واقع ان کا ایک بہت چھوٹا سا گھر تھا۔میں نے ان کو بتایا کہ اس طرح وزیر اعظم نے شاعروں اور ادیبوں کیلئے امداد کا اعلان کیا ہے ،میں آپ کےلئے پانچ لاکھ روپے کا سرکاری چیک لےکر آیا ہوں۔حبیب جالب نے اپنی بیوی کو بلایا اور پھر ان کی موجودگی میں مجھ سے کہا ۔ "چوہدری صاحب آٹا آپکی مل سے آجاتا ہے۔رکشہ ،ٹیکسی کاکرایہ آپکے ملازم حاجی زمان سے لے لیتا ہوں،سگریٹ پانی کا خرچہ آپکے سیکرٹری سیٹھ اشرف دے دیتے ہیں، میرا گذارہ ٹھیک چل رہا ہے ۔حکومت کا پانچ لاکھ کا یہ امدادی چیک میں نہیں لونگا،یہ آپ حکومت کو واپس کردیں ۔میں نے ان کو راضی کرنے کی بڑی کوشش کی مگر وہ نہیں مانے ۔چنانچہ میں نے وہ چیک حکومت کو واپس کردیا" ۔ایوب خاں کے نافذکردہ کالے قانون"ایبڈو"کا ذکر کرتے ہوئے چوہدری صاحب نے لکھا ہے کہ" مارشل لاءکا دبدبہ قائم کرنے کےلئے ان سب سیاست دانوں کو دبانے کی کوشش کی گئی جو اپنے اپنے علاقوں میں اثر رسوخ رکھتے تھے ۔میرے والد چونکہ اس وقت تک ضلع گجرات کی سیاست میں ایک نمایاں مقام حاصل کرچکے تھے،وہ بھی معتوب قرار پائے ۔ان کیخلاف ایبڈو" (Elected Bodies Disqualification Order)کے تحت کاروائی کا فیصلہ کیاگیا۔اس قانون کے تحت سیاست دانوں کو چوائس دی گئی تھی کہ یاتو از خود سات سال کیلئے سیاست سے دست بردار ہوجائیں،یاپھر مقدمات بھگتنے کیلئے تیار ہوجائیں۔ صرف تین سیاست دان تھے ،جن میں میرے والد چوہدری ظہور الہی بھی شامل تھے ،جنہوں نے سیاست بدری کے اس قانون کو چیلنج کیا۔ ایبڈو کے تحت قائم ہونیوالے مقدمات میں وکیل کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ہر سیاست دان کو اپنا مقدمہ خود ہی لڑنا پڑتا تھا۔میرے والد نے بھی اپنا مقدمہ خود ہی لڑامگر انہوں نے اس خوبی ،مہارت اور جرا¿ت مندی سے مقدمہ لڑا کہ عدالت نے اپنے ریمارکس میں ان کی بے حد تعریف کی اور کہا کہ جس طرح انہوں نے اپنا مقدمہ لڑا ہے ،اس طرح کسی اور سیاست دان نے اپنا مقدمہ نہیں لڑا۔ان تعریفی کلمات کے بعد میرے والد کو ان تمام الزامات سے بری کردیا گیا جو ایبڈو کے تحت ان پر لگائے گئے تھے۔لہذا یہ کہنا کہ میرے والد کی سیاست جنرل ایوب خاں کی مرہون منت تھی ،تاریخی اور واقعاتی دونوں اعتبار سے درست نہیں ۔سیاست میں ان کی کامیابی ان کی اپنی جدوجہد کا ثمر تھی"۔ آپکی دلچسپی کیلئے بتاتا چلوں کہ دیگر دوسیاستدان جن کا ذکر کئے بغیر "ایبڈو کہانی"مکمل نہیں ہوتی وہ تھے سابق وزیر اعظم پاکستان حسین شہید سہروردی اور سابق وزیر داخلہ پاکستان وگورنر پنجاب نواب مشتاق احمد گورمانی۔ان پر بھی جب "ایبڈو"کا قانون لاگو کیاگیا تو دونوں نے اپنا اپنا قانونی دفاع بہت اعلی طریقے سے کیا۔ایک واقعہ ہمارے سینئر دوست اور ایڈووکیٹ ظفر گوندل سنایا کرتے تھے کہ جب سہروردی صاحب پر فرد جرم عائد کی گئی تو وہ فورا اپنی جگہ پر بھری عدالت میں کھڑے ہوگئے اور ٹربیونل کے جج جسٹس چنگیز سے کہا کہ فردجرم میں اصل الزام تو مجھ پر عائد ہی نہیں کیاگیا۔اسے بھی فرد جرم کا حصہ بنایا جائے ۔عدالت کے استفسار پر بتایا کہ میرااصل جرم یہ ہے کہ میں نے بطور وزیر اعظم پاکستان جنرل ایوب خاں کی مدت ملازمت میں توسیع کی تھی ۔سرکار کے پراسیکوٹرچوہدری نذیر احمد ایڈووکیٹ تھے جن کے بارے میں انکے عدالت میں ادا کیئے ہوئے جملے کوبڑی شہرت ملی کہHe is not learned nor my friend"©" یعنی نہ تو یہ پراسیکوٹر کوئی عالم فاضل ہے اور نہ ہی میرادوست ۔سہروردی صاحب نے چوہدری نذیر احمد کو زچ کرنے کے علاوہ اپنا مقدمہ اتنی پیشہ وارانہ مہارت سے لڑا کہ چوہدری ظہور الہی کی طرح ان پر بھی کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا اور اسی طرح نواب مشتاق گورمانی جن پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے علاقے کیلئے ایک نہر کی منظوری دی تھی۔انہوں نے سرکاری گواہ ایک چیف انجینئر پر جرح کی یہ نہر جو میرے گاﺅں کو جاتی ہے اسکے راستے میںکیا اور گاﺅں بھی آتے ہیں۔اثبات میں جواب آنے پر نواب گورمانی نے عدالت میں وہ تمام نقشے پیش کردیئے جوسرکاری گواہ اور پراسیکوٹرکے بیان کی نفی کرتے تھے۔ان چیف انجینئر صاحب کانام بتانا اس لئے ضروری نہیں کہ آجکل انکے بیٹے ایک معروف سیاستدان ہیں اور ایک صوبے میں انکی حکومت بھی ہے۔قصہ کوتاہ حسین شہید سہروردی کے علاوہ نواب مشتاق گورمانی بھی اپنی قابلیت اور صداقت کے زورپر جھوٹ کے بنائے ہوئے "ایبڈوقلعے"سے باہر آگئے۔سقوط مشرقی پاکستان کاذکر کرتے ہوئے چوہدری شجاعت حسین لکھتے ہیں کہ "بھٹو صاحب سے بھی میرے والد نے کہا کہ شیخ مجیب الرحمن کو حکومت سازی سے روکنے کا نتیجہ تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے ۔علاوہ اسکے ،یہ پیش کش بھی کی کہ اگر بھٹو صاحب اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں گے تو کم از کم وہ ضرورانکے ساتھ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں گے لیکن یہ ساری کوششیں رائیگاں گئیں اور جنرل یحی خاں ،بھٹو اور شیخ مجیب کی ہٹ دھرمی کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا۔مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد حالات مزید خراب ہوگئے ۔بھارت پہلے ہی گھات لگائے بیٹھا تھا۔موقع پاتے ہی وہ بھی اس میں کود پڑا۔راتوں رات بھارتی فوجیں بین الاقومی سرحد عبور کرکے مشرقی پاکستان میں داخل ہوگئیں"۔