زنجیر ہلا دی ہے
بات سیاست اور سیاستدانوں کی چل رہی ہے کون جانے والا ہے؟ کون آ رہا ہے ؟ کون ایماندار ہے اور کون بے ایمان ہے۔ اہل کون ہے اور نا اہل کون ہے؟ سارے جھگڑے، سارے بحث مباحثے ساری دلچسپیاں اسی ایک دائرے میں حسب معمول کوہلو کے بیل کی طرح گھومتی نظر آ رہی ہیں۔ دلچسپی سیاست سے ہے ریاست سے نہیں، ریاست کو کیا خطرات درپیش ہیں اسکی جانب کوئی توجہ نہیں فرما رہا۔ اگر سیاستدان بدل دینے سے ریاست کے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں تو اب تک کسی نے کسی پسندیدہ اور منتخب پارٹی کے ذریعے ایسا ممکن ہوچکا ہوتا۔ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ سیاست دانوں کے انتخاب کے وقت عوام کے پیش نظر ریاست کے مسائل بھی ہوتے ہیں لیکن کسی نے سچ کہاہے کہ ایک کلو خربوزے خریدتے وقت آدھی ریڑھی کو سونگنے والا ووٹ ڈالتے اور حکمران منتخب کرتے وقت نجانے اندھا کیوں ہوجاتا ہے پارٹی کوئی بھی آئے ، حکمران جس بھی پارٹی کا ہو لیکن اس وقت پاکستان خطرناک اور نازک ترین دور سے گزر رہا ہے ایسے حالات میں چیف جسٹس صاحب کی اچانک اور بھرپور انٹری نے عوام کے نہ صرف دل جیت لئے ہیں بلکہ انہیں یہ بھی احساس دلا دیا ہے کہ وطن عزیز کا ہر ادارہ تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے۔
چیف جسٹس نے جب تباہ حال یونیورسٹیوں کا نوٹس لیا معلوم ہوا کہ تقریبا ہر جگہ وائس چانسلر اقرباپروروی اور کمیشن کی بنیاد پر تعینات ہیں پنجاب یونیورسٹی کے وی سی کے متعلق تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ نہ صرف یونیورسٹی کا 80فیصد رقبہ گرڈ اسٹیشن کیلئے حکومت کو بیچ دیا ہے۔ صحت کے ساتھ کھیلنا کسی طور گوار نہیں کیا جاسکتا لیکن ہمارا میڈیکل کا شعبہ بھی تباہ کاریوں کی نذر ہوچکا ہے۔ جعلی لائسنس رکھنے والے عطائیوں نے لوگوں کی زندگی اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے۔ ننھی جانوں کی زندگیاں داﺅ پر لگ چکی ہیں ایموکسل اور اگمنٹن اور سنیکوس سمیت مزید100قسم کی ادویات زاد المیعاد نکلی ہیں یہ وہ ادویات ہیں جو تقریبا ہر گھر میں پائی جاتی ہیں۔ یونیورسٹیوں کی طرح ہسپتالوں کے ایم ایس بھی اقربا پروری کی نشوونما نکلے۔ میڈیکل کالجوں میں فیسوں کا ایشو کئی گنا زیادہ نکلا۔ ریلوے بھی تباہ حالی کا شکار نکلا۔ اس کا نوٹس لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ریلوے کا خسارہ دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے۔ پی آئی اے عرصہ دراز سے خسارے کا شکار ہے۔ معلوم ہوا کہ اس کا خسارہ ہوشربا حد تک بڑھ چکا ہے۔ سیکورٹی اہلکاروں کو واپس بلانے کا مسئلہ بھی آج کل خبروں کی زینت بنا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ نے غیر متعلقہ افراد کی سیکورٹی پر مامور افراد کو واپس بلانے کا بھی حکم دے دیا۔ جس کی تعمیل میں چاروں صوبوں نے کئی ہزار اہلکاروں کی سیکورٹی ڈیوٹی ختم کردی۔ اس فیصلے پر نظر ثانی کرکے اگر چیف جسٹس نے کچھ نرمی اختیار کی ہے کیونکہ بعض لوگوں کی زندگیوں کو واقعی خطرہ ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے پیر کو غیر متعلقہ افراد کی سیکورٹی واپس لینے سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ابہام کو دور کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ جس شخص کی زندگی کو حقیقی خطرہ ہو اس سے سیکورٹی واپس نہ لی جائے۔
یقینا یہ تمام کام قابل فخر بھی ہیں اور قابل تقلید بھی۔ لیکن سیکورٹی تو آج ہم سب کو درکار ہے۔ ہماری جان و مال غیر محفوظ ہیں ہمارے گرد انسان نما بے شمار درندے گھومتے ہیں جو ہمیں ہروقت چیر پھاڑ کر کھاجانے کی کوشش میں ہی رہتے ہیں۔ ہماری ننھی پریاں اب لوگوں میں کھیلنے سے ڈرنے لگی ہیں۔ ہماری گڑیا اب کوئی اپنے پنجوں تلے روند دیتا ہے۔ ہماری آہ و بکا عرش وفرش تک ہلا دیتی ہیں لیکن ایوانوں تک اس کی رسائی کیوں نہیں ہورہی۔ ہمیں دبوچنے والے درندوں کی لمبی سماعتیں رکھ کر زندگی کی مہلت دینا کیا انصاف ہے؟ مجرم کو فوری سزا کیوں نہیں دی جاتی۔ ہمیں چند لمحوں کی ہوس کے بدلے ہماری سانسیں چھین لینے والے زندہ سلامت کیوں گھوم رہے ہیں جو پکڑے گئے وہ بھی زندہ اور جو نہیں پکڑے گئے وہ نجانے اور کئی گڑیا روندنے والے ہیں۔ ہماری مائیں بہنیں دشمنی کی بھینٹ چڑھ جانے والے جوان بیٹوں کی لاشوں پر ماتم کناں ہیں۔ وہ سالوں عدالتوں میں سینہ کوبی کرتی ہیں لیکن انصاف کے در سالوں ان پر بند ہی کیوں رہتے ہیں۔ معاشی اور معاشرتی مسائل سے دوچار نجانے کتنے لوگ آپ کی عدالتوں میں چکر کاٹ کاٹ کر آخر کار مایوسی کی موت مر جاتے ہیں ان کی ہمت ان کے حوصلے جواب دے جاتے ہیں لیکن انصاف ان کی آنکھوں کا ایسا خواب بن کر رہ گیا ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس صاحب آپ کے انتظامات آپ کی کارکردگی قابل ستائش ہے لیکن خدارا اس جانب بھی توجہ مرکوز کیجئے۔ حکمران اپنی عوام کیلئے اللہ کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب حکمرانوں اور آپ سے عوام انصاف چاہتے ہیں۔ اپنی جان و مال کا تحفظ چاہتے ہیں۔ انصاف کی توقع بھی ہے اور زنجیر بھی ہلا دی ہے۔