معین اختر کیلئے ایک کالم
جب بھی اپریل کا مہینہ آتا ہے، معین اختر سے بچھڑنے کا غم تمام مداحوں کے دل میں تازہ ہو جاتاتھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ معین اختر کے لئے ایک شو کا انتظام کیا گیا، یہ ایک چیرٹی شو تھا۔ اس کا تمام اہتمام گورنمنٹ کالج صادق آباد کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اس شو کی میزبانی کے فرائض شہلا سولنگی جو اس زمانے کی معروف اداکارہ تھی سرانجام دے رہی تھی۔ ہم تمام اساتذہ اور طالبات اور دیگر سکولوں سے آئی ہوئی طالبات بھی ہال میں موجود تھیں۔ ہال مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ معین اختر کو پہنچنے میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ شہلا سولنگی سے تمام حاضرین کو کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ لوگوں کے دل میں معین اختر کے لئے بے انتہا پیار اور خلوص تھا۔ اور وہ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھے ۔ اس دن یہ اندازہ کرنا نہایت آسان تھا کہ معین اختر اپنے فن ، اپنی خوبیوں اور کمال مہارت کی وجہ سے لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں تک اتر چکے ہیں۔ معین اختر کی آمد پر ہر چہرہ پرجوش اور پرمسرت تھا۔ معین اختر نے مائک سنبھالتے ہی اپنی گفتگو اور مزاح سے لوگوں کے دل موہ لیے ۔
معین اختر سے پروگرام کے بعد اس زمانے کے کالج میگزین کے لئے میں نے ان سے کچھ سوالات کیے ۔ سوالات تو ذہن سے محو ہوگئے ۔ لیکن اتنا یاد ہے کہ وہ ان دنوں مسلسل چیرٹی پروگرام کر رہے تھے ۔ اور تھکاوٹ کے آثار ان کے چہرے سے ظاہر تھے ۔ ابھی انہوں نے پھر سے سفر کرنا تھا۔ لیکن انہوں نے بڑے تحمل اور اپنائیت سے سوالوں کے جواب دئیے جو اس دور میں کالج میگزین کی زینت بنے ، لاہور میں کچھ عرصہ بعد جب ان سے خوش قسمتی سے ایک مرتبہ ملاقات ہوئی تو ان کو یہ اچھی طرح یادتھا کہ انہوں نے گورنمنٹ کا لج صادق آباد کے میگزین کے لئے ایک مختصر انٹرویو دیا تھا۔ راقمہ کی زندگی کا پہلا انٹرویو معین اختر سے لیاگیا انٹرویو تھا۔ معین اختر زبردست حافظے کے ساتھ قدرت کی طرف سے عطا کردہ بہت سی صلاحیتوں کے مالک تھے ۔ صادق آباد کے چیریٹی شو میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کا یقین اور عقیدہ محنت ہے، اور محنت کا اجر ضرور ملتا ہے۔ ان کی بات سو فیصد درست تھی معین اختر کی مسلسل شب بیداریوں کا نتیجہ ان کی شہرت تھی اور ان کو وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ وہ جو کردار نبھاہتے جس لہجے میں نقل اتارتے وہ کردار زندہ تصویر بن جاتا۔ معین اختر نے زندگی کے ہر چیلنج کو قبول کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے دل کی بیماری کے چیلنج کو بھی قبول کیا اور بڑی ہمت اور جرا¿ت سے اس بیماری سے لڑتے رہے ، کتنے دکھ کی بات تھی کہ لوگوں کو ہنسانے اور چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والے معین اختر خود دل کے عارضے میں مبتلا تھے ۔ لیکن انہوں نے بیماری کو خود پرحاوی نہ ہونے دیا بلکہ اپنے فن پر بھرپور توجہ برقرار رکھی اور ہر کردار کو اتنی خوبصورتی سے ادا کیا کہ وہ شہرہ آفاق بن گیا۔
بقول امجد اسلام امجد معین اختر نے ہر کردار کو اتنی کامیابی سے اد اکیاکہ نہ نقش کو مصور سے گلہ رہا اور نہ مصور کو نقش سے گلہ رہا ۔ ان کی متحرک تصویریں آج کی نوجوان نسل کے لئے ایک بہت بڑا اثاثہ ہیں اور ہر نسل کے ایک خزانے اور ورثے کی طرح ہیں ۔ کہتے ہیں کہ فنکار کبھی نہیں مرتا۔ وہ اپنے فن کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے معین اختر ہمارے درمیان امر ہوگئے ہیں ۔ معین اختر نیکوکار بھی تھے۔ نیکی کے کاموںکو انتہائی خاموشی سے سرانجام دیتے اس بات کا اعتراف اداکار لہری نے ان کے وفات کی موقع پر کیا کہ معین اختر کی وجہ سے ان کے گھر کا دال دلیہ چلتا تھا۔ معین اختر دلوں میں گھر کرنے کا فن جانتے تھے ۔ آج بھی وہ اپنے مداحوں کے دل میں موجود ہیں معین اختر نے اپنی زندگی میں بھی اپنے کروڑوں مداحوں کی دعائیں لیں۔ ان کی وفات کے بعد بھی کروڑوں مداحوں نے ان کی مغفرت کے لئے دعائیں کیں۔ معین اختر چلے گئے لیکن ہمیشہ کے لئے لوگوں کے دلوں میں ٹھہر گئے جس کی وجہ ان کے اندر انسانیت کے لئے جذبہ کام سے محبت لگن اور کرداروں سے وفا نبھانا تھا۔