• news
  • image

افواہیں،قیاس آرائیاں اور امکانی سیاست!

کہتے ہیں کہ فارغ ذہن شیطانی خیالات اور وسوسوں کی آماجگاہ ہوتا ہے۔ ہماری ’عوام‘ جنہیں ابھی تک’ قوم ‘بننا نصیب نہیں ہوا ،ان سے متعلق کہا جاتا ہے کہ’ ویہلی قوم، کسے کم دی نہ کار دی‘،دوسرا لقب جو ان کیلئے استعمال ہوتا ہے ،وہ ہے’تماشبین‘ جسے تماشبینی کیلئے روز کوئی تما شہ چاہیے گذشتہ روز عدالت کے طرف سے میاں نواز شریف اور جہانگیرترین کی ’تاحیات نااہلی‘ کا فیصلہ کیا آیا گویا سیاسی ماحول کا پارایک دم چڑھ گیا، اس فیصلے کے متاثرین کے رد ِ عمل سے بھی پہلے ، میڈیا پر ایساشور و غوغا بلند ہوا کہ الامان ’ویہلی قوم‘ کو گویاقیاس آرائیوںکا موقع مل گیا،ہر کوئی ’سقراطِ زماں‘ اور’افلاطون ِ عصر‘ بنا جا رہا ہے اس فیصلے کے متاثرین ، اپیل میں جاتے ہیں یانہیں؟ یاان کا ردِ عمل کچھ اور ہوتا ہے ؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا،اپیل کا راستہ البتہ کھلا ہے، (سُنا ہے جہانگیر ترین نے اپیل کرنے کا عندیہ دیا ہے) اس بڑے فیصلے نے سیاسی ماحول میں جو غیر یقینی صورتحال پیداکر رکھی ہے وہ قیاس آرائیوں اور افواہوں کو جنم دے رہی ہے ہوا کا رُخ دیکھتے ہوئے بہت سے فصلی بٹیرے اُڑان بھر چکے، بہت سے اُڑنے کیلئے پر تول رہے ہیںکہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ’وہ اُڑے نہیں، اُڑائے گے ہیں، کسی دوسرے کی چھتری پہ بیٹھنے کیلئے ’جواری‘ ایک دوسرے کی چھتریاں ’ ویہلی‘ کرنے کے چکروں میں ہیں انصافیوں کی طرف سے ’نون‘ لیگ کے ’لقے کبوتر‘ کو پھانسنے کے جتن بھی سننے میں آئے ہیں حد تو یہ ہے کہ ادھر ایم کیو ایم کی پتنگیں ، ’پی ایس پی‘والے دھڑادھڑ کاٹ رہے ہیں،جس پر ایم کیو ایم کے کنوینر فاروق ستار نے خوب واویلا مچا رکھاہے ،انہیں اس کے پیچھے ’گہری سازش‘ دکھائی دے رہی ہے، گذشتہ روز انہوں نے اپنی ایک ’پتنگ‘ میڈیا والوں کے سامنے پیش بھی کی جسے مخالفین کاٹنے کے در پے تھے،آخر وہ کون ہے جو ایم کیو ایم کی پتنگیں کاٹنے میں ’ پی ایس پی‘ کی مدد کر رہا ہے؟فاروق ستارنے’ وقت آنے پر مدد کرنے والوں کو ’بے نقاب‘ کرنے کی دھمکی بھی دی، وہ وقت جانے کب آئےگا؟ اس کا انتظار کرتے کرتے تو چودھری نثار صاحب کی ’وگ‘ میں بھی ’بگے‘ آنا شروع ہو گئے ہیںمگر وہ وقت آنے کا نام ہی نہیں لے رہاایسے موقعوں پر یہ شعر جانے کیوں یاد آنے لگتا ہے،
بہت شور سُنتے تھے پہلو میں دل کا
چیرا تو اک قطرہءخوں نہ نکلا
کچھ ایسا ہی چودھری نثار اور ایم کیوایم کے بارے میں کہا جا سکتا ہے،مگران کی باتوں سے یہ اشارہ ضرور ملتا ہے کہ’ دال میں کچھ کالا‘ ہے ضرور یا ’پردے کے پیچھے‘ کچھ نہ کچھ ہو ضرور رہا ہے! جس کی چاپ سُنائی دے رہی ہے!رضا ربانی کی ’جہاں دیدہ‘ نظر تو پردے کے پیچھے کچھ دور تک دیکھ آئی جبھی تو انہوں نے کہاکہ ’ اٹھارویں ترمیم کو ختم کیا گیا تووفاق کیلئے بڑا خطرہ ہو گا‘تو کیا اٹھارویں ترمیم ختم ہونے جا رہی ہے ؟ اگر بات سچ ہے تو کون ایسا چاہ رہا ہے اور کیوں؟ گویا کہیں نہ کہیں کھچڑی پک ضرور رہی ہے؟ اس بحث سے ہٹ کر یہ سوچنا ہو گا کہ مارشل لاءکی باتیںہو کیوں رہی ہیں؟ میاں نواز شریف نے بھی چند دن پہلے میڈیا سے گفتگو میںاشارہ دیا کہ’ اڈیالہ جیل کی صفائی کیوں اور کس کے کہنے پر ہو رہی ہے؟یہ سب ان قیاس آرائیوں کو تقویت دینے کیلئے کافی ہے کہ’کچھ نہ کچھ ہونے جا رہا ہے‘،کچھ ہو نہ ہو لیکن سیاسی حالات ہیں غیر یقینی!
انہی غیر یقینی حالات کے پیشِ نظر ، چشم ِ تصور میں یا بادی النظر میں،امکانی سیاست کا جو ’ ناک نقشہ‘ بنتا نظر آ رہا ہے اسکی جھلک ابھی کچھ ہی دن پہلے، بھٹوکی برسی پر، زرداری صاحب نے عوام سے اپنے دھواں دار خطاب میں دکھائی ، وہ پنجاب کی حکومت ’نون‘ لیگ سے چھین چکے ،اور تخت لاہور پر اپنا ’جیالا‘ تخت نشین بھی کروا چکے، اودھر نواز شریف جو 2018کا انتخاب ب دو تہائی اکثریت سے جیتنے کے لئے پُر امید ہیں،انہوں نے سوات کے جلسے میں،عوام کو،’ کے پی کے‘ میں ’نون‘ لیگ کی حکومت کے قیام کا عندیہ دیاپنجاب تو سالوں سے انکی عملداری میں ہے،یہاں کوئی ’دوجا‘ دم نہیں مار سکتا ،دوسری طرف تحریک انصاف کے عمران خان توسوتے جاگتے خواب ہی وزارت عظمیٰ کے دیکھتے ہیں، کے پی کے تو پہلے ہی انکے قدموں کے نیچے ہے انہوں نے اپنے بہت سے ممبرز کو سینیٹ الیکشن میں ’ بِکنے‘پر پارٹی سے نکال کر نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ زردزری کو لگتا ہے تخت لاہور ان کی راہ دیکھ رہا ہے، جہاں وہ تحریک انصاف کا ’جھنڈا‘ گاڑیں گے بلوچستان بھی انہیں پکار رہا ہے دیگر پارٹیوں میں ایم کیو ایم تو اسکے اتحاد کا شیرازہ کب کا بکھر چکا، ہمیشہ کی طرح جو جیتا یہ اسکے ساتھ، اودھر مولانا فضل الرحمٰن کو تو ویسے ہی ، اپنا حصہ بقدرے جثہ (بلکہ اس سے بہت زیادہ)وصول کرنے کا گُر بخوبی آتا ہے انہیں پتہ ہے کہ کسی بھی حکومت کی گاڑی ’ان ‘ کے بغیر نہیں چل سکتی۔ جماعت اسلامی کاتعلق ہے تو اس نے اپنے جنم سے ہی پاکستان کی، دین سے بے بہرہ اور مادر پدرآزاد عوام کی اصلاح کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے، انہوں نے ’کے پی کے‘ میں ’انصافیوں‘کا ساتھ معاشرے سے ’ نا انصافیوں ‘ کے خاتمہ کےلئے دیا،ایک طرف وہ میاں صاحب کیخلاف پاناما کیس میں مدعی ہیں تو دوسری طرف آزاد کشمیر اور سینیٹ انتخابات میں انہی کے اتحادی،انہیں اُمید ہے کہ وہ اپنی اوقات سے بڑھ کر انتخابات میں کمال کر دکھائیں گےتانگا پارٹیاں اپنی جگہ پُر اُمید ہیںان سب خام خیالیوں پر کوئی’ چلمن‘ سے لگا ہنس بھی رہا ہے اور بڑ بڑا بھی رہا ہے کہ انتخابات تو ہوں گے !

epaper

ای پیپر-دی نیشن