آئی ایم ایف پیکج نہیں چاہیے : وزیر خزانہ‘ ٹیکس نادہندگان کا پیچھا کرینگے : شاہد خاقان
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ این این آئی‘ عترت جعفری ) وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے بیل آﺅٹ پیکیج کےلئے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا کوئی ارادہ نہیں اور ہماری پوری کوشش ہے کہ اس سے احتراز برتا جائے۔ قومی اقتصادی کونسل کے پاس بجٹ منظور کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ یہ حق پارلیمنٹ کا ہے کہ بجٹ منظور کرے۔ سپر ٹیکس تین سال میں کارپوریشن کے لئے اور چار میں بینکوں کے لئے ختم ہو جائے گا۔ پیٹرولیم لیوی کی صرف حد کو بڑھایا گیا ہے، تاہم اسے موثر نہیں کیا گیا۔ 63 سال میں ملک کے اندر بیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت آئی تھی، ہم نے پانچ سال میں بارہ ہزار میگاواٹ بجلی کے پلانٹ لگا دیئے۔ کراچی میں پانی کے مسئلے کو حل کرنے کی طرف پہلا قدم اٹھایا ہے۔ بجٹ میں مالی خسارہ کا ہدف جی ڈی پی کا 4.9 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو ممالک تیل درآمد کرتے ہیں ان کے مقابلہ میں پاکستان کے اندر تیل کی قیمتیں سب سے سستی ہیں۔ تیس جون تک ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا۔ وفاقی وزیر خزانہ نے ان خیالات کا اظہار معاون خصوصی ریونیو ہارون اختر خان کے ہمراہ مشترکہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ ایف بی آر کے چیئرمین طارق پاشا، سیکرٹری خزانہ اور دیگر اعلیٰ افسران بھی موجود تھے۔ این این آئی کے مطابق وزیر خزانہ نے کہا نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی۔ ٹیکس نیٹ بڑھائیں گے۔ آئی ایم ایف پیکیج کی ضرورت نہیں۔ یکم جولائی کو لیوی نہیں بڑھے گی۔ نمائندہ خصوصی کے مطابق ہارون اختر خان نے کہا بجٹ میں 93 ارب روپے کے ریونیو اقدامات کیے گئے ہیں جن کے تحت ایک فیصد اضافی ڈیوٹی لگی ہے اور فردر ٹیکس بھی لگایا گیا ہے۔ گفٹ دینے کو صرف رشتہ داروں تک محدود کیا گیا ہے، کسی دوسرے کو گفٹ دینے پر ٹیکس لگے گا۔ کرنٹ خسارہ کو بہتر بنانے کے لئے ایکسپورٹ پیکیج دیا گیا اور لگثری آئٹمز پر ڈیوٹی لگائی گئی۔ ہم نے مستقبل میں بننے والی حکومت کو ریونیو بڑھانے کا موقع دیا ہے۔ وزیر خزانہ نے گذشتہ روز اپنی پہلی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کوشش کی ہے کہ موجودہ ٹیکس دہندگان یا جو نئے ٹیکس گزار نیٹ میں آئیں گے، انھیں سہولت دی جائے اور ان لوگوں کے لئے دروازے بند کیے جائیں جو ٹیکس دینے والوں کی فہرست میں نہیں ہیں۔ہم نے بجٹ میں تمام حکومتی اخراجات کا تخمینہ لگایا ہے اور اس بات کی قوی امید ہے کہ تمام سرکاری اخراجات حدود کے اندر رہیں گے اور کسی ضمنی بجٹ کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔ انھوں نے کہا کہ پیٹرولیم لیوی کو بڑھایا گیا لیکن ابھی اسے عوام تک منتقل کرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ پیٹرولیم لیوی کی شرحیں خاصے عرصے سے جوں کی توں تھیں جن پر اب نظر ثانی کی گئی ہے۔ فی الوقت پیٹرولیم لیوی کے موجودہ نرخ بھی جاری رہیں گے۔ انھوں نے کہا کہ بجٹ کے پیش کرنے کے بعد انعام علی کمیٹی بنائی جائے گی جس کے سربراہ ایف پی سی سی آئی کے سربراہی غضنفر بلور ہوں گے۔ اس کمیٹی میں چاروں صوبوں کے نمائندے شامل ہوں گے۔ وزیر اعظم نے برآمدات کی حوصلہ افزائی کا پیکیج دیا تھا ، جسے تین سال تک توسیع دینے کے لئے کمیٹی بنے گی جو اسے بہتر بنانے کے لئے اقدامات بھی کرے گی۔ جی آئی ڈی سی اور ایل این جی کی قیمتوں کا مسئلہ بھی حل کر لیا جائے گا۔ مشیر خزانہ سے یہ سوال کیا گیا کہ نارووال میں بھارت کی سرحد کے 800 میٹر دور ایک نیشنل سپورٹس سٹی قائم کیا گیا ہے، اس کا جواز کیا ہے۔ جس کے جواب میں انھوںنے کا کہ یہ پلاننگ کمیشن کا پروگرام ہے اور یہ فنانس منسٹر کا فیصلہ نہیں ہے۔ ہم کوئی ڈکٹیشن نہیں دے سکتے ہیں۔ ان سے پیٹرولیم لیوی کے نرخ بڑھانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ کورٹ میں تو ہر چیز چیلنج ہو سکتی ہے تاہم ہم نے صرف پیٹرولیم لیوی کی لِمٹ کو بڑھایا ہے تا کہ تیل کی عالمی قیمتوں میں اتار چڑھاﺅ کے سمویا جا سکے۔ اگر تیل کی قیمتیں بہت زیادہ نیچے آ جائیں گی تو تبھی پیٹرولیم لیوی موثر ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس بیل آﺅٹ پیکیج لینے کے لئے جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے اور تیس جون تک ان میں مزید اضافہ ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ وہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی فنڈنگ کے بارے میں کوئی بات نہیں کریں گے۔ کراچی میں پانی کا مسئلہ بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے۔ ہم اس مسئلے کے حل کے لئے کوشاں ہیں۔ منصوبہ کے حل کے لئے پہلا قدم اٹھایا ہے۔ گرین لائن بس بھی بنائی ہے۔ سندھ حکومت ابھی تک بسیں خریدنے کا کنٹریکٹ نہیں دے سکی ہے، ہم نے انھیں آفر کی ہے کہ ہم انھیں بسیں بھی لے کر دے دیتے ہیں۔وزیر خزانہ سے سوال کیا گیا کہ وزیر اعظم نے بارہ لاکھ روپے تک انکم ٹیکس کی چھوٹ دینے کا اعلان کیا تھا جبکہ بجٹ میں اس وعدہ کی پاسداری نہیں کی گئی ہے۔ جس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ فائلرز کی تعداد کو کم نہیں کیا جائے گا۔ ہم نے بجٹ میں اسی کا خیال رکھا ہے۔ بجٹ کے خسارہ کو محدود رکھنے کی پوری کوشش کی ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں یہ خسارہ 8.2 فیصد تک بھی گیا تھا۔ ہم نے اسے کم بھی کیا اور آئندہ بجٹ میں اس کا ہدف 4.9 فیصد ہے۔ توقع ہے کہ یہ اس سے کم رہے گا اور کرنٹ اکاﺅنٹ کے خساروں کو بھی کم کیا جائے گا۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ تنخواہوں میں دس فیصد ایڈہاک ریلیف دیا گیا ہے۔ کم سے کم معاوضہ کا معاملہ صوبوں سے متعلق ہے۔ اگر ہم یہ کرتے تو یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ یہ پری پول دھاندلی کر رہے ہیں۔ معاون خصوصی ہارون اختر خان نے کہا کہ بجٹ کی بہترین تیاری پر ایف بی آر کے چیئرمین اور ان کیس ساری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔ ایف بی آر کی ٹیم نے بجٹ کا بہت اچھا ڈاکومنٹ دیا ہے۔ گذشتہ پانچ سال کے دوران ایف بی آر کا ریونیو دوگنا ہو چکا ہے۔ آئندہ مالی سال میں تیئس سو ارب روپے صوبوں کو جائیں گے۔ ہم نے ٹیکس گزاروں کی سہولت کا خیال رکھا ہے۔ آڈٹ تین سال میں صرف ایک بار ہو گا اور وہ بھی اس کمپنی یا فرد کا ہو گا جو ہمارے رسک پیرامیٹرز کے اندر آئیں گے۔ ہم نے سارے تنخواہ دار طبقے کو آڈٹ کے دائرے سے نکال دیا ہے۔ تنخواہ داروں کے لئے گوشوارہ صرف ایک صفحے کا ہو گا۔ ٹیکس تنازعات کو طے کرنے کے متبادل نظام کے فیصلہ پر عمل کو لازمی بنا دیا گیا ہے۔ سپر ٹیکس جاری رہے گا تا ہم یہ آئندہ تین اور چار سال کے عرصے میں مرحلہ وار ختم ہو جائے گا۔ کوئلہ کی صنعت کے لئے ڈیوٹی اور ٹیکسز دونوں میں کمی کی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ بجٹ کے اندر ریونیو اقدامات نہیں ہیں۔ 93 ارب روپے کے ریونیو اقدامات کیے گئے ہیں۔ ایک فیصد اضافی ڈیوٹی اور فردر ٹیکس لگایا گیا ہے۔ سگریٹ، سیمنٹ ، سٹیل پر سیلز ٹیکس کو بڑھایا گیا ہے۔ بیرون ملک سے آنے والے ترسیلات اگر سالانہ ایک کروڑ روپے تک ہوں تو کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ تاہم ایک کروڑ سے زیادہ ترسیلات پر سورس پوچھا جائے گا اور اگر ادارہ مطمئن نہ ہوا تو ٹیکس لگے گا۔ بینکوں سے انفارمیشن اور نادرا کے ساتھ معلومات کی شیئرنگ ہو گی ۔ انھوں نے کہا کہ کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ کو بہتر بنانے کے لئے ایکسپورٹ پیکیج دیا گیا جس کے باعث برآمدات بڑھی ہیں، مارچ میں ان میں چوبیس فیصد گروتھ آئی تھی۔لگژی آئٹمز پر بھی ڈیوٹی لگائی گئی۔ ان کے نتائج اچھے آئیں گے اور کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہو گی، پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاور سیکٹر کے سرکلر ڈیٹ کے سلسلے میں یہ بات یاد رکھی جائے کہ پی پی کے دور میں بجلی کی سبسڈی کا حجم ڈھائی سو ارب ہوا کرتا تھا جبکہ ہمارے پانچ سالوں میں اسے کم کر کے 125 ارب روپے سالانہ پر لایا گیا۔ سرکلر ڈیٹ میں کچھ اثر سبسڈی میں کمی کی وجہ سے بھی آیا ہےجبکہ دوست ملک چین نے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم بنانے کے لئے ایک ارب ڈالر پاکستان کو دینے کا فیصلہ کیا ہے جس سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 18 ارب ڈالر سے بڑھ جائیں گے۔ اس سلسلے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ رقم چین کے ایک بینک کے ذریعے پاکستان کو بطور قرض فراہم کی جائے گی۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے گذشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں اس بات کا اعلان بھی کیا تا ہم انھوں نے یہ نہیں بتایا یہ رقم کہاں سے آ رہی ہے۔ پریس کانفرنس میں کئی بار نئے وزیر خزانہ نے ہلکی پھلکی گفتگو بھی کی۔ مفتاح اسماعیل جب آئے تو انھوں نے کہا آج میری پہلی پوسٹ بجٹ کانفرنس ہے آسان آسان سوال کئے جائیں، مشکل سوالات کے لئے میرے ساتھ ہارون اختر ہیں۔ انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا بجٹ کی حتمی تیاری کے لئے وزیراعظم کے ساتھ بارہ گھنٹے طویل مسلسل میٹنگ ہوئی جس میں بجٹ کے ہر پہلو اور ہر تجویز پر بحث ہوتی رہی۔ انھوں نے کہا مسلح افواج کے جنرل توقیر سے بھی مشاورت ہوئی اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بھی مشاورتیں اور ملاقاتیں ہوتی رہیں اور سب نے میری باتیں بھی مانیں۔ صرف ایک سکندر بوسن ہیں جنھوں نے میری کوئی بات نہیں مانی۔ میں نے ان کی ساری بات مان لی اور سیاسی لیڈر شپ نے بھی کہا تھا کہ ان کی ساری باتیں مان جانا۔ وزیر خزانہ جب پریس کانفرنس کے لئے آئے تو ایک انگریزی روزنامہ کے رپورٹر کو دیکھ کر کہنے لگے کہ مجھے آپ کے اخبار کی ہیڈ بہت پسند آئی ہے۔ اس اخبار کی ہیڈ لائن میں ”کینڈی“ کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ عام طور پر تاثر ہے کہ وزیر خزانہ کا کنفیکشنری کے بزنس سے تعلق رہا ہے۔ ان سے ایک اخبار نویس نے یہ سوال کر لیا کہ آئین کی جس شق کے تحت انھیں وزیر بنایا گیا ہے، اس میں الیکشن لڑنے کی بھی شرط موجود ہے تو آپ کس حلقے سے الیکشن لڑیں گے۔ تو اس پر وزیرخزانہ نے کہا کہ میں پہلے کراچی کے جس حلقے سے انتخابات لڑنا چاہ رہا تھا وہ تو حلقہ ٹوٹ گیا۔ اب وزیراعظم نے کہا ہے کہ میں این اے 243 اور این اے 244 سے الیکشن لڑوں۔ اس طرح انھوں نے آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کا عندیہ دے دیا۔ ان سے بار بار جب آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے خدشہ کا اظہار کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’دیکھیں گے کیا ہو گا، وحی نہ آپ کو آتی ہے نہ مجھے آتی ہے‘۔ پریس کانفرنس کے آخر میں حسب روایت بدنظمی دیکھنے میں آئی، آخر میں ایک خاتون رپورٹر جو بار بار سوال کرنا چاہ رہی تھیں مگر انھیں موقع نہیں مل رہا تھا، ان پر مفتاح اسماعیل کی نظر پڑی تو انھوں نے کہا کہ خاتون کو مائیک دیا جائے، جب مائیک ان تک پہنچا تو وزیر خزانہ نے کہا کہ ’ کوئی آسان سوال کیجئے گا بڑی مشکل سے مائیک آپ تک پہنچایا ہے‘۔ ایک اخبار نویس نے ایک سوال میں کوئی سوال دریافت کیے تو وزیر خزانہ نے اظہار تفنن کہا کہ ’سوال پر ٹیکس نہیں لگا سکتے‘۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق اس ماہ کے آخر تک پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں ایک ارب ڈالر کا اضافہ ہو گا۔ ذرائع سٹیٹ بنک کے مطابق ایک ارب ڈالر کا قرض پاکستان کے دوست ملک سے آئے گا۔ یہ قرض دوست ملک کے کمرشل بنک سے آئے گا۔ ایک ارب ڈالر آنے سے غیرملکی زرمبادلہ کے ذذخائر بڑھ کر 18.1ارب ڈالر ہو جائیں گے۔
سٹیٹ بنک/مفتاح اسماعیل
ٹنڈوجام(صباح نیوز) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آئندہ حکومت بجٹ میں تبدیلی کرسکتی ہے لیکن چیلنج کرتا ہوں بجٹ میں ایک لفظ تبدیل نہیں کرپائیں گے کیونکہ یہ عوام دوست اور پاکستان کے مسائل کے حل کا بجٹ ہے،بجٹ پیش کرنا حکومت کا کام ہے، عوام نے مینڈیٹ دیا ہے، حکومت آخری دن تک کام کرے۔ٹنڈو جام میں گیس پروسیسنگ فیسیلٹی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ چیلنج کرتا ہوں ہم سے گیس، بجلی اور سڑکوں پر مناظرہ کرلیں، بہت حکومتیں اور بڑے دعویدار موجود ہیں جوکہتے ہیں سندھ کی ترقی کے لیے بہت کام کیا۔انہوں نے کہا کہ جووعدے کیے انہیں پورا کیا جارہا ہے۔ سندھ میں ہائی وے بھی نوازشریف اور (ن)لیگ نے بنائی، اس کی چوتھی اور پانچویں لین بھی ہم بنائیں گے۔ مشرف دور اور پیپلزپارٹی کے دور کے کام دیکھ لیں اور پھر (ن)لیگ کے بھی کام دیکھ لیں۔ کئی گنا فرق نظر آئے گا، یہ کام عوام کو نظر آتے ہیں۔وزیراعظم کا کہنا تھا (ن)لیگ نے ثابت کیا کہ وہ ملک کی ترقی کے لیے کام کرتی ہے، جو مرضی باتیں کرلیں کسی پر کوئی الزام نہیں۔ جب حکومت آئی جو حالت بجلی گیس کی ملک میں تھی، انڈسٹری بند تھی۔ سی این جی سٹیشن بند ہورہے تھے۔ ملک ایک بحران کی کیفیت میں تھا، امن و امان کی حالت یہ تھی کہ سندھ کے دیہی علاقوں میں سفر کرنا مشکل تھا، کراچی میں لوگ گھروں سے نکلنے سے گھبراتے تھے، یہ 2013 کی کیفیت تھی۔ پچھلے ایک سال میں بہت سے لوگ باتیں کرتے رہے، حکومت ٹوٹ جائے گی اور چند دن کی مہمان ہے لیکن حکومت نے اپنی مدت پوری کی، منصوبے بھی پورے کیے، پاکستان کو ترقی بھی دی۔ ہم نے پانچ بجٹ پیش کیے، اسی کی بنیاد کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کی تاریخ کا عوام دوست بجٹ گزشتہ روز اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ایک بات کی تنقید ہوئی کہ حکومت کو یہ بجٹ پیش نہیں کرنا چاہیے۔ بجٹ پیش کرنا حکومت کا کام ہے۔ عوام نے مینڈیٹ دیا ہے۔ حکومت آخری دن تک کام کرے، یہ ملک سے انصاف نہیں کہ ہم بغیر کسی بجٹ کے حکومت کو چھوڑ دیں اور ملک 4 ماہ بند پڑا رہے۔ آئندہ حکومت بجٹ میں تبدیلی کرسکتی ہے لیکن چیلنج کرتا ہوں بجٹ میں ایک لفظ تبدیل نہیں کرپائیں گے۔ یہ عوام دوست اور پاکستان کے مسائل کے حل کا بجٹ ہے۔وزیراعظم نے کہا ٹیکس کی شرح آدھی کی گئی جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں۔ جو ٹیکس ریفامر پر تنقید کرتے ہیں وہ پہلے بتائیں پچھلے پانچ سال میں کتنا ٹیکس دیا، جو ٹیکس نہیں دیتے انہیں ڈر ہے وہ اب ٹیکس نیٹ میں آئیں گے اور انہیں ٹیکس دینا پڑے گا۔ حکومت ان لوگوں کا پیچھا کرے گی جو ٹیکس ادا نہیں کرتے، ان کی وجہ سے غریب پر ٹیکس کا بوجھ پڑتا ہے، وہ لوگ جو ٹیکس ادا نہیں کرتے وہ بجٹ کے مخالف ہیں۔ لیکن بجٹ پاس ہوگا اور اسی سے پاکستان کی معیشت مضبوط ہوگی۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھاہمیشہ سنتے آئے تھے تھر میں بہت کوئلہ ہے، ریکوڈک میں کاپر اور سونے کے ذخائر ہیں، کے پی اور آزاد کشمیر میں ہائیڈروپاور ہے، اگر یہ حکومت کام نہ کرتی تو تھر کا کوئلہ زمین میں ہی رہتا، سی پیک کے حوالے سے کول کی ڈیولپمنٹ ہورہی ہے اور پاور پلانٹ لگ رہے ہیں، جو کوئلہ جب سے دنیا بنی زمین میں پڑا رہا اسے آج نکالا گیا اب یہ ملک کے استعمال میں آئے گا۔ کوشش ہے ریکوڈک بھی پاکستان کے کام آئے، اس کے لیے بلوچستان حکومت کو کہا ہے وفاقی حکومت آپ کی مدد کرنا چاہتی ہے۔انہوں نے کہا خوشی ہے پاکستان کی تاریخ کی پہلی واٹر پالیسی پر اتفاق ہوا، اس پر کام شروع کردیا گیا ہے، جب سے پاکستان بنا 500 کلو میٹر موٹروے ہم نے بنائی جسے آج 1700 کلو میٹر کیا جارہا ہے۔ ہم نے گن کر 10 ہزار میگاواٹ بجلی لگائی۔ ہمارے کاموں کی ختم نہ ہونے والی لمبی فہرست ہے۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھاکہ جھوٹے وعدوں اور کسی کو گالی دینے سے کام نہیں بنتا، یہ نوازشریف اور (ن)لیگ ہے جس نے شرافت اور خدمت کی سیاست کی، آج عوام کو کام کرکے دکھایا، اب فیصلہ بھی عوام نے کرنا ہے۔
شاہد خاقان