چیف جسٹس از خود نوٹس کیوں نہ لیں
چیف جسٹس‘ مسٹر جسٹس ثاقب نثار عوامی شکایات کے ازالے کے لیے ان دنوں جو ازخود نوٹس لے رہے ہیں‘ اس سے حکمران طبقہ خاصا پریشان نظر آتا ہے۔ ان کو یہ شکایت ہے کہ چیف جسٹس ان کی عزت نہیں کرتے بلکہ ماتحت محکموں کی کارکردگی پر بے جاتنقید کرتے ہیں۔کچھ وزراءاور مسلم لیگی رہنماﺅں کو سپریم کورٹ میں بلا کر سرزنش بھی کی جاچکی ہے۔ جس سے اضطراب کا پایہ جانا فطری امر ہے۔ دوسری جانب از خود نوٹس لینے اور انتظامیہ کی سرزنش کو عوامی حلقوں میں تحسین کی نظر سے اس لیے دیکھاجارہا ہے کہ کوئی تو ہے جو نااہل ترین انتظامیہ اور مغرور حکمرانوں کی گرفت کر سکے۔چیف جسٹس نے مہنگی ادویات اور ڈاکٹروںکے مہنگے نسخوں پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی کہ دل‘ بلڈپریشر اور شوگر کے مریضوںکے لیے سستے نسخے تشخیص کرکے اخبار ات میں شائع کیے جائیں تاکہ لوگ استفادہ کرسکیں اس میں کیا قباحت ہے؟۔ جعلی پولیس مقابلوں پر چیف جسٹس نے از خود نوٹس لے کر بہت سارے لوگوں کو تسکین بخشی۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ سے انصاف حاصل کرنا آسان نہیں۔ چیف جسٹس نے میڈیکل کالجزکی حد سے تجاوز کرتی ہوئی فیسوںکولگام ڈالنے کی جو کوشش کی ہے ۔ عوامی سطح پر اسے بھی تحسین کی نگاہ سے دیکھاجارہا ہے۔ پاکستان میں تعلیم کوکاروبار بنالیاگیا ہے غریب اپنے بچے کو ڈاکٹر ‘ انجینئر بنانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس نے از خودنوٹس لے کر ہم جیسے بے شمار لوگوںکی داد رسی کی ہے جس کی داد بنتی ہے۔ منظور نظر لوگوں کو نوازنے کی جو پالیسی حکمرانوں نے اپنا رکھی ہے اس پر قدغن لگانے اور میرٹ پر پورا نہ اترنے والے افراد کی تعیناتی پر از خود نوٹس لے کر بھی چیف جسٹس نے راست اقدام اٹھایا ہے۔حکومت پیپلز پارٹی کی ہو یا مسلم لیگ ن کی۔ سب نے اپنی آستین میں ایسے سانپ پال رکھے ہیں ‘ جو کرتے کراتے کچھ بھی نہیںلیکن ان کی تنخواہیں لاکھوں میں ہوتی ہیں ۔یہی لوگ قومی اداروں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے اگر اس حوالے سے از خود نوٹس لیا ہے تو ان کی تعریف کی جانی چاہیئے۔ حکمرانوں کا ہاتھ سوائے چیف جسٹس کے روکنے والا اور کوئی نہیں۔ ہمارے بچے اور خود ہم بھی زہر ملا کھلا اور ڈبوں میں بند دودھ پیتے چلے آرہے ہیں ۔ملٹی نیشنل کمپنیاں کیا ہمیں پلا رہی ہیں کسی میں اتنی جرات نہیں کہ ان سے پوچھ سکے۔ یہ جرا¿ت اگر چیف جسٹس نے کر ہی لی ہے تو ان کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیئے۔ دودھ کے نام پر عوام الناس کو سفید کیمیکل پلایا جارہا ہے ٹینکر بھر کے لاہور میںدھڑا دھڑ سپلائی کیے جارہے ہیں۔ جو بھینسوں کا دودھ ہمیں پینے کو ملتا ہے اس میں بھی نہ جانے کیا کیاملایا جاتاہے۔ ہارمون کے ٹیکے لگا کر جو دودھ حاصل کیاجاتا ہے اسے پینے سے انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ انتظامیہ کے سامنے ہورہا ہے حکومتی ادارے کچھ کرنے سے یکسر قاصر ہیں ۔کیااس جرم کے خلاف از خودنوٹس لے کر ذمہ دار کا تعین کرنے کا سہرا چیف جسٹس کے سر نہیں بندھتا۔ وہ لوگ جنہیں ایسے مکروہ دھندوں سے آمدنی ہوتی ہے وہی چیف جسٹس کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ پی آئی اے کا شمار 20 سال پہلے دنیا کی بہترین ائیر لائنز میں ہوتا تھا لیکن یہ قومی ادارہ آج اس قدر خسارے میں جارہا ہے کہ خود اپنا بوجھ بھی نہیں اٹھا سکتا۔ اسی ادارے کے ایک مینجنگ ڈائریکٹر 45لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لیتے رہے ہیں۔ اگر چیف جسٹس نے پی آئی اے کی تباہی اور کوڑیوںکے بھاﺅ طیاروں کی فروخت پر از خود نوٹس لیا ہے تو یہ طمانیت کی بات ہونی چاہیئے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ پی آئی اے کی تباہی کے عوامل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ شاید یہ ادارہ اپنے پاﺅں پر کھڑا بھی ہوجائے۔ فضائی آلودگی جس نے پورے پنجاب پر دھویں کی چادر سی کئی ہفتوں تک تانے رکھی اور ہزاروں لوگ سانس کی بیماریوں کا شکار ہوکر ہسپتالوںمیں پہنچ گئے۔ اگر محکمہ ماحولیا ت کی نااہلی پر از خودنوٹس لیاگیاہے تو یہ ایک اچھا عمل ہے۔ سچ بات تو ہے کہ اگر ادارے فعال اورسرکاری افسران باصلاحیت ہوں تو عدالتوں کو از خودنوٹس لینے کی کیا ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں جمع ہونے والاکرپشن کاپیسہ واپس لانے‘ سیاسی بنیادوںپر قرضوںکی معافی کی لسٹیں بھی منگوالی ہیں۔ اگر ان کرپٹ اور خائن لوگوں سے کچھ رقم نکلوائی جاسکی تو یہ بھی پاکستانی قوم پر احسان عظیم ہوگا وگرنہ مشرف جیسے طاقتور لوگ بھی کچھ نہیں کرسکے۔ اکتوبر 2005ءمیں جو قیامت خیز زلزلہ آیا تھا اس وقت ملکی اور غیر ملکی امداد اربوں ڈالر ملی تھی۔ نوازشریف ‘ عمران خان ‘ زرداری اور شاہد خاقان عباسی میں سے کسی کو بھی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ زلزلہ زدگان کی حالت زار کا مشاہدہ کرکے اصلاح احوال کی کوششیں کریں۔ اب اگر چیف جسٹس بذات خود مانسہرہ اور بالاکوٹ جا پہنچے ہیں تو ان کی کاوشوں کو سراہا جانا چاہیئے۔ جمع ہونے والے فنڈز نہ جانے کہاں استعمال ہوئے۔ متاثرین آج بھی متاثر چلے آرہے ہیں سکول اور ہسپتال اب تک نا مکمل ہیں۔جس طرح چیف جسٹس عوام الناس کی شکایات کاازالہ کرنے کے لیے طوفانی دورے کر رہے ہیں ‘ کاش حکمرانوں کو بھی عوام کی داد رسی کے لیے ایسا کرنا نصیب ہوتا۔ !!