تحریک انصاف میں بھٹو از م کا تڑکا
ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے ایک پارٹی چھوڑ کر نئی سیاسی پارٹی میں شمولیت کا۔ یہ ان لوگوں کے لئے مشکل تر ہے جنہیں اپنی اور اپنی خاندانی آبرو اور وضع داری کا بھی پاس ہو۔ بہت دنوں سے ندیم افضل چن کی تحریک انصاف میں آنے کی خبریں گرم تھیں۔ ’آمد یار کی نوید کوئے وفا میں عام تھی‘۔ پھر ندیم افضل چن تحریک انصاف میں آئے اور کیا دھوم اور شان سے آئے۔ تحریک انصاف میں شمولیت کی گھڑی اس سکہ بند جیالے نے صرف پیپلز پارٹی چھوڑی تھی۔ بھٹو کو نہیں چھوڑا۔ انہوں نے اس موقع پر بھٹو کا مرثیہ پڑھا۔ پیپلزپارٹی کا نوحہ سنایا۔ کہیں شائستگی اور وضع داری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا۔ انہوں نے کہا : ”اگر نظرےے کا نام بھٹو ازم ہے تو میں آج بھی بھٹو ہوں۔ لیکن اگر نظرےے کا نام شرجیل میمن ہے تو میں باغی ہوں۔ میں نے ضیاءالحق کی روحانی اولاد کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کیلئے عمران خان کو جائن کیا ہے اور نواز شریف کےخلاف جہاد کا علم عمران خان کے ساتھ مل کر اٹھایا ہے“۔ پاکستان میں بھٹو اور ضیاءالحق دو الگ الگ مکتب فکر ہیں۔ اک جاگیرداری کے خلاف ہے، دوسرا جاگیرداری کا حامی۔ بھٹو اس ملک کے محروم طبقہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جبکہ میاں نوازشریف کی مسلم لیگ (ن) مراعات یافتہ طبقوں کی جماعت سمجھی جاتی ہے۔ ندیم افضل چن نے میاں نوازشریف کا ضیاءالحق کی روحانی اولاد کے طور پر ذکر کر کے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے بہت گہری بات کی ہے۔ بھٹو نے اپنی موت پر ہمالیہ کے آنسو بہانے کی پیشین گوئی کی تھی۔ پاکستان کے غریب بھٹو کی پھانسی پر بہت روئے۔ یہی ہمالیہ پہاڑ کا رونا دھونا تھا۔ بھٹو کو پھانسی چڑھانے والے ضیاءالحق کو ’چادر اور چار دیواری‘ کی بہت فکر تھی۔ جہلم سے نصیر کوی نے اس کا جواب دیا:۔
پُکھ وچ پردہ داری کاہدی
چادر چار دیواری کاہدی
میرے گھر دیاں کنداں وی نئیں
بوہا کاہدا باری کاہدی
”ہر گھر سے بھٹو نکلے گا“ تم کتنے بھٹو مارو گے‘ کہنے والے یہی نصیر کوی تھے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر آج وہ زندہ ہوتے اور ندیم افضل چن کے مکو پنڈ کے جلسہ میں شریک ہوتے تو وہ بھٹو اور بھٹو ازم کے ذکر پر کتنے خوش ہوتے ۔آج قمر الزماں کائرہ بولے ہیں۔ ”مجھے تحریک انصاف میں شمولیت کی گالی مت دو“۔کوئی ان”بے خبر“ کو بتائے کہ آج کا بھٹو عمران خان ہے۔ یہ بات ”باخبر“ ندیم افضل چن خوب جانتے ہیں۔ وہ اسی لئے تحریک انصاف میں چلے آئے ہیں۔ کل تک بھٹو تبدیلی کا نشان تھے۔ آج عمران خان تبدیلی کا نام ہیں۔ 1970ءکے الیکشن میں لوگ بھٹو کے عشق میں ذات برادری حتیٰ کہ پیر خانہ تک بھلا بیٹھے۔ پھر ضیاءالحق نے 1985ءمیں غیر جماعتی انتخاب کے ذریعے برادری کا جن پھر سے بوتل سے نکالا۔ اب اس جن کا سر دست بوتل میں واپسی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اب برادری کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ہمارے ہاں برادری ازم کی جڑیں بہت گہری اور پرانی ہیں۔ لاہور میں کشمیری اور ارائیں دو بڑی برادریاں ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے اچھرہ میں علامہ اقبال ؒ سے بھی یہی سوال پوچھا گیا تھا۔ آپ ارائیں ہیں یا کشمیری؟ علامہ اقبالؒ پنجاب اسمبلی کی ایک سیٹ پر امیدوار تھے اور اسی سلسلہ میں اپنی انتخابی مہم پر نکلے ہوئے تھے۔ پھربرادری کی طاقت اور اہمیت کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیں۔ ان دنوں چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ گجرات سیشن ہاﺅس میں رات گئے تک ایک میٹنگ جاری رہی۔ اس میٹنگ کے شرکاءمیں گجرات کے سیشن جج، پولیس کے ضلعی سربراہ اور ڈپٹی کمشنر شامل تھے۔ اگلی صبح لالہ موسیٰ کے تحصیل ناظم کی سیٹ کا ضمنی الیکشن ہو رہا تھا۔ تینوں افسران الیکشن میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کا سارا بندوبست کر کے یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اب دیکھئے کہیں کل گجر برادری کی عصبیت نہ جاگ اٹھے ورنہ ہم نے کائروں کی شکست کا پورا انتظام کر لیا ہے۔ اگلے روز یوں ہوا کہ حسب معمول گجروں کا برادری ازم جاگ اٹھا۔ اسطرح لالہ موسیٰ کے کائرے جیت گئے۔ پاکستان میں اسی ”انتخابی موسم“ کے باعث تحریک انصاف میں موجود بہت سے لوگ ان الیکٹیبلز کی شرکت کے حامی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیںکہ پنجاب میں میاں نواز شریف کا زور توڑنے کیلئے اور اقتدار میں آنے کیلئے انہیں پارٹی میں شامل کرنا بہت ضروری ہے۔ جبکہ میاں نواز شریف کی بہت ساری طاقت ایسے امیدوار ہی ہیں۔ پھر اقتدار میں آئے بغیر پاکستان میں کسی قسم کی تبدیلی ناممکنات میں سے ہے۔ اسی لئے ندیم افضل چن کا تحریک انصاف میں بیتابی سے انتظار ہو رہا تھا۔ چن جی کی اہمیت اور فعالیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی بھی ان کی شمولیت پر بولے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان ہمارے مزدوروں سے ہی نئے پاکستان کی تعمیر کر رہے ہیں۔ بدھ کے روز عمران خان ندیم افضل چن کے گاﺅں ان کی شمولیت کی تقریب میں پہنچے۔ عمران خان نے ان کی شمولیت علاقہ اور پاکستان کیلئے مفید قرار دی۔ ویسے بھی بڑے چن جی، حاجی افضل چن ساندل بار کے موثر ترین چوہدری ہیں۔ بھٹو کے اس سکہ بند جیالے نے اپنی تقریرکا آغاز ہی بھٹو ازم سے کیا۔ یہ ایک سچے پاکستانی کا تبدیلی سے محبت کا سچا اظہار تھا۔ کل کلاں جب تحریک انصاف کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں مکو پنڈ کی اس تقریب کا ذکر بھی ضرور آئے گا۔ ندیم افضل چن کی تقریر نے جلسہ کا رنگ ہی بدل دیا۔ عمران خان کو کہنا پڑا۔ بھٹو ازم کا مطلب روٹی، کپڑا اور مکان ہے، ہم بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ انہوں نے ان تین چیزوں میں صاف پانی، تعلیم اور صحت کو بھی شامل کیا۔ آج تک انسانی ذہن جمہوریت سے بہتر نظام حکومت تخلیق نہیں کر پایا۔ جمہوریت کی حفاظت صرف عدلیہ نہیں کر سکتی۔ مارشل لاءکو روکنا کسی بھی ایک اکیلے ادارے کے بس کی بات نہیں۔ پھر ہماری جمہوریت ابھی گہوارے میں پڑی ہلکورے لے رہی ہے۔ ہماری جمہوریت با اختیار کتنی ہے؟ ”نوائے وقت“ کے کالم نگار خالد محمود کی مزیدار وضاحت پڑھےے۔ ’ تھانیدار چاہے وردی میں ہو یا دھوتی کرتے میں اپنے کمرے میں لیٹا ہوا، تھانیدار ہی ہوتا ہے‘۔ ہمیں ترکی کے حالیہ واقعات کا پوری توجہ سے تجزیہ کرناچاہئے۔ ایک بات بڑی اہم ہے کہ ترکی میں ٹینکوں کے آگے لیٹ کر مارشل لاءکا راستہ روکنے والے استنبول کے پوش علاقوں سے آئے لوگ نہیں تھے۔ یہ وہی دیہاتوں سے آئے ہوئے مزدور پیشہ ،بے گھر لوگ تھے، جنہیں رجب طیب اردوان نے بطور میئر استنبول شہر میں گھر مہیا کئے تھے۔ گاﺅں، محلے کی حفاظت کیلئے سب سے موثر پہرہ ٹھیکری پہرہ ہوتا ہے۔ اس پہرے میں سارے گاﺅں کے نوجوان باری بار ی ڈیوٹی دیتے ہیں۔ اپنے گھر کی حفاظت کا جذبہ سب سے قوی انسانی جذبہ ہے۔ آپ اسے شعیب بن عزیز کی خود غرضی اورلالچ ہرگز نہ سمجھئے۔
مانگتا ہوں اسلئے بھی خیر بستی کی شعیب
ان گھروں کے درمیاں اب ایک گھر میرا بھی ہے