• news
  • image

”ہیں تلخ بہت بندہ¿ مزدور کے اوقات“

مزدوروں کے عالمی دن یکم مئی کے موقع پرہر سال سرکاری اور پرائیویٹ سطح پر ملک بھر میںتعطیل ہوتی ہے اور تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے، ان تقریبات، سیمینارز اور جلسے جلوسوں میں مزدوروں کے حقوق کیلئے آواز بلند کی جاتی ہے اور اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ مزوروں کو درپیش مشکلات کو کم کرنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی راہ میں جو بھی رکاوٹیں ہیں انہیں دور کیا جائے گا، اسی طرح کے نعروں، وعدوں اور دعوﺅں میں آٹھ گھنٹے کا ون گزر جاتا ہے اور جونہی سورج غروب ہوتا ہے، رات کی سیاہی چھاتی ہے تو مزدور کا مقدر پھر انہی تاریکیوں میں گم ہو جاتا ہے۔ محض یکم مئی کو یوم مزدوراں منا لینے سے مزدوروں کے مسائل حل نہیں ہوتے، مزدوروں کو ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور تعلیم صحت چھت اور روزگار کی ضمانت اور تحفظ کی ضرورت ہے۔ لیبر قوانین بھی صرف رجسٹرڈ مزدوروں کی تعداد کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں حالانکہ کھیتوں میں دن بھر محنت کرنے والے، اینٹوں کے بھٹوں پرخون پسینہ ایک کرنے والے، ہوٹلوں اور ورکشاپوں میں کام کرنے والے کروڑوں مزدور ایسے ہیں جن کو کبھی کسی ادارے نے رجسٹرڈ نہیں کیا۔ یہاں مزدورمحنت کش اور کسان کی محنت کا پھل سرمایہ دار اور جاگیردار کھاتے ہیں، المیہ یہ ہے کہ مزوروں اور کسانوں کے حقوق غصب کرنے والا ٹولہ ہی ان کی وکالت کی ڈرامہ بازی کرکے انہیں بار بار دھوکہ دیتا ہے۔ ہمارا اصل ہدف یہ ہے کہ محنت کشوں کی محنت کا پھل جس پر ان کے بچوں اور گھر والوں کا حق ہے کسی جاگیردار اور وڈیر ے کو نہ کھانے دیا جائے۔ جماعت اسلامی اقتدار میں آکر مزدوروں کو کارخانوں اور کسانوں کو زمینوں کی پیداوار میں حصہ دار بنائے گی۔
اس وقت ملک میں بجلی اور گیس کا سنگین بحران ہے جس کی وجہ سے کارخانے اور صنعتی یونٹ شدید دباﺅ کا شکار ہیں، کارخانوں اور فیکٹریوں کو تالے لگ رہے ہیں، ہزاروں مزدور بے روزگار ہورہے ہیں جس کے اثرات ان سے وابستہ خاندانوں اور زیر کفالت لاکھوں افراد پر پڑ رہے ہیں ،ہزاروں نوجوان حالات سے تنگ آکر ملک سے باہر بھاگ رہے ہیں اور قانونی و غیر قانونی طریقوں سے ملک چھوڑ رہے ہیں ،جس کا اکثر بڑا بھیانک انجام ہوتا ہے ،کچھ لوگ دوسرے ممالک کی سرحد پر پکڑے جاتے ہیں اور پھر ساری عمر بیرونی جیلوں میں گزاردیتے ہیں، کچھ سمندر میں ڈوب جاتے ہیں اور کچھ بارڈر فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ توانائی کے اس بحران سے نکلنے کیلئے حکومت سنجیدہ اقدامات نہیں کر رہی، حکومت کی ساری توجہ میٹرو،اورنج لائن ٹرین، سڑکیں اور پل بنانے پر مرکوز ہے حالانکہ ان کے بغیر بھی کام چل رہا تھا، یہ منصوبے عیاشی کے زمرے میں آتے ہیں، عوام کی بنیادی ضروریات تعلیم، صحت، روزگار، چھت اور امن عامہ کا قیام اور جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان تمام شعبوں میں حکومت بری طرح ناکام نظر آتی ہے اور ہر شعبہ زبوں حالی کی تصویر بن چکا ہے۔ بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ تعلیم سرکاری شعبے سے نکل کر پرائیویٹ سیکٹر میں چلی گئی ہے اور یہ اتنی مہنگی ہے کہ ایک متوسط طبقہ کیلئے اس کا حصول ناممکن ہوتا جارہا ہے۔پرائیویٹ سکولوں کی بھاری فیسوں اور مہنگی کتابوں اور کاپیوں کی وجہ سے ہر فرد پریشان ہے۔ایک مزدوراور دیہاڑی دارشخص تو ان سکولوں میں بچوں کو پڑھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔صحت کے شعبہ کی حالت اس سے بھی زیادہ پریشان کن ہے اور سرکاری ہسپتالوںمیں علاج معالجے سہولتیں ہیں اور نہ آبادی کے حساب سے سرکاری ہسپتال موجود ہیں۔ ہسپتالوں میں مریضوں کیلئے بستر ہیں نہ ادویات دستیاب ہیں۔بڑے سرکاری ہسپتالوں میں ایک ایک بستر پر دو دو تین تین مریض پڑے ہوتے ہیں۔
اب میں گوادر کے ہزاروں ماہی گیروں کو درپیش مشکلات کی طرف آتا ہوں۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ماہی گیر ی کے شعبے سے 395000 افراد منسلک ہیں۔ اتنا اہم شعبہ حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے زبوں حالی کا شکارہے۔ بظاہر وفاقی اور صوبائی سطح پر محکمہ فشریز کا ادارہ قائم ہے لیکن یہ محکمہ ماہی گیروں اور ماہی گیری کے تحفظ کے بجائے ماہی گیروں کیلئے مستقل درد سر بن چکا ہے اور ماہی گیر محکمہ فشریز کے اقدامات سے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ سمندری طوفانوں میں سمندر کے اند رجاںبحق ہونے والے ماہی گیروں کے بچوں کو مالی امداد فراہم کی جائے اور ان کے بچوں کی سرپرستی کی جائے۔ کشتی سازی کو صنعت کا درجہ دیا جائے۔ ماہی گیروں کے بچوں کو مختلف محکموں کی آسامیوں کیلئے روزگار دینے کیلئے ایک کوٹہ مقرر کیا جائے۔ ماہی گیر ی شعبے کو ادارہ جاتی قرضے میسر نہیں اس سلسلے میں ماہی گیروں کیلئے علیحدہ فشریز ڈویلپمنٹ بنک قائم کئے جائیں جن کے ذریعے سے ماہی گیروں کو بلا سو د قرضے فراہم کئے جائیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن