مریم اورنگزیب: ایک ماہ کی وزارت
”نواز شریف دلوں کا وزیر اعظم ہے عدالتی حکم بے پناہ عوامی محبتوں پر قدغن نہیں لگا سکتے “ یہ تھیں وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب جو نااہل قرار پانے والے نوازشریف کو تاحیات ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کے حوالے سے سپریم± کورٹ کے فیصلے کے بعد سرو قد ہوکر اخبارنویسوں سے گفتگو کررہی تھی۔مریم بی بی کو مبارک ہو کہ انہیں جاتے جاتے ایک ماہ کے لئے مکمل وفاقی وزیر بنادیا گیا۔وزارت اطلاعات کے بابوو¿ں سے ازحد تنگ مریم اورنگ زیب نے دستیاب اختیارات میں بھی مشکل ترین حالات و واقعات کا بڑی دلیری اور “جوان مردی” مقابلہ کیا جناب نوازشریف سے وفا شعاری کی نئی داستان رقم کی ہے۔ جب بڑے بڑے شیردل مختلف وجوہ کی بناپر ادھر ادھر چھپ رہے تھے۔ مریم اورنگ زیب ابلاغی محاذ پر پوری قوت کے ساتھ ڈٹی رہیں اور دیوانہ وار نعرہ مستانہ لگایا تھا۔
وفا شعاری کی یہ داستان نصف صدی پرمحیط ہے جس کا آغازپاکستان کی پہلی آئین سازاسمبلی کے رکن راجہ کالے خان سے ہوتا، راجہ کالے خان نے متحدہ پنجاب میں فیروز خان نون کے بعد سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے۔بھوربن سے تعلق رکھنے والے راجہ کالے خان کے نام پر راولپنڈی کی ڈھوک کالے خان آج بھی ان کی یاد دلاتی ہے۔ راجہ کالے خان جنرل ایوب خاں کے مارشل لا کی نذرہوگئے اور انہوں نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کے ذہن رساتخلیق''بنیادی جمہوریت'' کے نظام کا حصہ بننے کی بجائے سیاست کو خیرباد کہہ دیا اوران کی جگہ راجہ اشفاق سرور کے والد راجہ غلام سرور نے لے لی۔ راجہ صاحب کے بعد سیاست اس گھر سے رخصت نہیں ہوئی۔ راجہ صاحب کی بہو طاہرہ اورنگ زیب، اپنی دوسری بہن، نجمہ حمید کے ساتھ ڈٹ کرمیدان سیاست میں آئیں اورمسلم لیگ کا دامن سختی سے پکڑے رکھا ۔نجمہ آپا تو پنجاب میں وزیر بھی رہیں، مسلم لیگ کے رنگ موسموں کے ساتھ بدلتے رہے لیکن اس خاندان کا مسلم لیگ کے ساتھ تعلق نہ بدل سکا اور یہاں سے کہانی تیسری نسل کو منتقل ہوتی ہے۔
مریم اورنگزیب کو کئی منفرد اعزاز حاصل ہیں۔ چوٹی کی ملکی اورعالمی درس گاہوں سے تعلیم یافتہ مریم بی بی ڈویلپمنٹ سیکٹر سے میدان سیاست میں آئی ہیں۔ ان کا شمار ماحولیات کے چوٹی کے ماہرین میں ہوتا ہے ۔وزیرمملکت برائےاطلاعات بننے اورمخصوص نشستوں پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے سے پہلے وہWWFمیں ڈائریکٹر کیمونیکشن وسٹیریٹجک پلاننگ تھیں۔ کہتے ہیں کہ ان کی تنخواہ صرف ساڑھے 4لاکھ روپے ماہانہ تھی جس پر کوئی ٹیکس بھی کاٹانہیں جاتا تھا ۔اس لئے مالی اعتبار سے سیاست میں آمد اوروزارت ان کے لئے نفع نہیں گھاٹے کا سودا تھا۔ ویسے بھی مشرف کے دورجبرمیں نجمہ حمیداورطاہرہ اورنگ زیب کے گھرہی بیگم کلثوم نواز کے لئے جائے پناہ تھے اورشاید یہیں سے وہ گرفتاربھی ہوئی تھیں۔ مریم اورنگ زیب کے لئے یہ سیاست نہیں گہرے ذاتی تعلق کا معاملہ ہے مشرقی اقداراور روایات میں ذاتی تعلق دنیا کی ہرچیزپرسبقت رکھتا ہے۔ مہا گورو انور عزیز چودھری کہا کرتے ہیں کہ وفاداری کا وصف تمام خامیوں کو ڈھانپ دیتا ہے جبکہ یہاں معاملہ خوبیوں سے تھا۔ قائد اعظم یونیورسٹی سے کنگز کالج لندن تک امتیاز کے ساتھ فراغت کا اعزاز کچھ کم نہ تھا جس کا بھر پور اظہار انہوں نے اپنے مختصر دور وزارت میں کرکے دکھایا۔ رسوائے زمانہ ڈان لیکس پر وفا شعارپرویزرشید کے بلیدان کے بعد وزارت اطلاعات کا قرعہ فال مریم اورنگ زیب کے نام نکلا۔ انہیں نامعلوم وجوہ کی بنیاد پرمکمل وزیر بنانے کی بجائے آدھا وزیر بنایا گیا انہیں تاریخ میں کم عمر ترین وزیر بننے کا شرف حاصل ہوا، ہمیشہ نظریں جھکائے سرپردوپٹا اوڑھے، سیدھی راہ پر چلنے والی اس چھوئی موئی سی لڑکی کو سب نے ‘خانہ پری’ قرار دیا کہ پرویزرشید کے بعد معاملات کو سات پردوں کے پیچھے ملفوف میڈیا سیل چلائے گا اورشوپیس کے طورپرمریم اورنگ زیب کولا بٹھایا گیا کہ ان کو بیگم صاحبہ کلثوم نوازاوراپنی ہم نام مریم نواز سے خاص تعلق خاطر ہے لیکن حالات وواقعات نے ان تمام تجزیوں اور تخمینوں کو یکسر غلط ثابت کردیا تاریخ میں پہلی بار بظاہر ناتجربہ کار دکھائی دینے والی اس لڑکی’ مریم اورنگ زیب نے گذشتہ 70 برس سرد خزانے میں پڑا عوام کے حق معلومات Information Right to کابل تیارکروا کے پاس کروایا، جس پر ان کے پیش رو حضرات نے توجہ دینے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی تھی۔جن میں کیسی کیسی دیو قامت شخصیات ، شیخ رشید،محمدعلی درانی،طارق عظیم،جاویدجبارا ورسب سے بڑھ کرمشاہد حسین سید بھی شامل تھے جو 90 کی دہائی کے آغاز پر وزارت اطلاعات ختم کرنے کے نعرے لگاتے ہوئے وزیربنے تھے۔پیمرا کی طرز پر پرنٹ میڈیا کو قابو کرنے کےلئے ناصر جمال نامی ایک اہلکار نے ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کا مسودہ تیار کرلیا تو آزادی¿ صحافت کےلئے سب سے پہلے مریم اورنگ زیب میدان میں نکلیں اور اس سازش کا قلع قمع کردیا کہ اذیت پسند ہاتھ ملتے اور پاو¿ں میں گرتا رہ گیا۔ڈمی اخبارات جو صرف اشتہارات لینے کے لئے شائع کیے جاتے ہیں جو سرکاری یہ خون آشام جونکوں کی طرح وزارت اطلاعات سے چمٹے ہوئے ہیں ان سے جان چھڑانا کاردارد ہے۔ مریم اورنگ زیب نے اپنی وزارت کے آخری ہفتوں میں یہ کارنامہ انجام دیا ہے کہ تمام جاری کردہ اشتہارات روزانہ کی بنیاد پر ویب سائٹ پر ڈالیں جائیں گے تاکہ سب کو پتا چلے کہ فروغ مقامی صحافت کے نام پر کون کون مسلمہ دیانت دار کتنامال کما رہا ہے۔ شفافیت کی جانب بڑھتے ہوئے یہ قدم ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔اسی دور میں پہلی قومی فلم پالیسی تیار کی گئی ہے جن میں مشرقی اقدار کی روشنی میں قومی ترجیحات اوراہداف کا تعین کیاگیا اس سے قبل فلم سازی کا شعبہ شتربے مہارکی طرح بے قابو تھا صرف سنسر بورڈ آخری مرحلے میں قینچی لے کرآجاتا تھا جہاں پر مک مکا ہوتے تھے۔ اب یہ نظام منظم اور مسبوط طریقے سے چلے گا جس کو قومی امنگوں اورضروریات سے ہم آہنگ کیا گیا ہے۔پی ٹٰی وی(PTV) جیسے قومی ادارے کوہرحکمران نے اپنے چہیتے نوازنے کے لئے (Dumping Ground) بنائے رکھا جہاں لوٹ مار کے نت نئے ریکارڈ قائم کئے جاتے رہے ہیں مریم بی بی پی ٹی وی کی نج کاری تو نہیں کرسکتی تھیں لیکن انہوں نے یہ کمال کردکھایاہے کہ بورڈ کے 4ارکان نجی شعبے سے نامور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے حامل افراد کولینے کے لئے قانون سازی کرادی ہے اب کم از کم 4 ارکان فلم سازی، ڈرامہ اورعلم وادب کی نمایاں شخصیات کو شامل کیاجائے گا۔
چین سے ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند اور شہد سے میٹھی ہے لیکن عمل کی دنیا ان سب نعروں اور دعوو¿ں کی نفی کرتی ہے چین کے سالانہ فلم فسٹیول میں ایک آدھ پاکستانی فلم ہی پہنچ پاتی تھی یہ مریم اورنگ زیب ہیں جنہوں نے سالانہ 4 فلموں بھجوانے اور ان کو دکھانے کا معاہدہ کروایا ہے دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے زمانوں میں مریم اورنگزیب کے چھوڑے روشن نقوش پرسفرجاری رہے گایاپھر یہ تمام اقدامات ماضی کی طرح حرف غلط بن کر رہ جائیں گے ویسے مریم اورنگ زیب نے بھی کیامقدر پایا ہے کہ صرف ایک ماہ کے لئے انہیں وفاقی وزیربنایا گیا ہے ایسے وقت میں جب چل چلاو شروع ہو چکا ہے اور بیوروکریسی اب ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑارہی ہے۔