• news
  • image

منگل ‘ 14 شعبان المعظم‘ 1439 ھ ‘ یکم مئی 2018ء

پاکستان چھوڑا تو میرے پاس کوئی اثاثہ نہیں تھا۔ پرویز مشرف
سابق مرد آہن کی یہ دُکھ بھری داستان سُن کر تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ موصوف کو جب ملک سے باہر علاج کے لئے جانا پڑا تو وہ سکندر کی طرح خالی ہاتھ تھے۔ سکندر کے کفن میں تو جیبیں نہیں تھیں مگر افسوس کہ مشرف صاحب کے لباس میں تو جیبیں تھیں مگر افسوس وہ بھی خالی تھیں۔ ایسے حالات میں بے چارے پرویز مشرف کو لندن جانے کا ٹکٹ کس نے دیا ہو گا۔ ان کے سفر کے باقی اخراجات اور لندن میں قیام و طعام اور ہسپتال کے اخراجات کہاں سے آئے ہوں گے۔ یہ سوچ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ لندن میں اتنا طویل قیام علاج وغیرہ کا خرچہ عام بات نہیں۔ یہ تو غریب بے چارے مشرف صاحب کا ہی دل جانتا ہے کہ بیگم کے ساتھ کس طرح وہاں گزارہ کر رہے ہیں۔ یہ تو شکر ہے کہ موصوف کو سُر سنگیت سے کچھ لگاﺅ ہے شاید نجی محفلوں میں پرفارم کر کے انہیں کچھ نہ کچھ ملتا ہو گا جس سے وہ زندگی کی گاڑی کھینچ رہے ہیں یا پھر کچھ دوست احباب نے ہاتھ پکڑا ہو گا ورنہ ”زیست مشکل ہے اسے اور بھی مشکل نہ بنا“ والی حالت ہو سکتی تھی۔ لندن میں رہنے والے پاکستانی سابق صدر کی لندن میں پرتعیش زندگی دیکھ رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بِنا اثاثے کے لندن آنے والے اس عدالتی مفرور نے کتنے اثاثے یہاں بھی بنا رکھے تھے۔ یہ سرمستیاں، ڈانس ، ٹھمکے خالی پیٹ نہیں لگتے۔ لندن میں رہنے، ناچنے گانے، علاج معالجے کے لئے بڑی بھاری جیب کی ضرورت ہوتی ہے جو لگتا ہے پرویز مشرف کی استعداد سے باہر ہے۔ بڑے سچ کہتے ہیں ناں زندہ ہاتھی لاکھ کا مرا سوا لاکھ کا....
٭........٭........٭
اسلام آباد میں ایک اور امریکی سفارتکار کی گاڑی نے 2 پاکستانیوں کو کچل کر زخمی کر دیا
امریکی سفارتکاروں نے تو لگتا ہے پورے اسلام آباد کو ہی اپنا سفارتخانہ سمجھ لیا ہے۔ جہاں جی چاہتا ہے گاڑیاں بھگاتے پھرتے ہیں۔ اتنی کُھلی چھوٹ تو خود امریکہ میں امریکی شہریوں کو نہیں ہے جتنی پاکستان میں امریکی سفارتکاروں کو ہے۔ ہمارے پیارے راج دلارے امریکہ میں تو یہ حال ہے کہ چند روز قبل ایک حکمنامہ کے ذریعے پاکستانی سفارتکاروں کو انکی حدود و قیود سمجھا دی گئی ہیں کہ وہ 20 کلومیٹر سے آگے نہیں جا سکتے اجازت لینا ہو گی۔ تو پھر یہ ہمارے امریکی سفارتکار اسلام آباد میں ہر جگہ حدود و قیود سے آزاد ہو کر کیوں لڈی ڈالتے پھرتے ہیں۔ اب انہیں بھی اپنے دائرے میں رہنے کا حکم جاری کرنا پڑے گا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر آئے روز کبھی ہوش میں کبھی مدہوشی میں یہ امریکی سفارت خانہ کے ملازم اسلام آباد کی سڑکوں پر ریس لگاتے اشارے توڑتے نجانے کتنے اور موٹر سائیکل سواروں کو زخمی کرتے یا اگلے جہاں رخصت کرتے پھریں گے۔ امریکیوں کے تو مزاج ہی لگتا ہے باغیانہ ہیں۔ ان کے ملازم سڑکوں پر ملکی قوانین کی اور جنگی طیارے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جہاں چاہتے ہیں انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ امید ہے حادثے کے زخمیوں کو انصاف اور ملزم کو سزا ضرور ملے گی گرچہ یہ ایک دیوانے کا خواب ہی لگتا ہے....
٭........٭........٭
عمران خان نے لاہور جلسے سے قبل کالے بکروں کا صدقہ بیگم صاحبہ کے حکم پر دیا
دور جدید میں جدید اور نیا دو نہیں ایک پاکستان بنانے کا دعویٰ کرنے والے ان عصر جدید کے پڑھے لکھے لیڈروں سے کوئی تو پوچھے کہ جناب کیا یہ جو جلسے میں شرکت کے لئے ہزاروں لاکھوں لوگ نعرے لگاتے گاڑیوں میں بھیڑ بکریوں کی ٹھونسے ہوئے آتے ہیں کیا یہ بھی گھروں سے کالے بکروں کا یا کالی مرغی کا صدقہ دے کرنکلتے ہیں۔ اگر جان کا اتنا ہی خوف ہے تو پھر یہ سارا پاکھنڈ کیوں رچایا جاتا ہے جس میں اپنے ساتھ دوسرے ہزاروں شہریوں کی زندگی بھی خطرے میں پڑتی ہو۔ عمران خان کو تو ان کی پارٹی والے بڑا پڑھا لکھا باشعور جدید دور کا ماڈرن لیڈر بنا کر پیش کرتے ہیں تو یہ بکروں کی شامت لانا کہاں کا انصاف ہے۔ کشمیری مجذوبہ لِلہ دید نے آج سے ساڑھے چھ سو سال قبل ایک پنڈت کو جب بھگوان کی مورتی کے آگے بھیڑوں کی بلی چڑھاتے دیکھا تو اپنے ”واکھ“ شعر میں کہا تھا ”اے ظالم پنڈت تجھے ترس نہیں آتا کہ زندہ جانوں کو ایک بے جان مورتی کے آگے ذبح کر رہا ہے، کیا یہ گناہ نہیں ۔ اب چونکہ یہ اطلاعات کے مطابق بیگم خان یعنی پیرنی کا حکم تھا تو کس کی مجال کہ اس کی سرتابی کرتا۔ سو خان صاحب کو بھی ماننا پڑا۔ یوں بے چارے دو کالے بکرے جان سے گئے۔ ان کی قیمت کس نے دی یہ تو معلوم نہیں البتہ سینہ گزٹ کے مطابق لاہور کے جلسے کی تشہیری مہم پر 50 اور جلسے کے انتظامات پر 9 کروڑ خرچ ہوئے ہیں۔ دروغ برگردن راوی۔ ویسے عمران خان کا یہ کمال تو ہے کہ لگتا تھا یہ لاہورنہیں پشاور ہے۔ اب ان لاکھوں لوگوں نے شہر لاہور بھی گھوم پھر کر دیکھ لیا اگر واپس جا کر یہ لوگ اپنے صوبے میں بھی لاہور جیسی ترقی رنگینیاں لانے کامطالبہ کرنے لگ گئے تو کیا ہو گا....
٭........٭........٭
پی ٹی ایم سوات کے جلسے میں بھی پاکستانی پرچم لہرانے پر پابندی
یہ پشتونستان فتنے کے نئے ایڈیشن نے کچھ زیادہ ہی پر نکالنا شروع کردیئے ہیں۔ لاہور کے بعد سوات کے جلسے میں بھی پاکستانی پرچم لانے والے کو دھکے دیکر باہر نکالا گیا۔ نامنظور پشتنی غدار بھول رہا ہے کہ یہ وہی سوات ہے جہاں صوفی محمد کے طالبانی دور حکومت کی سیاہ رات بھی لوگوں کے دلوں سے پاکستان کی محبت ختم نہیں کر سکی۔ گزشتہ روزاس کے جلسے میں اس کا ثبوت بھی اسے مل گیا ہو گا جب سوات کے لوگوں کی اکثریت نے ان افغانی مہاجرین کے جلوس کو راستہ دینے سے انکار کر دیا جو جلسے میں آ رہے تھے۔ اور کئی نوجوان جان پر کھیلتے ہوئے پاکستانی پرچم لے کر جلسہ گاہ آئے جہاں سے انہیں نکال دیا گیا۔ جلسہ میں نامنظور خار پشتی نے وہی زبان بولی جو بھارت کے اشارے پر افغانستان والے 1947ءسے بول رہے ہیں اور آرپار ایک افغان کانعرہ لگا کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی ناپاک کوشش کر رہے ہیں۔ اب تو اس نامنظور نے حد یں کراس کر دیں اور مذہب تک کو نشانہ بنایا۔ کہتا ہے کہ پاکستان میں آباد بلوچ، پٹھان، پنجابی اور سندھیوں کے درمیان صرف آئین کا رشتہ ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے وہ را کی زبان بول رہا ہے۔ بیرون ملک اس کے چیلے چانٹے بھی اپنے مظاہروں میں یہی زبان بولتے اور پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کر کے ڈیورنڈ لائن ختم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ایسے افغان پسند شہری کو اٹھا کر افغانستان کے سپرد کیا جائے تاکہ یہ وہاں جاکر پشتونوں کی ہی نہیں افغانوں کی بھی آزادی کا حال دیکھے جو وہاں ہو رہا ہے۔ تحریک طالبان اور پشتونستان کے گھسے پٹے مہرے اب نیا ڈرامہ رچا رہے ہیں۔ ان کی ساری شرارت کا نشانہ صرف اور صرف پاکستان ہے....

epaper

ای پیپر-دی نیشن