• news
  • image

خونِ خاک نشیناں!

-1فرانسیسی مفکر روسو نے کہا تھا ”انسان آزاد پیدا ہوتا ہے مگر ہر طرف وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہ زنجیریں جبر و استبداد کی ہیں‘ یہ زنجیریں ظلم اور زیادتی کی ہیں‘ یہ زنجیریں ناروا پابندیوں کی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ معاشی استحصال کی ہیں۔ انسان کی حرص اور ہوس نے کبھی بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ یہ درست کہا گیا ہے کہ انسانی تاریخ EXPLOITATION OF MAN BY MAN کے سوا کچھ نہیں۔ الغرض آدمی کا شیطان آدمی رہا ہے۔
-2دور غلامی ختم ہوا تو ایک نئی قسم کی غلامی شروع ہو گئی۔ صنعتی انقلاب نے اسے مزید ہوا دی۔ آجر اور اجیر کا رشتہ۔ سرمائے اور محنت کا تصادم سرمایہ داروں اور کارخانوں کے مالکوں نے نہ محنت کی عظمت کا اعتراف کیا نہ محنت کش کے مسائل اور مصائب پر ہمدردانہ غور کیا اور نہ اسے اپنی محنت کا جائز معاوضہ دیا۔ وہ یہ بات بھول گئے کہ ان کی شان و شوکت سج دھج دولت کی ریل پیل مزدور کی مساعی کی مرہون منت ہے۔ انہیں اس بات کا ادراک بھی نہیں تھا کہ محنت کی اپنی خوشبو ہے۔ اس کی مخصوص مہک ہے۔ جس طرح عقیق سو بار کٹنے سے نگینہ بنتا ہے اسی طرح محنت کش بھی محنت کی بھٹی میں تپ کر کندن بن جاتا ہے۔اگر وہ کام بند کر دے تو عالیشان محلات کی روشنیاں ماند پڑ جائیں۔ مالک کی حالت مزدور سے بھی بدتر ہو جائے۔ ترقی کا پہیہ ہمیشہ کے لئے رک جائے۔
-3جیسے جیسے تعلیم کی روشنی پھیلی‘ معاشرہ ترقی کرتا گیا تو مزدوروں کو اپنی اہمیت اور حیثیت کا ادراک ہوتا گیا۔ انہوں نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ شکاگو کے مزدوروں کی قربانیوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنے ہی خون کی صراحی سے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ وہ تو جاں سے گزر گئے لیکن اس قربانی نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ پہلی بار یہ تاثر ابھرا کہ خون خاک نشیناں ہر مرتبہ رزق خاک نہیں ہوتا بلکہ یہ شعلہ جوالا بھی بن سکتا ہے۔ کف قاتل پر جم کر اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے۔ سرخی لبِ خنجر پکار پکار کر چیخ چیخ کر قاتلوں کا سراغ دیتی ہے۔ وہ لوگ کسی من و سلویٰ کے متلاشی نہ تھے‘ پرتعیش زندگی کے متقاضی نہ تھے۔ صرف جینے کا حق مانگتے تھے۔ دو وقت کی روٹی‘ کپڑا اور مکان۔
-4اس قربانی کے نتیجے میں ریاستوں کو احساس ہوا کہ اگر انقلاب کا راستہ روکنا ہے‘ خونریزی سے بچنا ہے‘ معاشرے میں پھیلی ہوئی بدامنی اور بے چینی کو ختم کرنا ہے تو انہیں ایک فلاحی مملکت کا روپ دھارنا ہو گا۔ اگر کوئی بے روزگار ہے تو اسے بے روزگاری الا¶نس دیا جائے۔ رہنے کے لئے مکان نہیں ہے تو اس شخص کو چھت مہیا کی جائے۔ شہریوں کی کم سے کم ضروریات ہر صورت میں پوری کی جائیں۔ مغربی ممالک میں تو ایسا ہوا ہے لیکن مشرق میں بوجوہ ایسا نہیں ہو سکا۔ اس کی وجہ؟ ہمارے حکمرانوں کی خود غرضیاں اور نااہلی ہے۔ اب دور کیا جانا ہے‘ وطن عزیز کی مثال ہی لے لیں۔ ہمیں آزاد ہوئے ستر برس ہو گئے ہیں مگر بندہ مزدور کے حالات نہیں بدلے۔ تلخ سے تلخ تر ہوتے گئے ہیں۔ فریب وعدہ فردا پہ اعتبار کئے بیٹھے ہیں۔ خود غرض سیاست دان‘ نااہل قیادت‘ کرپشن‘ اقربا پروری‘ دھونس اور دھاندلی۔
-5بدقسمتی سے بانی پاکستان محمد علی جناح جلد رحلت فرما گئے۔ اگر زندہ رہتے تب بھی سازشیوں نے انہیں زچ کر دینا تھا۔ زیارت میں جب وہ زندگی کے آخری دن گزار رہے تھے تو وزیراعظم ان کی خیریت دریافت کرنے گئے۔ قائد نے محترمہ فاطمہ جناح کو کہا۔ بیمار پرسی تو محض ایک بہانہ ہے۔ یہ دیکھنے آئے ہیں کہ میں کتنے دن اور زندہ رہ سکتا ہوں۔ لیاقت علی خان بھی زیادہ دیر اقتدار کے مزے نہ لوٹ سکے۔ پنجاب کے جاگیرداروں اور نوکر شاہی نے گٹھ جوڑ کر کے انہیں پنڈی کے کمپنی باغ میں شہید کروا دیا۔ اس کے بعد اقتدار کی میوزیکل چیئرز کا کھیل شروع ہو گیا۔
-6ایسا دورابھی آیا کہ کارخانہ دار خوب پھلے پھولے اور فرعون بن گئے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس بنک ملازم کی تنخواہ آٹھ سو روپے سے متجاوز ہوتی تھی‘ مالکان اسے نوکری سے فارغ کر دیتے تھے۔ مزدور آنکھ اٹھا کر مل مالک کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ انجمن سازی کا حق ان سے عملاً چھین لیا گیا تھا۔ باایں ہمہ اسے کسی نہ کسی طور ملازمت مل جاتی۔
-7بھٹو دور میں اس حد تک حالات بدلے کہ اس نے غریب کو زبان دی۔ اس کی عزت نفس بحال ہوئی۔ ایک طویل عرصہ تک غم و غصے کا دبا ہوا آتش فشاں پھٹ پڑا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری قومی زندگی میں توازن نہیں ہے۔ مالک کا بس چلتا ہے تو وہ نوکر پر بے جا سختیاں کرتا ہے۔ اس کا حق مارتا ہے۔ اس کی عزت نفس مجروح کرتا ہے۔ اپنے نوکروں کو کیڑے مکوڑوں جتنی بھی اہمیت نہیں دیتا۔ اگر مزدوروں کی باری آتی ہے تو وہ مالک کو اس کے اپنے کارخانے میں بھی گھسنے نہیں دیتے۔ کمرے میں بند کر کے اسے گھنٹوں باہر نہیں نکلنے دیتے۔ مل اور مشینوں پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ ایسا ہی بھٹو دور کے ابتدائی ایام میں ہوا۔ مزدوروں نے مار مار کر مالکان کا بھرکس نکال دیا۔ تمام ملوں پر قبضہ کر لیا۔ پیداوار رک گئی۔ بھٹو مرحوم موزے تنگ سے بہت متاثر تھے‘ کچھ پالیسی کے طور پر اور کچھ مالکان سے بدلہ لینے کے لئے انہوں نے کئی کارخانوں کو قومیا لیا۔ اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پیداوار نہ ہونے سے محنت کشوں کو تنخواہ دینا مشکل ہو گیا۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے حکومت نے انہیں لگام ڈالنے کی کوشش کی لیکن جن بوتل سے باہر آ گیا تھا۔
-8محنت کشوں کے مسائل حل کرنے کے لئے لیبر کورٹس بنائے گئے۔ 73ءمیں مجھے بطور جج لیبر کورٹ تعینات کیا گیا۔ میرے ذہن پہ یہ بات نقش کر گئی تھی کہ یہ مظلوم اور پسا ہوا طبقہ ہے۔ لائلپور کی سینکڑوں ملوں‘ فیکٹریوں اور تجارتی ادارں نے بے شمار مزدوروں کو نوکری سے فارغ کر دیا تھا۔ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جنہیں ”عوامی حکومت“ کے آنے سے پہلے ہی فارغ کر دیا گیا تھا۔ میں نے قریباً سب کو بحال کر دیا۔ اس میں کسی قسم کی دشواری اس لئے بھی پیش نہ آئی کہ لیبر لاز میں جرم سرزد ہونے کی صورت میں بھی نوکری سے فارغ کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ ایک پروسیجر ہے جس سے مل مالکان کی اکثریت نابلد تھی۔ وہ اسے "FOLLOW" نہیں کرتے تھے۔ محض "MORAL CERTAINTY" پر کسی کو نہیں نکالا جا سکتا تھا۔ اس لئے بے گناہوں کے ساتھ کچھ گنہگار بھی بچ جاتے تھے۔ اس سلسلے میں چند لطیفے بھی سرزد ہوئے۔ سینئر لیبر کورٹ کے جج رائے رزاق صاحب تھے۔ ان کے اکثر فیصلے تفنن طبع کا سامان بنتے تھے۔ ایک مرتبہ کوہ نور ملز کا ایک مزدور چوری کرتے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ وہ رائے صاحب کے قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کی اپیل منظور کرتے ہوئے محترم جج صاحب نے اس کو بحال کر دیا۔ الٹا مل منیجر کو ڈانٹتے ہوئے بولے ”تمہیں علم نہیں کہ جانگلی عادتاً چور ہوتے ہیں۔ ایسے شخص کو تم نے بھرتی ہی کیوں کیا؟ اب بھگتو۔“
-9میاں نواز شریف ایک طویل عرصہ تک حکومت میں رہے۔ دو مرتبہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ اور تین مرتبہ وزیراعظم۔ یہ الگ بات کہ تینوں مرتبہ اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔ اس کی وجہ غالب نے ”شائبہ خوبی تقدیر“ کا ذکر کیا تھا۔ منیر نیازی نے ”کجھ مینوں مرن دا شوق بھی سی“ میں اپنی تباہی کا جواز تلاش کیا تھا۔ میاں صاحب ہر دو اشعار کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔ ان کے دور میں محنت کشوں کے لئے کوئی خاص کام نہ ہوا۔ جب موٹروے بن رہا تھا تو انہوں نے لیبر لاز کے کچھ سیکشن معطل کر دیئے جن کا تعلق انجمن سازی اور ہڑتال سے تھا۔ نتیجتاً ہزاروں مزدور اپنی تنخواہ نہ بڑھوا سکے۔ ویسے بھی سالانہ بجٹ میں جو مزدور کے معاوضے میں اضافہ کیا جاتا ہے اسے اونٹ کے منہ میں زیرہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس کا الزام کافی حد تک ڈار صاحب کو بھی جاتا ہے۔ ان کا بس چلتا تو وہ محنت کش اور سرکاری ملازمین سے ان کا آخری نوالا تک چھین لیتے۔ حکومت بننے کے بعد پہلے بجٹ میں ہی بصد ناز فرمایا۔ اس مرتبہ تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ جب ایک تگڑی صدائے احتجاج بلند ہوئی تو اس فرمان کو کڑوی گولی کی طرح نگل گئے۔ آٹے میں نمک ڈالا تو وہ بھی حساب کتاب سے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن