مریم اورنگزیب کی شاندار اننگز
بجٹ پیش کرنے کی گھڑی بڑی شبھ تھی کہ محترمہ مریم اورنگزیب کو ایک عرصے بعد اطلاعات ونشریات کے محکمے کا مکمل وزیر بنا دیا گیا، اسے کہتے ہیں کہ حق بحقدار رسید۔کابینہ میں وزیر مملکت کا منصب محض خانہ پری کے لئے ہوتا ہے، اس سے ایک رکن پارلیمنٹ کی خوشی کا سامان ہو جاتا ہے مگر جس محکمے کا کوئی وزیر ہی نہ ہو ، اسے وزیر مملکت کے ذریعے چلانا انصاف نہیں ، خاص طور پر اطلاعات ونشریات جیسے حساس اور اہم ترین محکمے کا۔ بانوے میں مجھے وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ بنگلہ دیش جانے کا موقع ملا تو راستے میں میری ان سے تفصیلی گفتگو ہوئی، میں نے ان سے کہا کہ وہ وزرات خارجہ کو وزیر مملکت کے ذریعے نہ چلائیں بلکہ اسے مکمل وزیر کے سپرد کریں ،، کہنے لگے کون اس کے لئے موزوں ہے ، میںنے کہا کہ سب سے زیادہ وہی موزوں ہے جو تین برس سے وزیر مملکت کے طور پر کام کر رہا ہے ۔ بہر حال پرویز رشید نے اپنا منصب خوب نبھایا۔ ان کے بعد محترمہ مریم اور نگزیب کو انہی کا سارا کام بطور وزیر مملکت سونپ دیا گیا ، کام میں کوئی کمی نہیں تھی مگر عہدہ مکمل نہ تھا جسے بالاخر مکمل کر دیا گیا ۔ محترمہ نے جب قلم دان سنبھالا تو حالات نازک موڑ پر تھے، نیوز لیکس کا جھگڑا الگ تھاا ور عدلیہ کے فیصلے بھی دھڑا دھڑ آ رہے تھے اور وہ تھے بھی پریشان کن اوپر سے اپوزیشن بڑی تگڑی ہورہی تھی، ایک طرف سے پیپلز پارٹی جان کو آر ہی تھی اور دوسری طرف تحریک انصاف پہلے ہی گلے پڑی ہوئی تھی، زرداری، بلاول، خورشید شاہ، مولا بخش چانڈیو، فرحت اللہ بابر اور رضا ربانی بڑے کھلاڑیوں میں شامل تھے، اور وہ سب تابڑ توڑ حملے کر رہے تھے، عمران خان اور ان کے دیگر ترجمان بھی چڑھائی کئے ہوئے تھے۔ اگرچہ ان کا جواب دینے کے لئے مریم اورنگزیب تنہا تو نہ تھیں ، کیونکہ خود نواز شریف بھی میدان میں اتر چکے تھے، ان کی کمک کے لئے محترمہ مریم نواز بھی موجود تھیں، مگر حکومتی سطح پر صرف محترمہ مریم اورنگزیب ہی نے دفاعی مورچہ سنبھال رکھا تھا، سچی بات یہ ہے کہ انہوںنے پرویزرشید کی کمی محسوس نہ ہونے دی اور کہیں حکومت کو پروپیگنڈے کے اکھاڑے میں چت نہیں ہونے دیا، مگر ایک اکیلی جان اور وہ بھی ایک خاتون۔یہ تو محترمہ کی خوبی ہے کہ انہوں نے چومکھی جنگ لڑی اور کامیابی سے لڑی، ان کی خوبی یہ تھی کہ ان کا لب و لہجہ دھیما تھا مگر منطق کے اعتبار سے انتہائی وزن دار ،انہوںنے گھن گرج نہیں دکھائی مگر پھر بھی مخالفین پر بجلیاں گرائیں۔
میں یہ بتاتا چلوں کہ میری محترمہ وزیر صاحبہ سے کوئی شنا سائی نہیں ، نہ کبھی ملاقات ہوئی۔´ جبکہ ان سے پہلے کے وزرائے اطلاعات پرویز رشید،شیخ رشید، محترمہ شیری رحمن،مشاہد حسین اور ارشاد حقانی سے گہرے دوستانہ مراسم تھے۔ شیری رحمن نے تو ایک بار فون کر کے میرے ایک کالم پر ا س انداز سے گلہ کیا کہ میرا جی چاہا کہ میں روز ایساہی قابل اعتراض کالم لکھوں اور وہ روز مجھے ایسی ہی ڈانٹ پلائیں۔ وہ ایک عزت دار خاتون اور سیاست دان ہیں اور ہمارے پیشے ہی سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس لئے وہ اپنے فن کی ماہر تھیں۔مگر محترمہ مریم اورنگزیب کو جن حالات میں اپنا منصب سنبھالنا پڑا، ان میں وہ لمبی چوڑی رابطہ مہم نہیں چلا سکتی تھیں ، صرف روز مرہ کی گتھیاں ہی سلجھا سکتی تھیں اور اس فن میں انہیں ید طولی حاصل تھا جیسے انہوںنے اطلاعات کے شعبے کی پی ایچ ڈی کر رکھی ہو۔وہ پروپیگنڈے اور سچائی کی سرحدوں کو مکس نہیں ہونے دیتی تھیں۔
ہر کھیل میں ایک ایسا لمحہ آتا ہے جب کوئی ٹیم سخت دباﺅ کا شکار ہو جاتی ہے ، کرکٹ میں تو ایسے مواقع کئی بارا ٓتے ہیں اور اس عالم میں ساری امیدیں کسی ایک بیٹس مین سے وابستہ کر لی جاتی ہیں۔اس بیٹس مین کے لئے پچ پر کھڑے رہنا تو زندگی اور موت کے فیصلے کے برابر ہوتا ہے مگر اپنی ٹیم کو نازک صورت حال سے نکالتے ہوئے فتح سے ہمکنار کرنا اس کاا صل امتحان سمجھا جاتا ہے،۔ محترمہ مریم اورنگ زیب بھی ایسے ہی کھلاڑی کی حیثیت رکھتی ہیں اور آج جب ان کی حکومت کی ٹرم ختم ہو رہی ہے تو انہیں وزیرمملکت سے مکمل وزیر بنانا ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی ٹیم انہیں داد دینے پر مجبور ہو گئی ہے۔
محترمہ مریم اورنگزیب کوجن نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا ، ان پر ایک نظر ہی ڈالی جائے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ یا سر چکرا کر رہ جاتا ہے۔ وزیر اعظم کو نااہل کر دیا جائے، انہیں اور ان کے پورے خاندان کو جے آئی ٹی اور نیب کی پیشیوں میں الجھا دیا جائے،دیگر وزرا بھی دباﺅ میں ہوں اور خواجہ آصف کو بھی نااہلی کا سامنا کرنا پڑے۔ احسن اقبال ا ور سعد رفیق کے سر پہ بھی تلوار لٹکی ہو۔ کئی ارکان اسمبلی توہین عدالت کے مقدمات میں پھنس چکے ہوں تو ایسے عالم میں گزشتہ روز خود نوازشریف کو کہنا پڑا کہ وہ مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں مگر ان سے گھبرانے والے بھی نہیں ، انہوںنے اپنے ساتھیوں کو حوصلہ دیا کہ ان کی جماعت نے ایٹمی دھماکوں سے لے کر سی پیک تک۔ موٹر ویز سے سے لے کر بجلی گھروں تک کا جال بچھایا ہے ، ملک سے اندھیرے دور کئے ہیں اور دہشت گردی کی کمر توڑی ہے، کراچی کے امن کو بحال کیا ہے وتووہ کسی سے کیوں خوف کھائیں مگر خوف کھانے کی وجوہات موجود ہیں ، زرداری بار بار کہہ رہے ہیں کہ وہ نواز شریف سے ہاتھ ملانے کے لئے تیار نہیں ، گویا محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے جومیثاق جمہوریت کیا تھا وہ اسے روندنے کے لئے تیار ہیں ، عمران خان لاﺅ لشکر کے ساتھ لاہور کے مینار پاکستان میں جلوہ دکھا چکا ہے۔ ان مصائب میں گھری ہوئی پارٹی اور حکومت کا دفاع کرنا کار طفلاں نہیں ہے،اگر محترمہ مریم اورنگزیب میدان میں کھڑی ہیں اور جم کے کھڑی ہیں ، تو قلم ان کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
محترمہ وزیر صاحبہ کی ایک خوبی یہ ہے کہ ا نہوںنے اپنی حکومتی ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی، جو سرکاری عملہ انہں ورثے میں ملا، اس پر اعتماد کیا اور انہوںنے ان کے ساتھ چل کر دکھایا، انہوںنے کسی کومرغ دست آموز نہیں سمجھا ، ہر ایک کی پیشہ ورانہ مہارت کا مکمل احترام کیا۔ یہ بھی ان کی کامیابی کی ایک بین وجہ بنی۔
ہمارے معاشرے میںکسی بھی خاتون کو قدم قدم پر چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بنیادی طور پر یہ مردوں کی بالا دستی کا معاشرہ ہے مگر محترمہ مریم اور نگ زیب اپنے راستے کی کسی مشکل کو خاطر میں نہیں لائیں، اس لئے میں یہ نہیں کہوں گا کہ انہوںنے مردانہ وار کردار ادا کیا بلکہ مجھے کہنے دیجئے کہ محترمہ نے زنانہ وار اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور مخالفین کی صفوں میں بزعم خویش سورماﺅں کو ایسا پچھاڑا کہ وہ بھی کیا یاد رکھیں گے کہ کسی سے پالا پڑا تھا۔مریم اورنگزیب نے اطلاعات و نشریات کی وزارت کو انتہائی متانت مگر زیرک انداز میں چلایا۔ میرا خیال ہے کہ انہوںنے صحافیوں کے کسی مخصوص ٹولے کی سرپرستی نہیں کی اور نہ کسی پر اطلاعات کے دروازے اس لئے بند کئے کہ وہ ان کے مخالفوں کا حاشیہ بردار تھا۔پاکستان میں جمہوری پیش رفت کا ایک ثمر ہمیں محترمہ مریم اور نگ زیب کی شکل میں ملا ہے۔
٭٭٭٭٭