حسین حقانی کی گرفتاری : امریکی حکام بظاہر تعاون نہیں کر رہے‘ ڈی جی ایف آئی اے کی سپریم کورٹ میں رپورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ آف پاکستان میں میمو گیٹ سکینڈل کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے معروف قانون دان احمر بلال صوفی کو عدالتی معاون مقرر کردیا، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے حسین حقانی کی گرفتاری سے متعلق انٹرپول کے جواب بارے استفسار کیا تو ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ امریکی حکام سے حسین حقانی کی حوالگی اور 4 ارب روپے کی کرپشن کے الزام سے متعلق بات ہوئی ریڈ وارنٹ بھی دکھائے لیکن امریکا نے پاکستان میں اپنے ایک گرفتار شہری کی بات کردی ہے، انکار نہیں کےا بلکہ پاکستان کے حوالے کرنے میں ملزم کے خلاف عدالتی حکم الزامات کی تفصیلات مانگی ہیں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے میموگیٹ کیس کی تو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا انٹرپول نے حسین حقانی کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے سے انکار کیا ہے اور اگرکوئی شخص امریکی سپریم کورٹ کوبیان حلفی دیکر پیش نہ ہوتوپھرکیا ہوگا؟، کیا گرفتاری مانگنے پر پاکستان بھی انکارکرسکتا ہے،اس موقع پر ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ انٹرپول میں 5 بھارتی ہیں مگر پاکستان کی کوئی نمائندگی نہیں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے مقدمے میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے، پہلے انٹر پول میں پاکستان کا ایک نمائندہ افسر موجود ہوتا تھا مگر اب نہیں ہے وہی ملکی مفادات اور موقف کا خیال کرتا تھا مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی ۔ بی بی سی کے مطابق ایف آئی اے کے سربراہ نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ امریکی حکام بظاہر پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی حوالگی سے متعلق پاکستانی حکام سے تعاون نہیں کر رہے اور انہوں نے اس معاملے میں پاکستان سے مزید دستاویزی ثبوت مانگے ہیں۔
میمو گیٹ سکینڈل