• news

وزیر کے ریمارکس، مسلم لیگ(ن) اور پی پی میں نازیبا الفاظ کا تبادلہ‘ سینٹ مچھلی منڈی بن گیا

اسلام آباد (سٹی رپورٹر+نوائے وقت نیوز+ جنرل رپورٹر+آن لائن ) آئندہ مالی سال 2018-19ءکے بجٹ پر سینیٹ اجلاس میں بدھ کو بھی بحث جاری رہی۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم ملک نے کہا کہ بجٹ ایک ایسا قانونی تقاضا تھا جسے مسلم لیگ ن کی حکومت نے پورا کیا کیونکہ خلا چھوڑا نہیں جا سکتا تھا۔ برآمدات میں 13.1 فیصد اضافے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی معیشت میں نمایاں بہتری آ رہی ہے۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر اسٹاک مارکیٹ، شرح نمو، ٹیکس وصولیوں اور دیگر معاشی شعبوں میں 2013ءکے بعد سے نمایاں بہتری آئی ہے۔ سسٹم میں 12 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی شامل ہونے سے توانائی کی صورتحال آج سب کے سامنے ہے۔ اپوزیشن اگر بجٹ میں بہتری کے لئے تجاویز اور سفارشات دینا چاہتی ہے تودے ،ان کی جائز تجاویز پر حکومت عمل درآمد کرے گی۔ سی پیک اور جی ڈی پی کے بڑھنے سے یقینی طور پر درآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ امید ہے کہ درآمدات میں اضافے سے ہماری برآمدات میں بھی اضافہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اگلے سال کے دوران مزید منصوبوں سے بجلی کی پیداوار شروع ہو جائے گی۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ چونکہ بجٹ سے عوام کی توقعات پوری نہیں ہوئیں اس لئے آئندہ مالی سال کے بجٹ کو غریب دوست قرار نہیں دیا جا سکتا ۔تمام سیاسی جماعتوں کو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کرنا چاہئے۔ اے این پی کی سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ اس بجٹ میں زیادہ تر لفاظی ہے اور بجٹ میں عوام کے بجائے ”ووٹر“ کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ زیادہ چیزیں پہلے بجٹ سے کٹ اینڈ پیسٹ ہیں۔ پی ایس ڈی پی میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے ملک کو فائدہ ہو۔ آئندہ مالی سال کا پی ایس ڈی پی اتفاق رائے سے تیار کیا جانا چاہئے تھا۔ خواتین سے متعلق کمیشن کو ہمیشہ فنڈز کی قلت کا سامنا رہتا ہے حالانکہ خواتین بھی ووٹ دیتی ہیں اور حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں بے روزگاری دن بہ دن بڑھ رہی ہے، نوجوانوں میں انتشار پھیل رہا ہے اور بیروزگاری سے تشدد اور منشیات کے استعمال جیسے جرائم بڑھتے ہیں۔ خیبر پی کے میں پن بجلی کے منصوبے شروع کرنے کی بڑی گنجائش تھی لیکن اس کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ وفاقی حکومت اس مقصد کے لئے فنڈز مختص کرے، تمام صوبوں میں چھوٹے ڈیم تعمیر کر کے آب پاشی کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ بچوں، معذوروں، منشیات کے عادیوں اور بزرگوں کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا۔ ن لیگ کی سینیٹر کلثوم پروین نے تحریک استحقاق پیش کرنے کی اجازت چاہی تا ہم چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے انھیں اپنی نشست پر بیٹھنے کی ہدایت کی اور تحریک پیش کرنے کا موقع نہیں دیا۔بجٹ اجلاس میں حصہ لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کی سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ حکومت بجٹ کو عوامی امنگوں کا بجٹ قرار دے رہی ہے جبکہ بجٹ ایک غیر عوامی شخصیت نے پیش کیا ہے تو اسے عوامی امنگوں کا بجٹ کیسے کہا جا سکتا ہے۔ یہ کالابجٹ، عوام مزدور اور ہاری دشمن بجٹ ہے۔ انہوں نے پاک افواج کو خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب تاریکی کا شکار ہے۔ پی ایس ڈی پی میں سندھ کا حصہ 15 بلین روپے ہے، تینوں وزرائے اعلیٰ کا واک آﺅٹ بجا تھا۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہر پاکستانی پر 1 لاکھ بیس ہزار روپے قرضہ ہے۔ جنوبی ایشیاءمیں سب کم پاکستان میں تعلیم کو بجٹ میں حصہ دیا جاتا ہے۔ ڈھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے جبکہ پی ایم ہاﺅس کا بجٹ سترہ فیصد بڑھا دیا گیا۔ ملک میں جب تک بدعنوانی ختم نہیں ہوگی، معیشت ترقی نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اربوں روپے صرف اس لئے ضائع ہو جاتے ہیں کہ منصوبے بروقت مکمل نہیں ہوتے۔ وفاقی وزےر برائے موسمی تغےرات مشاہد اللہ خان کی جانب سے کراچی مےں دہشتگردوں کی پشت پناہی پےپلز پارٹی کے سینیٹر کو ٹن پارٹی او رپنجاب مےں ہم ترقےاتی کام کرتے ہےں اور ےہ پےسہ کھا جاتے ہےں، یہ انکشاف کے ضےاءالحق کا تحرےک جماعت کا آغاز ہوا تو آصف علی زرداری سندھ مےں اس کے صدر بنے ۔ ان رےمارکس پر ایوان بالا مےں پےپلز پارٹی اور ن لےگ کے درمےان سےنٹ مےں نازےبا الفاظ کا استعمال ، اےوان مچھلی منڈی بن گئی ۔ اپوزےشن کی حکومت پر شدےد تنقےد مشاہد اللہ خان کی تقرےر کے دوران اپوزےشن لےڈر شےری رحمان ان کے تندو تےز جملوں کا سامنا نہ کرتے ہوئے اےوان سے چلی گئیں ۔ بدھ کے روز مشاہد اللہ خان نے بجٹ تقرےر کے آغاز سے پےپلز پارٹی کو آڑے ہاتھوں لےا ۔ انہوں نے اپنے خطاب مےں کہا کہ عزےر بلوچ جب کراچی مےں معصوم لوگوں کے قتل عام مےں ملوث تھا اےک مافےا سرگرم عمل تھا ۔ ماﺅں،بہنوں اوربےٹےوں کا قتل عام ہورہا تھا فرےال تالپورعزےر بلوچ سے جاکر ملتی تھی۔ آصف علی زرداری اس کی سرپرستی کرتا تھا جس پر پےپلز پارٹی کے سےنےٹرز اپنی نشستوں پر کھڑے ہرگئے اور براہ راست نازےبا الفاظ کا استعمال شروع ہوگےا ۔ سےنٹرسسی پلےو ، مےرا بخش ، مولا بخش چانڈےو اس تقرےر کے رد عمل مےں مشتعل ہوگئے تو پےپلز پارٹی کے سےنےٹرز نے نازےبااشارے کرنا شروع کردئےےجس پر مشاہد اللہ خان نے کہا جناب چےئرمےن سےنٹ اےسا ماحول اےوان مےں بھی نہےں دےکھا حےران ہوں کہ جب ےہ تقرےر کرتے ہےں تو ہم سنتے ہےں ۔ ہماری باتر کے دوران ان کی قوت برداشت ہی جواب دے جاتی ہے۔ انہوں نے سسی بلےجو کی جانب دیکھ کر کہا کہ مولا بخش چانڈےو اس سے پوچھو بہت تکلےف ہوتی ہے۔ ےہ بہت پےسے دے کر سےنےٹر بنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس سےنےٹرز کو زےادہ تکلےف ہوتی ہے وہ بڑی رقم دے کرسےنےٹرز بنتے ہےں۔ ہم مےں قوت برداشت زےادہ ہے سندھ مےں بجٹ کھا جاتے ہےں جبکہ ہم ترقےاتی کام کرتے ہےں ۔ جو عملاًنظر آتے ہےں جس کا اعتراف ملکی اور بےن الاقوامی مےڈےا اور غےر ملکی مشےر اور نمائندے کرتے ہیں ۔ مشاہد اللہ خان کی تقرےر کے دوران چےئرمےن سےنٹ صادق سنجرانی کی بے بسی کا حال دےکھنے والا تھا۔وہ کہہ رہے تھے کہ بجٹ پر تقرےر کرےں تو مشاہد اللہ نے کہا کہ دہشتگردی انتہا پسندی کرپشن اور سندھ کے لوگوں کو ترقےاتی عمل سے محروم رکھا بجٹ کا حصہ نہےں۔ جس پر چےئرمےن سےنٹ ان سے بار بار درخواست کرتے رہے کہ ماحول کو خراب نہ کےا جائے ۔ اےوان کو چلنے دےں ۔ چےئرمےن سےنٹ بار بار سسی بلےجو، مولا بخش چانڈےوسمےت دےگر سےنےٹرز سے درخواست کرتے ہےں کہ وہ اپنی اپنی سےٹوں پر بےٹھ جائےں۔ پےپلز پارٹی کے احتجاج کے پےش نظر چےئرمےن سےنٹ سے اےوان چلانا مشکل ہوگےا تو مشاہد اللہ نے اےک تجوےز پےش کی کہ پےپلز پارٹی والوں سے کہےں کہ واک آﺅٹ کےوں نہےں کرتے تاکہ کرپشن کرنے والوں کے چہرے بے نقاب کروں مشاہد اللہ نے کہا کہ پےپلز پارٹی والوں آج تمہےں بتاتا ہوں تمہےں تارےخ کا علم نہےں۔ نواز شرےف پر تنقےد کرتے ہو تارےخ سچا واقعہ بتاتا ہوں۔ ملٹری ڈکٹیٹر جب ضیاءالحق نے ضیاءجماعت تحریک کا اعلان کیا تو سندھ کے اندر تحریک کے صدر آصف علی زرداری تھے۔ جس پر تمام سینیٹرز کو سانپ سونگھ گیا اور کوئی بھی اپنی نشست سے کھڑا نہیں ہوا۔ تو مشاہد اللہ نے کہا کہ آئندہ الیکشن میں بھی تمہیں جب کردار دینگے تو ہم ہمیشہ وکٹری سٹینڈ پر کھڑے رہیں گے۔خیبر پی کے کی حکومت وہ واحد حکومت ہے جس کے وزراءاپنے وزیراعلیٰ اور اپنے لیڈر کے خلاف کرپشن کے الزامات لگا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کے پیرس، دوبئی، امریکہ، لاہور، اسلام آباد، ملتان اور کراچی میں محلات ہیں، انہیں دوسروں کے ایک دو محل بہت چبھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے سندھ کے عوام کو کچھ نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ رکن شاید اس لئے زیادہ احتجاج کر رہے ہیں کہ وہ پیسے دے کر اس ایوان میں پہنچے ہیں اور شاید ان رکن کے سب سے زیادہ پیسے خرچ ہوئے ہیں۔ مشاہد اﷲ خان کے ان ریمارکس پر پورا ایوان قہقہوں سے گونج اٹھا۔ بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر غوث محمد نیازی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے پانچ سال اور پیپلز پارٹی کے پانچ سال کے دور میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان کی تقریر جونہی ختم ہوئی اپوزیشن لیڈر شیری رحمن نے کھڑے ہوکر کہا کہ چیئرمین سینیٹ نے یقین دلایا تھا کہ وفاقی وزیر یا وزیر مملکت برائے خزانہ بجٹ بحث کے دوران ایوان میں موجود رہیں گے وہ آج پورے اجلاس میں نہیں آئے ۔ اپوزیشن اس پر احتاج کرتے ہوئے واک آﺅٹ کرتی ہے یہ کہتے ہوئے اپوزیشن ارکان ایوان سے واک آﺅٹ کر گئی جس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے اجلاس آج جمعرات کوتین بجے سہ پہر تک ملتوی کر دیا ۔
سینٹ اجلاس

ای پیپر-دی نیشن