تمہارے گھر میں مائیں بہنیں نہیں ہیں
ہمارے سیاستدانوں کو جھوٹ نہیں بولنا چاہئے مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ جھوٹ کی سیاست کرنے والے بچے کو کیوں اور کیسے برداشت کریں گے؟
رانا ثناء اللہ کے حق میں بات کرتے ہوئے عجیب سا لگتا ہے جیسے ہم جھوٹ بول رہے ہوں مگر فواد چودھری نے رانا صاحب کے خلاف ایک جھوٹی بات کی ہے۔ مریم نواز کے لئے ایک سافٹ کارنر دل میں ہے مگر اب وہ ’’پاکستانی سیاستدان ہوتی جا رہی ہیں‘‘۔
رانا ثناء اللہ نے جو بھی کہا ہے اس سے ہم اختلاف کرتے ہیں۔ رانا صاحب نے جن عورتوں کیخلاف بات کی ہے۔ ان کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ مگر یہ بیان اور زبان قابل اعتراض ہے۔ کوئی خاتون جو بھی ہے اس کے خلاف بات بُری لگتی ہے۔
لگتا ہے رانا صاحب بہت فری ہو گئے ہیں اور بات کرتے ہوئے کوئی خیال نہیںکرتے۔ اس ملک میں سیاسی ماحول بہت بگڑتا جا رہا ہے۔ کوئی بات خلاف بھی ہو مگر اسے بھی بُری نہ لگے جس کے خلاف بات کی جا رہی ہے ۔ اپنے خلاف بات کو انجوائے کرنے والے اب رہے نہیں۔
فواد چودھری نے رانا ثناء اللہ کے خلاف بات کی ہے۔ آسانی سے آجکل صرف رانا صاحب کے خلاف بات کی جا سکتی ہے۔ رانا صاحب بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور جواب دینے کی ہمت رکھتے ہیں۔ فواد نے نواز شریف کے خلاف بھی بات کی ہے یہ بھی آجکل روٹین ہے۔ عمران خان اور زرداری بھی نشانے پر ہوتے ہیں۔
رانا صاحب کو ساہیوال کے جلسے میں پہلی صف میں بٹھایا گیا ۔ کیا فوادچودھری کو اپنے پارٹی جلسوں میں کبھی عزت نہیں ملی۔ ہمارے سیاستدان ایسے بیان دیتے ہیں جو خود ان کے خلاف بھی دیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رانا صاحب کو جلسے میں اتنی عزت کیوں ملی۔ شاید فواد چودھری کو اتنی عزت کبھی نہیں ملی۔ فواد تحریک انصاف کے ترجمان ہیں اور رانا صاحب ن لیگ سے وابستہ ہیں۔ ایک بات یہ بھی فواد نے کی کہ رانا ثناء اللہ کو خواتین کی تضحیک کے لئے مریم نواز نے شہہ دی ہے یہ بات بہت بُری ہے اور جھوٹ سے بھی زیادہ بدصورت ہے۔ رانا صاحب کا وضاحتی بیان بھی پہلے بیان جیسا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے بیان میں سے صرف ٹھمکا واپس لیا ہے۔
علیم خان نے رانا ثنا ء اللہ کی خواتین کے خلاف باتوں کی مذمت کی ہے۔ ہر قسم کی عورتیں خواتین پارٹیوں کے جلسوں میں ہوتی ہیں۔ علیم خاں نے بہت اچھی تقریر کی۔انہوں نے کہا کہ رانا صاحب نہ تو پڑھے لکھے ہیں نہ ان کی کوئی تربیت ہوئی ہے رانا صاحب کی خواتین کیخلاف باتیں قابل مذمت ہیں۔ علیم خان نے کہا کہ اپنے جلسے کے بعد مینار پاکستان میں جلسے کی وجہ سے کوئی نقصان ہوا ہے تو ہم اس کے لئے تیار ہیں۔ ایک پودے کے نقصان پر دس پودوں کے لئے حاضر ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ آجکل بھی ایسے سیاستدان ہوتے ہیں۔
علیم خان نے رانا ثنا ء کے ردعمل کو ٹھکرا دیا ۔ انہوں نے خواتین کے حوالے سے رانا صاحب کی اس بات کو شرمناک قرار دیا ہے کہ یہ نجانے کہاں سے آئی ہیں۔ ’’کہاں‘‘ سے ان کی مراد کیا ہے۔ کوئی پوچھے ان کے جلسوں میں خواتین کہاں سے آتی ہیں۔ ٹھمکے کے الفاظ پرعلیم خان نے غم و غصے کا اظہار کیا اور یہ سوال کیا کہ اُن کے جلسوں میں خواتین کہاں سے لائی جاتی ہیں۔ یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا آپ کے گھروں میں مائیں بہنیں نہیں ہیں۔
اب تحریک انصاف کومحسوس کرنا چاہئے کہ وہ اپنے بندوں کو بات کرنے کا سلیقہ ہی سمجھا دیں۔ میراخیال ہے کہ تحریک انصاف میں علیم خان کا ہونا ایک نعمت کی طرح ہے۔کیا فواد چودھری کورانا ثنا کے مقابلے کیلئے رکھا ہے۔ عمران اب سیاست میں روایتی طریقے کو اپنانے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ بہرحال جو تقریر کی وہ بہت متاثر کرنے والی تھی۔ خاصی دیر تک اتنی روانی اور آسانی سے اتنی برجستہ باتیں کیں کہ حیرت ہوئی۔ کیا نواز شریف اس طرح بول سکتے ہیں اور وہ بھی منہ زبانی۔
اگر نواز شریف نہ ہوں اور مریم نواز بولیں تو ایک زمانہ ان کا معترف ہے مگر نواز شریف کا مریم کے ساتھ ساتھ ہونا کوئی فائدہ نہیں ہونے دے گا۔
نواز شریف مریم کو ساتھ ساتھ رکھتے ہیں یہ اچھی بات ہے مگر مریم کو موقعہ ملنا چاہئے کے وہ اپنی بات لوگوں تک بغیر کسی واسطے کے پہنچا سکیں۔ میری تجویز یہ بھی ہے کہ رانا ثنا اللہ مریم نواز سے رابطہ رکھیں اور ان سے تربیت لیں کہ کب کہاں اور کیسے بات کرنا ہے اورکہاں بات نہیں کرنا تو بھی مریم بی بی سے رجوع کریں۔ ورنہ اس کے لئے صرف فواد چودھری ہی کافی ہے مگر وہ سوچیں کہ کن لوگوں کے ساتھ ان کی مثال دی جا رہی ہے۔
رانا صاحب سے یہ گزارش ہے کہ ’’ایسے ویسے‘‘ نہ بن جایا کریں۔ ان کے لئے یہ بات لوگ کرتے ہیں کہ وہ شہباز شریف کے لئے وہ کچھ کر سکتے ہیں جو سگے بھائی نہیں کر سکتے ۔ میرا اشارہ نواز شریف کی طرف نہیں ہے۔ وہ صرف اپنی بات کوٹھیک ٹھاک سمجھتے ہیں اور رانا صاحب کے لئے شہباز شریف ہی سب کچھ نہیں مگر وہ یہ بھی سوچیں کہ سچ کیا ہے اورجھوٹ کیا ہے۔