• news
  • image

سی آئی اے ۔جرائم اور سازشی حاجات کی علامت

بدنام ِزمانہ امریکی خفیہ ادارے 'سی آئی اے' کے قیام سے اب تک دنیا کا کون سا ایساخطہ باقی رہ گیا ہے'جہاں سی آئی اے نے اپنی روائتی خونریزسفاکانہ عیاریوں کی شرمناک انسانیت سوزداستانیں رقم نہ کی ہوں'کاش!سی آئی اے اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کادائرہ امریکی ریاستوں تک ہی محدود رکھتی ' لیکن سی آئی اے کی دیدہ ودانستہ فریب کاریوں کے توسیع پسندانہ عزائم کے دام ِ فریب کے جالوں میں مسلم ممالک ‘خاص کردنیائے ِاسلام کی واحد ایٹمی ریاست پاکستان سے بھی جب ا±سے آسانی سے شکار ملنے لگ گئے تو جنوبی ایشیامیں بیٹھنے اور یہاں سے ایشیا بھر میں اپنی سازشی شیطان صفت کارستانیاں کرنے میں اُسے سہولتیں ملنے لگیں اپنے تئیں امریکہ دنیا کے نظم ونظام کا ’بادشاہ‘ بن کر یہ سمجھنے لگ گیا کہ ایشیا اب اُس کے ہاتھوں کا کھلونا بن جائے گایوں اِ س خطہ میں سی آئی اے کی پہچان ’بدی‘ اور ’برائی ‘ کی علامت سمجھی جانے لگی دنیا کے دیگر خطوں کے ممالک کے مقتدر سسٹم کو تہہ وبالا کرنے ‘کمزور کرنے کے لئے جو وطیرے سی آئی اے نے اپنائے وہ ہی پاکستان میں اپنائے جانے لگے ماضی کی ہماری ’غیر ذمہ دار‘ حکومتوں نے سی آئی اے کی بڑھتی ہوئی سازشوں پر نظر رکھنا ضروری نہ سمجھ کر جو پہاڑ جیسی غلطیاں کیں آج اکیسیویں صدی کے دوسرے عشرے میں پاکستانی قوم حیرت و استعجاب کے عالم میں ہے کہ چند ڈالروں کے عوض'امریکی ملٹی پل ویزوں کے بدلے میں اپنی ہی مادرِوطن کی سلامتی کا سوداچند بکاو¿سی آئی اے کی جھولیوں میں بلکہ ا±س کے قدموں میں جاگرتے ہیں، سی آئی اے کی انگلیوں پرغداروں کی مانند کٹھ پتلیوں کی طرح ناچنے لگ جاتے ہیں'پاکستانی قوم آخر کب تک ’ حقانی سے ڈاکٹرشکیل احمدآفریدی ‘سمیت کس کس کے داغدارچہروں پرپڑے ہوئے نقاب کھینچتی رہے'یہ ایچ حقانی کون ہے؟ وہ ہی ہے ،جس نے اپنی مادرِوطن سے غداری میں بڑانام کمایا اب تک وہ اپنی اِیسی ہی بہیمانہ'شرمناک اور لائقِ نفریں ذلت آمیزحرکات وسکنات میں اندھے بیلوں کی مانند جتا ہوا ہے'پیچھے مڑکر دیکھتا تک نہیں'پاکستان نے بدنام ِزمانہ اِس شخص پراِس کی پیدائش سے 'ہزایکسی لینسی' کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچانے میں اُس پر کتنے احسانات کیئے ہیں وائے بدنصیبی! جولوگ اِس حد تک گرجائیں اپنی ہی ماو¿ں کے سروں سے چادریں کھینچ لیں ا±نہیں رتی برابر بھی یہ احساس نہ رہے‘ ہ ہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اپنی 'سرزمین' ماو¿ں جیسی عظیم المرتبت حیثیت کے حامل انسانی احساسات وجذبات کا غیروں سے سودا کرتے پھریں! کسی بھی پاکستانی کو یاد ہے‘' 2 مئی 2011 کی شب؟جب امریکی اسٹیلنتھ ہیلی کاپٹروں نے پاکستان کی آزاد وخود مختار فضاو¿ں کی خلاف ورزی کی تھی، ابیٹ آباد میں سی آئی اے کی نشاندہی پر حویلی نما ایک گھر پر مشکوک جنگجویانہ حملہ کیا گیا تھا ،جس میں کہا گیا کہ یہاں اسامہ بن لادن موجودتھا جسے ماردیا گیا ہے ‘ پوری دنیا حیرت میں آگئی یہ کیسے ہوسکتا ہے لیکن جب ہمارے دشمن ہماری آستینوں میں چھپے ہوئے ہوں تو کس کو کچھ کہا جائے یاد رہے2 مئی سے قبل لاہور میں سی آئی اے کے ایک جاسوس ریمنڈڈیوس نے لاہور کی مصروف ترین شاہراہ پر پاکستانی نوجوانوں کو دن دھاڑے گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھاغالبا ا±سے قبل یہی حقانی ا±ن دِنوں امریکہ میں بحیثیت پاکستانی سفیر متعین تھا جبکہ پاکستانی قوم باخبر نہیں تھی کہ ا±ن کے ملکی مفادات کے نام پر امریکہ میں ا±ن کا اپنا سفیر بک چکا ہے جس نے امریکہ میں رہ کرپاکستانی مفادات کو بہت ہی سستے داموں میں فروخت کرکے اپنے منہ پر جو کالک ملنی تھی سو ا±س نے خود ہی مل لی، ساتھ ہی ا±س پرلے درجے کے غدار نے امریکی انتظامیہ کو 'کیری لوگر بل'کے شرمناک نکات کی ڈرافٹنگ میں ا±ن کا ساتھ دیا تھا، جس کے نتیجے میں پاکستان امریکی شکنجے میں پوری طرح سے جکڑ دیا جاتا (خدانخواستہ) یہ نازک و حساس صورتحال پاکستانی قومی سلامتی کے دونوں اہم اداروں نے پاکستانی فوج اور پاکستانی سپریم انٹیلی جنس آئی ایس آئی کی عقاب نما چوکس نگاہوں کے فوکس میں رہی ملکی مقتدر سیکورٹی حلقوں نے اپنی آئینی ذمہ داریوں کے فرائض کو اپنی جانوں سے زیادہ اہم سمجھا اور کیری لوگر بل'پینٹاگان' کی ٹیبلوں میں ہی کہیں مرکھپ گیا ایچ حقانی جیسوں کے خواب ملیامیٹ ہوگئے، یہاں یہ سوال بڑااہم ہے 2011 کے یہ درمیانی مہینے پاکستان کی قومی سلامتی کے لئے بڑے آلارمنگ اندیشوں‘خدشوں اور وسوسوں کے ایام تھے سوچیئے کہ امریکہ میں بیٹھے ایچ حقانی کا کیا خیبر پختونخواہ کے محکمہ ِصحت کے ایک نچلے درجہ کے ملازم ڈاکٹر شکیل احمد آفریدی سے کوئی 'ان ڈائریکٹ' یا 'ڈائریکٹ' رابطہ نہیں رہا ہوگا بھئی کیوں نہیں رہا ہوگا ایچ حقانی کی ایماءپر سی آئی اے پاکستان میں پے درپے دیدہ دلیری سے اپنے مذموم عزائم تک پہنچنے کی کارروائیاں کررہی تھی ابیٹ آباد پر 'بن لادن' تک پہنچنے میں بھی سی آئی اے ملوث تھی، توبن لادن تک 'کورئیر' کرنے میں سی آئی اے کو جس شخص (ڈاکٹر شکیل احمدآفریدی) نے کھرے مہیا کیئے کیا وہ 'غدار' کہلانے کا برابر کا مستحق نہیں ہوسکتا ؟ ایسے میں بن لادن کے 'خاتمہ' کے بعد پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہتی؟ ڈاکٹر آفریدی جسے ٹھوس اور واضح ثبوتوں کے ساتھ عین وقت پر پاکستانی چوکنا دلیروں نے شکنجے میں کس لیا، ڈاکٹر آفریدی کو ایچ حقانی کی طرح ملک سے فرار ہونے کا موقع نہیں دیا گیا ،ڈاکٹر آفریدی کو گزشتہ دِنوں آئی ایس آئی کی بہت ہی معتبر رپورٹ پر گزشتہ دِنوں پشاور سے اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل کردیا گیا ہے، اطلاعات کی بنیاد بہت ہی مصدقہ ہے کہ سی آئی اے نے پشاور جیل سے ایک ممکنہ انتہائی ہنگامی کارروائی کو بروئے ِ عمل لاکر ڈاکٹر آفریدی کو جیل سے رہا کروانے کا زیر زمین منصوبہ بنا لیا تھا ،جس پرآئی ایس آئی کے جانباز دلیروں کی جاگتی چوکنا آنکھوں نے اپنی جان توڑنظریں رکھی ہوئی تھیں‘ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے 'فرارآپریشن' کا 'مکو' آئی ایس آئی نے شروع ہونے سے پہلے ہی 'ٹھپ' دیا ‘سی آئی اے منہ تکتی کی تکتی رہ گئی ‘امریکہ نے اپنے قیام سے آج تک اپنے سامراجی عزائم کی جارحیت کی کسی مہم جوئی میں نام کی حد تک بھی کوئی کامیابی کبھی حاصل نہیں کی' ہمیشہ منہ کی کھائی ہے' کل جب امریکہ افغانستان میں داخل ہوا تھا تو یہ خصوصی امر ا±سے بھلانا نہیں چاہیئے کہ وہ موقع پاکستان کا امریکہ پر ایک احسان تھا جس احسان کا بدلہ ا±س نے پاکستان کو کیا دیا اب وہ پاکستان کی قومی سلامتی کے لئے چلینج بن گیا؟ یہی وہ بدلہ ہے۔ امریکہ کا آج کا پاکستان 2001 کا پاکستان نہیں۔ پاکستان نے اپنے علاقائی معاشی اہداف کا سراغ پالیا ہے ’اب پاکستان کو امریکی ہدایات کی پرواہ ہے نہ ضرورت‘ پاکستانی قوم خوب باخبر ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا ٹریک ریکارڈ 'جرائم اورسازشی حاجات'کی ا±س پوٹلی کی مانند ہے، جس میں کئی طرح کے جان لیوا امراض کے سوا کچھ نہیں پایا جاتا'۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن