• news
  • image

موپساں کی کہانی ’دی نیکلس‘ اور پاکستانی ووٹرز

انےسوےں صدی کے فرانسےسی ادےب ”موپساں“ کا اب تک کوئی ثانی نہےں ہے۔ اُس نے 42 برس کی عمر پائی اور اپنی زندگی کا خاتمہ اپنا گلا خود کاٹنے اور خودکشی کی کوشش مےں کےا۔ اُسے نیچر، ماےوسی اور کسمپرسی پر شارٹ سٹوری لکھنے والاعالمی ادب کا بے تاج بادشاہ کہا جا سکتا ہے۔ اُس کی اےک شاہکار کہانی ”دی نےکلس“ ہے۔ ےہ شارٹ سٹوری پہلی مرتبہ7 1 فروری 1884ءکو اےک فرانسےسی اخبار مےں شائع ہوئی۔ اس کہانی پر اب تک بے شمار ڈرامے اور فلمےں بن چکی ہےں۔” دی نےکلس“ پر لاتعداد تبصرے ہوئے اور نئے نئے نقطہ¿ نظر پےش کئے گئے لےکن مذکورہ شارٹ سٹوری کا موازنہ آج اےک بالکل نئے انداز سے کرتے ہوئے اِسے پاکستانی ووٹروں اور جمہوری حکومتوں سے جوڑتے ہےں۔ ےہ اےک نفسےاتی صدمے اور غلط فہمی کے دوزخ کی کہانی ہے۔ آئےے پہلے شارٹ سٹوری دی نےکلس کا مختصر جائزہ لےتے ہےں۔ کہانی کچھ ےوں ہے کہ ”مادام مےتھل ڈی خےالاتی دنےا مےں اپنے آپ کو ہمےشہ امےر طبقے مےں شامل کرتی۔ اُس کے خےال مےں اُس کا غرےب گھرانے مےں پےدا ہونا اےک حادثہ تھا جبکہ اُس کا اصل مقام اےلےٹ کلاس تھی۔ اُس کی شادی اےک معمولی کلرک سے ہوئی جو دن رات انتھک محنت کرکے اپنی خواہشوں کی ماری بےوی کی خواہشےں پوری کرتا رہتا لےکن وہ کسی طرح بھی خوش نہ ہوتی۔ اےک مرتبہ کلرک شوہر نے لاکھوں جتن کے بعد وزارتِ تعلےم کی اےک وی آئی پی تقرےب کے لئے اپنے اور بےوی کے لئے دو پاس حاصل کئے۔ اُس کا خےال تھا کہ اس تقرےب مےں شامل ہوکروہ بہت خوش ہوگی۔ جب اُس نے تقرےب کے پاس اپنی بےوی کو دےئے تو وہ برا سا منہ بناکر بولی کہ مےرے پاس اس تقرےب کے شاےان شان کپڑے نہےں ہےں۔ کلرک شوہر نے بےوی کی الماری سے کئی نئے اور قےمتی جوڑے نکال کر اس کے سامنے رکھے لےکن بےوی تھی کہ مانتی ہی نہ تھی۔ آخرکار شوہر نے اپنی شکاری رائفل کے لئے جمع کی ہوئی برسوں کی پونجی چار سو فرانکس بےوی کو دے دےئے جس سے وہ اپنی مرضی کے ملبوسات لے آئی۔ اب اس کی نئی فرمائش ےہ تھی کہ ان کپڑوں کے ساتھ پہننے کے لئے اس کے پاس قےمتی زےورات نہےں ہےں۔ کلرک شوہر نے بہت سمجھاےا اور دلےلےں دےں کہ ”تمہارے پاس پہلے سے موجود زےورات ان کپڑوں کے ساتھ بہت جچےں گے“ ےا ےہ کہ ”تازہ پھولوں کے زےورات پہن کر بھی تم ان کپڑوں کے ساتھ محفل کی شہزادی لگو گی“ لےکن بےوی نے کلرک شوہر کی سب دلےلےں مسترد کردےں۔ تنگ آکر کلرک شوہر نے کہا کہ اب تو ہمارے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہےں ہے۔ اس لئے اگر تم اپنی امےر دوست مادام جےن فورےسٹےئر سے اےک رات کے لئے اُس کے زےورات مانگ لوتو تمہارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ بےوی کو ےہ تجوےز پسند آئی اور اس نے مادام جےن کے گھر جاکر اےک رات کے لئے جےولری کی فرمائش کی۔ مادام جےن نے اپنا جےولری باکس اس کے سامنے رکھا۔ بےوی نے اس جےولری باکس سے ہےروں کا نےکلس لے لےا۔ تقرےب مےں نئے ملبوسات اور ہےروں کے نےکلس کے ساتھ وہ واقعی محفل کی ملکہ لگ رہی تھی۔ رات گئے جب تقرےب ختم ہوئی اور وہ اپنے کلرک شوہر کے ساتھ گھر واپس آئی تو اسے اچانک محسوس ہوا کہ وہ نےکلس اس کے گلے مےں نہےں ہے۔ بےوی اور کلرک شوہر بدحواس ہوکر اندھےرے مےں چپہ چپہ چھانتے ہوئے واپس تقرےب کی جگہ تک گئے لےکن نےکلس کو نہ ملنا تھا، نہ ملا۔ بےوی نے کلرک شوہر کو کہا کہ وہ صبح مارکےٹ سے گمشدہ نےکلس جےسے نےکلس کی قےمت پتہ کرے اور کسی طرح بھی اسے خرےد لائے کےونکہ وہ بغےر نےکلس کے مادام جےن کا سامنا نہےں کرسکے گی۔ اگلے روز کلرک شوہر نے مارکےٹ سے ہیروں کے بالکل وےسے ہی نےکلس کی قےمت پتہ کی تو دونوں کے ہوش اڑ گئے۔ نےکلس کی قےمت چالےس ہزار فرانکس تھی۔ انہوں نے انتہائی زےادہ شرح سود کے ساتھ رقم ادھار لے کر نےکلس خرےدا اور مادام جےن کو لوٹا دےا ۔ دونوں نے ادھار واپس کرنے کے لئے پہلے سے بھی زےادہ محنت مزدوری کرکے ،کم کھانا کھاکر اور پرانے کپڑے پہن کر رقم بچانی شروع کی۔ اس منصوبے پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے زندگی کی سب لذتےں اپنے اوپر حرام کرلےں اور سود پر حاصل کی گئی رقم واپس کرنے کے لئے دس برس تک انتہائی محنت مشقت کی۔ اس عرصے مےں بے حد مشقت کے باعث وہ بےمار اور لاغر ہوگئے۔ دس برس کے بعد اےک روز انہےں مادام جےن اچانک راستے مےں مل گئی۔ مادام جےن ان کی حالت دےکھ کر بے حد پرےشان ہوئی۔ اس نے ان کے جوان چہروں پر پڑی جھرےوں کا سبب پوچھا۔ جب بےوی نے ساری کہانی سنائی تو مادام جےن سناٹے مےں آگئی اور بولی کہ ”مےرا ہےروں کا وہ نےکلس جو تم سے گم گےا نقلی ہےروں کا تھا اور اس کی کل قےمت صرف پانچ سو فرانکس تھی اور میں نے تمہارے واپس کیے ہوئے اصلی ہیروں کے نیکلس پر بھی کبھی غور نہیں کیا“۔ مادام جےن کے اس انکشاف سے دونوں مےاں بےوی صدےوں کے بوڑھے نظر آنے لگے۔ انہےں اپنی جوان زندگی کے گزارے ان تکلےف دہ برسوں کا ہرلمحہ دوزخ سے بھی زےادہ تکلےف دےنے لگا“۔ کہانی ےہاں ختم ہوتی ہے لےکن اس کا پاکستانی ووٹروں اور جمہوری حکومتوں سے اب بالکل نےا موازنہ لکھنا شروع کرتے ہےں۔ پاکستانی ووٹرز گزشتہ 70 برسوں سے کئی مرتبہ ووٹ کے ذرےعے اپنی جمہوری حکومتیں منتخب کرچکے ہےں۔
جب ووٹروںکے ذریعے جمہوری حکومت قائم ہوتی ہے تو اُس وقت اس حکومت مےں لاجواب خوبےاں ہوتی ہےں۔ ہر طرف اس کے چرچے ہوتے ہیں۔ ووٹر اپنے انتخاب پر پُرمسرت ہو کر مستقبل سے اچھی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں لیکن کچھ عرصے بعد انہی ووٹروں کو خبر ملتی ہے کہ اُن کی منتخب کردہ جمہوری حکومت جعلی تھی۔ اُس حکومت کی سب چمک دمک نقلی تھی۔وہ حکومت کھوکھلی اور ناکارہ تھی۔ یہ سب کچھ سننے کے بعد ووٹروں کی نفسیاتی مایوسی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوسکتا۔ پاکستانی ووٹر جنہوں نے 70 برسوں سے اچھی جمہوری حکومتوں کے انتخاب کے لیے انتھک محنت کر کے دن رات ایک کیے مگرہر بار انھیں حکومتوں کے اختتام پر نقلی جمہوری حکومتوں کی خبرکا تازیانہ سہنا پڑا۔ پاکستانی ووٹروں کی مایوسی اور کمسپرسی کہانی ”دی نیکلس “ کے میاں بیوی کی مایوسی اور کسمپری کے دکھ سے کچھ نہ کچھ ضرور ملتی ہے جو نیکلس کے نقلی ہونے کی خبر سن کر صدیوں کے بوڑھے نظر آنے لگے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن