عمران کا لاہور جلسہ اور دیگر سیاسی جلسے
برطانیہ کے وزیراعظم چرچل کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ عظیم پارلیمانی مقرر ہیں اور یہ بات بھی مشہور تھی کہ وہ مخالفین پر جملے چست کرتے اور پھبتی اڑاتے تھے اور اس روانی اور ذہانت سے کہ حاضرین بے ساختہ اور خوب داد دیتے۔ چرچل نے اپنی سوانح عمری میں یہ راز کھولا کہ عظیم مقرر ہونے بارے میں کیا کیا باتیں پوشیدہ تھیں چرچل نے لکھا کہ ”میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں بڑی تیاری کرکے پارلیمنٹ میں آیا کرتا تھا۔ فقرے بازی کی مشق کیا کرتا تھا۔اور جیب میں رقعہ بھی رکھا تھا بحث ہو یا مخالفین پر جملے چست کرنے ہوں، فقرے بازی ہو یا مصرعے سے مات دینا ہو، یا کوئی لطیف کہانی یا لطیفہ بیان کرنا ہو ان سب کیلئے علمی سطح پر سیکھنے کا عمل بہتر ہونا چاہئے ۔جلسہ گاہوں میں بھی عوام کے سامنے کسی سیاستدان یا لیڈر کو پوری تیاری کے ساتھ آنا چاہئے اور یہ تیاری وقت نکال کر کرنا بھی پڑتی ہے اور پھر اس کیلئے مسلسل مطالعہ کی عادت بھی ڈالنا پڑتی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے لاہور میں کامیاب جلسہ کیا اب فرض کر لیں کہ اس جلسہ کیلئے بہت محنت کی گئی تھی یا خصوصی انتظامات کئے گئے تھے یا عمران خان ”لاڈلا“ ہے مگر سٹیج پر کھڑے ہو کر لاکھوں کے مجمع کے سامنے بغیر گہری فکر اور سوچ کے کوئی لیڈر فی البدیہہ اتنا نہیں بول سکتا جتنی اچھی تقریر عمران خان نے کی تھی دراصل یہ تیاری کرنا ہی کسی لیڈر کا شیوہ ہونا چاہئے اور پھر کسی ملک کے حکمران کیلئے یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ وہ معقول اور مناسب اور موقع محل دیکھ کر بات کرنے کا ہنر جانتا ہو ورنہ ملک و قوم کا عظیم نقصان بھی اور سبکی بھی ہو جایا کرتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ کسی حد تک قدرتی صلاحیت کا عمل دخل بھی ان خصوصیات میں شامل ہو سکتا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ مناسب مطالعہ اس فن کو مزید نکھارتا ہے۔ کہے الفاظ سے بھی کئی کئی معنی نکلتے ہیں۔ میرا شعر ہے کہ ....
یہ معجزہ بھی اسی کی چاہت میں ہو سکا تھا
وہ لفظ بولے تو دل پہ جیسے کتاب اترے
۔ایک لفظ کسی کے دل پر پوری کتاب بن کر اتر سکتا ہے۔
سابق وزیراعظم نوزشریف بھی اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ جلسوں میں تقریریں کرتے نظر آتے ہیں محترم نوازشریف کوئی بہترین مقرر نہیں ہیں اور اپنے زمانے میں وہ امریکہ کے صدر کے سامنے بغیر تیاری کے کنفیوژ بھی نظر آیا کرتے تھے اور اس میں مسئلہ بھی یہی نظر آتا ہے کہ انہیں تیاری کا وقت نہیں ملتا تھا یا وہ رسمی طور پر جہاز میں ہی تیاری کیا کرتے تھے اور شاید اسی لئے حکمرانوں کو منع کیا گیا ہے کہ جب وہ حکمران ہوں تو ذاتی کاروباری معاملات کو طول نہ دیں ورنہ وہ ملک و قوم کی خدمت درست انداز میں نہیں کر سکیں گے یہ منظر ہم نے دیکھا تھا اور پھر کئی طرح کی غلط پالیسیاں اپنائی گئیں اور اب معطل وزیراعظم کی پریشانی کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کا وقت بھی ضائع ہو رہا ہے اور وسائل بھی کیونکہ ایک ایک جلسے اور دھرنے پر کروڑوں کا خرچ آتا ہے آجکل کے جلسوں میں مریم نواز تقریر کرتی ہیں تو ”انگلی“ اٹھائے رکھتی ہیں لیکن یہ ”انگلی“ بے چاری عوام پر اٹھانے کی تو کوئی وجہ یا تُک نہیں بنتی ”تم بوبو“ ذرا بتاﺅ جیسے جملوں سے زیادہ ا بہتر الفاظ کا چناﺅ کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ قابل عزت اور قابل رحم عوام جانے کہاں کہاں سے بسوں، ویگنوں اور رکشوں اور تانگوں میں بیٹھ کر جلسہ گاہ میں پہنچتے ہیں۔ لہذا ان کا احترام کے ساتھ شکریہ کہنا اور آپ جناب کے ساتھ مخاطب کرنا بنتا ہے۔ وطن عزیز میں اقتدار حاصل کرنا ہے تو عوام کے آگے پیچھے پھرنا پڑے گا اور ان تمام منظروں میں اہم بات یہ بھی ہے کہ تنقید کرنے والے گھٹیا انداز اختیار کر لیتے ہیں اور خواتین کے بارے میں جب جملے بولتے ہیں احتیاط نہیں کرتے اور اس طرح ان کی شخصیت کردار اور گھریلو ماحول بھی آشکار ہو جا تا ہے۔
ایک شعر ہے کہ ....
شرط سلیقہ ہے ہر اک اَمر میں
عجب بھی کرنے کو ہنر چاہئے
اوریہ ہنر اور حاضر جوابی ”چرچل“ بنے بغیر نہیں آ سکتی کیونکہ بات چیت میں عالمی سطح کی بلندی اور مطالعہ اور نالج کا ہونا عیب کرنے اور تنقید کرنے کے معیار کو بہتر بنا سکتا ہے ورنہ یہی پھکڑ پن سامنے آتا ہے جو شروع ہے۔ کسی زمانہ میں شیخ رشید سے لوگ گلہ گزار ہوتے تھے۔ اب وہ ایسے جملے نہیں بولتے خاص طور پر خواتین کے حوالے سے کچھ ایسا نہیں کہتے جس سے ہتک محسوس ہونے کا خدشہ ہو۔ میں نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ عمران کے ساتھ شامل ہونے والے اس کی تقلید کریں گے اور تبدیل ہو جائیں گے۔ البتہ رانا ثناءاللہ کو اب بات چیت میں تمیز سیکھنا پڑے گی اور مریم نواز صاحبہ کو بھی اپنی ”انگلی نیچے“ کر کے عاجزی اختیار کرنا پڑے گی۔ سچا اور عظیم لیڈر بولتا ہے تو نگاہوں سے محبت اور لبوں پرخاموشی کے تالے دکھائی دیتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کو زبان کا مسئلہ تھا مگر عوام کی محبت اتنی تھی کہ یہ مسئلہ مسئلہ نہیں رہتا تھا۔ قائداعظم انگریزی میں تقریر کر رہے ہوتے تھے۔ یا ٹوٹی پھوٹی اردو میں بات کرتے تھے مگر مجمع ان کی تقریر اور ان کی شخصیت کی سچائی میں گم خاموش ہو کر انہیں دیکھتا رہ جاتاتھا اس اعتبار کے ساتھ کہ قائداعظم جو کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں۔ دلوں میں تھا کہ وہ جس طرف اشارہ کر تے عوام نے آنکھیں بند کر کے چل پڑنا تھا کسی ہوٹنگ کا کوئی تصور تک نہ تھا نہ جرات تھی مگر اب صورتحال یہ ہے کہ کوشش کر کے قد کاٹھ بڑھانے کا حیلہ کیا جاتا ہے جو کہ پراثر نہیں ہوتا اور لیڈروں کے اندر سے عظمت اور سچائی کی بجائے اقتدار کی تشنگی میں مبتلا وہ کاروباری شخصیات برآمد ہو جاتی ہیں جنہیں ملک و قوم کی بجائے ذاتی مفادات یا خاندان کے مفادات عزیز تھے جبکہ قائداعظم کی عظمت کے سامنے یہ عالم تھا کہ
یوں آبرو بناوے دل میں ہزار باتاں
جب تیرے آگے آوے گفتار بھول جاوے
اب عمران خان نے جو ایجنڈا دیاوہ اچھا ہے مگر اس کے عملدرآمد کے لئے جو پالیسی بنانی چاہیئے اس کے لئے ان کو جلد تجاویز پیش کرنی چاہئیں ورنہ ایجنڈے تو پہلے بھی آتے رہے ہیں۔
٭٭٭