قومی زبان اردو کی جناب چیف جسٹس سے فریاد!
عزت مآب جناب چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب میرا نام ”اردو“ ہے اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے مجھے قیام پاکستان سے قبل ہی اس نوزائیدہ مملکت کی سرکاری و قومی زبان قرار دے دیا تھا۔ جن کی تصویر آپ کی عدالت میں بھی آویزاں ہے ۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس منصب پر فائز کیا ہے تاکہ آپ عدل کے ساتھ فیصلے کریں ۔ میں اپنی وکالت خود کروں گی۔ مجھے آپ سے انصاف کی پوری امید ہے۔ جناب بانی پاکستان کی ہر بات کو ماننا اس قوم کا فرض اولین تھا۔ جناب پاکستان کی سیاسی بنیاد جس دو قومی نظریے نے فراہم کی، اسے پروان چڑھانے میں دینی احساس کے ساتھ ہندی، اردو آویزش کا دخل بھی تھا۔ قائداعظم نے سینکڑوں بار مجھے ”اردو “ کو پاکستان کی قومی و سرکاری زبان قرار دیا۔ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کی بھی یہی خواہش تھی۔ انہوں نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کو ایک خط میں لکھا تھا۔ ”اردو کانفرنس کی تاریخوںمیں سفر کے قابل ہوگیا تو انشاءاللہ ضرور حاضر ہوں گا لیکن حاضر نہ بھی ہو سکا تو یقین جانیئے کہ اس معاملے میں کلیتاً آپکے ساتھ ہوں تاہم لسانی عصبیت میری دینی عصبیت سے کس طرح کم نہیں ہے“ جناب قیام پاکستان کے بعد 1973ءمیں جب متفقہ آئین بنا تو اس میں لکھا گیا کہ پندرہ سال تک 1988 ءمجھے مکمل طور پر ملک میں نافذ کیا جائے گا۔ جناب 1988ءکے بعد بھی آج تیس سال گزر چکے ہیں مجھے میرا مقام آج تک نہیں مل سکا۔ جناب آپ بار بار فرماتے ہیں کہ آپ نے آئین کے تحفظ کی قسم کھا رکھی ہے اور یہ بھی آپ فرماتے ہیں کہ اگر ایگزیکٹو اپنے کام میں کوتاہی کرے تو عدالت مداخلت کرےگی اور آپ عملی طور پر بھی ایسے ایسے کام سرانجام دے رہے ہیں کہ پوری پاکستانی قوم آپ کی شکر گزار ہے جناب ایگزیکٹو نے آج تک میری طرف توجہ ہی نہیں کی نہ ہی حکمرانوں سے مجھے کسی بھی قسم کی کوئی امید ہے جناب یہ تو ”بھکاری“ ہیں۔ جو بھی ملک ان حکمرانوں کو امداد ”بھیک“ کی صورت میں دے۔ یہ اس ملک کی نہ صرف زبان بلکہ پورے ”کلچر “ کو ہی اپنانے پر تل جاتے ہیں۔ انگریز یہاں سے چلا گیا مگر یہ اس کی زبان انگریزی سے آج تک چمٹے ہوئے ہیں ۔ جناب یہ تو وہی بات ہوئی کہ انسان اپنی ماں کی تو قدر نہ کرے مگر دوسروں کی ماں کی خدمت کے جھوٹے دعوے کرے۔ جناب دنیا کے ہر ملک کی اپنی ایک زبان ہے۔ جس میں وہ تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں اور ملکی امور بھی سرانجام دیتے ہیں۔ یہ مجھے ہر موقع پر استعمال ضرور کرتے ہیں مگر میرا آئینی مقام دینے کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے جناب پوری پاکستانی تاریخ میں ان ”جمہوری “ حکمرانوں کے مقابلے میں صرف ایک ”آمر “ جنرل ضیاءالحق نے نہ صرف میری اہمیت و افادیت کا کھل کر اعتراف کیا بلکہ مجھے بطور دفتری زبان اور ذریعہ تعلیم نافذ کرنے کی ضرورت کو محسوس بھی کیا اورہر دو کے نفاذ کےلئے عملی اقدامات بھی کیے۔ ضیاءالحق نے اپنے دور حکومت کے دوسرے ہی سال ”مقتدرہ قومی زبان“ قائم کرکے ملک کی تاریخ میں نہایت منفرد اور قابل قدر کام کیا جسے پچھلی” جمہوری “ حکومت نے ختم ہی کر دیا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری! جناب ”مقتدرہ قومی زبان“ کا خاتمہ دراصل اس سابقہ ”جمہوری“ حکومت کا کھلا اعلان تھا کہ اس ملک میں قومی زبان کے نفاذ کی کوئی ضرورت نہیں۔ جناب عالی! مختصر یہ ہے کہ ایک “آمر“ ضیاءالحق نے مجھے ملک میں نافذ کرنے کی جتنی مخلصانہ کوششیں کیں ان سے قبل اور بعد میں کسی حکمران نے ایسا سوچا بھی نہیں ، عمل کیا کرتے۔ جناب دوسرے ممالک کے تمام سربراہان کسی دوسرے ملک میں جا کر بھی اپنی زبان میں تقریر کرتے ہیں مگر پاکستان کے حکمران تقریر کےلئے مجھے ”اردو “ کو استعمال کرنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ جناب الیکشن کمشن بتائے کہ جن سپاہی جماعتوں نے 1988 کے بعد اپنے کل دور اقتدار میں مجھے نافذ نہ کرکے آئین سے روگردانی (یا بغاوت ) نہیں کی۔ کیا وہ سیاست اور انتخابات میں حصہ لینے اور حکومت کرنے کے اہل ہیں؟ جناب مجھے اپنے ہی ملک پاکستان میں میرا مقام دلانے کےلئے 1991 ءمیں عدالت عالیہ لاہور میں جناب محمد اسمعیل قریشی ایڈووکیٹ نے درخواست دائر کی تھی جو آج تک وہیں فائلوں میں دبی ہوئی ہے اور اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ جناب عالی! گزشتہ سالوں میں ہی عدالت عظمیٰ پاکستان نے ایک درد مند اور باشعور پاکستانی شہری جناب کو کب اقبال خواجہ کی میرے بارے ایک درخواست کو پذیرائی بخشتے ہوئے بجا طور پر ان ذمے داروں کے بارے میں استفسار کیا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ آئین کی دفعہ 250(1) کا نفاذ اب تک نہیں ہو سکا؟ اور اسکے ذمے دار کون کون ہیں؟ جناب اب میں دوبارہ خود اسی عدالت عظمی پاکستان یعنی آپ کے حضور اپنا مقدمہ خود لے کر کھڑی ہوں اور دست بستہ درخواست گزار ہوں کہ مجھے 71 سال گزر جانے کے بعد بھی آج تک میرے جائز آئینی مقام سے کیوں محروم رکھا گیا ہے؟ جناب بقول آپکے آپ نے آئین کے تحفظ کی قسم کھا رکھی ہے تو میرا مقام دینے میں دیر کیوں ؟ آپ ایگزیکٹو سے باز پرس فرمائیے تا کہ حالیہ الیکشن 2018 ءسے قبل مجھے پورے ملک میں نافذ کرکے ایگزیکٹو اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرے ۔ جناب عالیٰ میں امن و سلامتی کی زبان ہوں۔ ایک کو دوسرے سے ملانےوالی رابطے کی زبان ہوں ۔ مقدس اور احترام کے قابل ہوں اور میرے چاہنے والے 22 کروڑ پاکستانی ہیں اور میرے دلدادہ اربوں کی تعداد میں ہیں کیونکہ مجھے دنیا میں تیسری بڑی زبان کے طور پر جانا جاتا ہے۔ میں اپنے دلائل ختم کرتی ہوں اور آپ سے انصاف کی طلبگار ہوں۔ مجھے نافذ کرنے سے آئین کی پاسداری بھی ہوگی اور بانیان پاکستان کی روح بھی شاد ہوگی۔
٭ ویسے تو میں صدیوں پرانی ہوں مگر اس نوزائیدہ مملکت پاکستان میں بھی میری عمر 71 سال ہو چکی ہے اور 71 سال سے میں انصاف کی طالب ہوں۔