زندگی میں مجھے کبھی مایوس مت کرنا ....
دنیا میں ہم غالباً واحد ایسی قوم ہیں جو نامساعد حالات اور غیر یقینی صورت حال کے باوجود پاکستان کی حقیقی خوشیوں اور استحکام کی خاطر من و عن ہی نہیں اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے کو ایمان کا اعلیٰ درجہ تصور کرتے ہیں۔ تلاش معاش کے سلسلہ میں دنیا کے کسی بھی ملک آباد ہوں ملک و قوم کی ترقی اور معاشی استحکام کے اصول کو کبھی بھی متاثر نہیں ہونے دیتے۔ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں پھیلے پاکستانیوں کے مقابلے میں برطانوی پاکستانیوں کی زیادہ تر تعداد نے جس کا انگلستان آنے کا بنیادی مقصد محض محنت مزدوری کر کے ”چار پونڈ“ کمانے کے بعد واپس وطن لوٹ جانا تھا۔ سوچا تک نہ تھا کہ ایک دن وہ یہاں کے ہی ہو کے رہ جائیں گے۔ اور پھر وہ وقت بھی آئے گا جس دن ان کی یہاں پیدا ہو کر جوان ہونے والی اولادیں کامیابی کے اس راستہ پر چل نکلیں گی جہاں وہ اپنے مزدور والدین کی خواہشات اور ان کے قومی وقار کو ہی بلند نہیں کریں گے اپنے والدین اور نانا دادا کے آبائی وطن پاکستان کا نام بھی روشن کریں گی۔مجھے ایسے ہی ایک انتہائی خوش قسمت محنت کش پاکستان کا آج ذکر کرنا ہے جو 17 سال کی عمر میں پاکستان کے ایک چھوٹے سے گا¶ں سے تلاش معاش کی خاطر برطانیہ چلا آیا۔ 1960ءکی دہائی میں یہاں آنے والے اس محنت کش پاکستانی نے سب سے پہلے شمالی انگلستان کے مختلف علاقوں میں سخت سردی اور برف باری میں کپاس کی ایک فیکٹری میں کام کیا۔ کچھ عرصہ خواتین کے ملبوسات کی دکان بھی چلائی مگر خوب سے خوب تر کے جذبہ کو کبھی کمزور نہ ہونے دیا۔ فیکٹریوں اور دکانوں میں تنخواہ چونکہ کم ہوتی تھی اس لئے بسوں میں نوکری کرنے کا عہد کر لیا اور یوں وہ ”بس ڈرائیور“ کی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ”بس ڈرائیور“ کی ملازمت کے بارے میں بھی آگاہ کرتا چلوں کہ ہمارے دیس معاشرے میں بس ڈرائیور کو آج بھی محض ایک ”ڈرائیور“ ہی تصور کیا جاتا ہے حالانکہ برطانوی سوسائٹی میں ”پی ایس وی“ اور ”ایچ جی وی“ لائنسز انگریزی زبان‘ روڈ سیفٹی ایکٹ رولز اور پسنجر سیفٹی پر مکمل عبور ڈرائیور کی تربیت کا بنیادی حصہ ہوتا ہے جبکہ تربیت مکمل کرنے کے بعد دوران ڈرائیونگ ”ذہنی دبا¶“ کے مراحل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔یہی وہ TUFF JOB تھی جو اس عظیم پاکستانی نے صبح و شام کی بنیاد پر اس قدر محنت سے کی کہ مقامی گا¶ں میں انہیں لوگ "ME, NIGHT AND DAY" کہنے لگے مگر ان کا جذبہ متزلزل نہ ہوا۔ بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرتے رہے اور بالآخر ان کے ایک بیٹے نے سیاسیات اور معاشیات میں اعلیٰ ڈگری حاصل کر لی۔ پاکستانی بس ڈرائیور کا یہی بیٹا آج برطانوی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا حصہ بن گیا ہے جس پر مستقبل میں آنے والی ایشیائی اور بالخصوص برطانوی پاکستانی نسلیں فخر کریں گی۔جی ہاں! اس عظیم محنت کش باپ کا یہی وہ عظیم بیٹا ہے جو آج برطانوی ہوم سیکرٹری کے انتہائی اہم ترین عہدے پر فائز ہو چکا ہے۔ رکن پارلیمنٹ ساجد جاوید جو آج ”رائٹ آنریبل“ کے ٹائٹل کے ہمراہ وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھال چکے ہیں۔ برطانوی میڈیا سمیت بین الاقوامی نشریاتی اداروں کی خبروں کا مرکز بن چکے ہیں۔ہوم سیکرٹری ساجد جاوید اس مقام تک کیسے پہنچے ان کی ذہانت کا اندازہ ان کے بینکنگ کیریئر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ 25 برس کی عمر میں وہ ”جینز مینہٹ بنک“ کے نائب بن گئے بعدازاں ”ڈوئشے بنک“ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ سابق برطانوی وزیراعظم آنجہانی ماگریٹ تھیچر کے چونکہ وہ شروع سے پرستار تھے اسلئے 1988ءمیں انہوں نے کنزرویٹو پارٹی جوائن کر لی اور یوں 2010ءمیں رکن پارلیمنٹ منتخب ہو گئے۔ اپنے والد کی طرح محنت کا جذبہ چونکہ ان میں بھی بدرجہ اتم پایا جاتا تھا اسلئے پہلے ثقافت‘ کھیل‘ سیاست اور میڈیا کے وزیر مملکت بنا دیئے گئے اور یوں پھر ان کی وزارتوں کے سفر کا آغاز ہو گیا۔ ساجد جاوید کی شادی بھی ایک عجیب اتفاق تھا۔ موسمگرما کی سالانہ تعطیلات کے دوران جہاں وہ نوکری کرتے تھے وہیں ان کی ملاقات LORA سے ہو گئی جو وہاں دوسری میز پر بیٹھ کر کام کرتی تھی۔ پہلے بات STAPLER کے استعمال تک رہی مگر جلد ہی دونوں محبت کے بندھن میں بندھ گئے اور پھر شادی کر لی۔ چند برس قبل ساجد جاوید نے بغیر لگی لپٹی م¶قر روزنامہ DAILY MAIL سے بات چیت کرتے ہوئے بتا دیا کہ وہ مسلمان ضرور ہیں مگر مذہبی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سکول کی زندگی ان کے لئے کافی دشوار کن تھی کہ ان کا شمار سکول کے انتہائی شرارتی بچوں میں ہوتا تھا مجھے HOME WORK ملتا مگر گھر آ کر میں اپنی ساری توجہ اور دلچسپی سلسلہ وار اقساط پر چلنے والے معروف ٹی وی ڈرامہ GRAN G HILL پر مرکوز رکھتا تب ایک روز والد محترم نے کہا کہ ”زندگی میں مجھے کبھی مایوس مت کرنا“ بسی ہی وہ فقرہ تھا جس نے مجھے لگاتار پڑھائی کرنے کے جذبہ سے سرشار کر دیا۔ساجد جاوید اپنی اسی محنت کے بل بوتے پر آج لکھ پتی ہی نہیں برطانوی وزارت داخلہ کا قلمدان بھی سنبھال چکے ہیں۔ اس اہم ترین عہدے پر انہیں کس طرح منتخب کیا گیا جبکہ ان کا تعلق اقلیتی طبقہ سے تھا۔ چند ہفتے قبل لندن میں ”کامن ویلتھ ہیڈ آف سٹیٹس“ کانفرنس جاری تھی کہ دولت مشترکہ کے ویسٹ انڈیز رکن سربراہ نے برطانوی وزیراعظم تھریسامے سے "WIND RUSH GENERATION" ایشو اٹھاتے ہوئے وضاحت چاہی کہ کن بنیادوں پر کامن ویلتھ کے شہریوں کو برطانیہ سے بغیر مراعات ملک بدر کیا گیا ان سے قیام کا حق کیوں چھینا گیا۔ جس پر برطانوی وزیراعظم نے مبینہ طور پر معذرت کرتے ہوئے اس معاملے کو فوری حل کرنے کی یقین دہانی کروائی مگر شیڈو ہوم سیکرٹری DIANE ASSOTT نے شدید تنقید کرتے ہوئے اس معاملے کا ذمہ دار موجودہ وزیراعظم اور ہوم سیکرٹری AMBERD کو ٹھہراتے ہوئے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جس پر ایمبرڈ نے فوراً استعفیٰ دے دیا اور وزیراعظم نے اپنی کابینہ کے سب سے لائق اور ماہر اقتصادیات وزیر مملکت ساجد جاوید کو ”ہوم سیکرٹری“ بنا دیا۔ سابق وزیر داخلہ ایمبرڈ نے اپنے استعفیٰ میں یہ اقرار کیا کہ انجانے میں انہوں نے امیگریشن کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کیا۔ اس بیان پر ساجد جاوید نے وضاحت کر دی کہ گو وہ "HOSTILE ENVIRMENT" کے قطعی حامی نہیں تاہم وہ چاہتے ہیں کہ کامن ویلتھ کے رکن ممالک سے نکالے اراکین کے معاملے کو فوراً حل کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کا مجھ پر بھی گہرا اثر ہی ہے کہ میرے والد اور رشتہ دار بھی تو پاکستان سے برطانیہ آئے تھے اور میں ان تارک وطن کی دوسری نسل سے ہوں۔ اس لئے چاہتا ہوں کہ اس اہم ذمہ داری پر ہوتے ہوئے اس معاملے کو جلد از جلد سلجھا¶ں۔ ساجد جاوید کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وزیر داخلہ کے فوراً بعد انہوں نے پہلا انٹرویو ”سنڈے ٹیلیگراف“ کو دیا ہے جس میں انہوں نے بطور ہوم سیکرٹری ”ونڈرش جنریشن“ معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
برطانوی پاکستانیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت یہاں 8 سو سے زائد تنظیمیں بھی قائم کر رکھی ہیں۔ یہ تنظیمیں کیا کرتی ہیں‘ کچھ نہ پوچھیں۔ ”مرغی کی روسٹ ٹانگ“ اور ”کرسی“ کا حصول ان کا بنیادی موٹو ہے۔ میرے کچھ کرم فرما اس لئے بھی خوش ہیں کہ ہوم سیکرٹری پاکستان آ گیا ہے۔ اب ان بھولے بادشاہوں کو بھلا کون بتائے کہ جس طرح لندن کے میئر صادق خان قواعد و ضوابط کے پابند ہیں۔ ساجد جاوید بھی پاکستانی کمیونٹی اور پاکستانی صحافیوں‘ کالمسٹوں اور پاکستان کے نجی ٹی وی نمائندوں سے ایک مخصوص فاصلہ رکھیں گے۔ ساجد جاوید محض پاکستانیوں یا مسلمانوں کے وزیر داخلہ نہیں بلکہ وہ برطانوی ہوم سیکرٹری ہیں اسلئے یہ کہنا کہ ”ہُن ستے خیراں نیں“ اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہو گا۔