ستائیس ہزار ارب ڈالر والی مہنگی جمہوریت
اسے صرف رسم و رواج کا ڈر خوف نہیں تھا ۔ وہ اپنے خاوندسے ڈرتی بھی بہت تھی ۔خوف یا شرم کے مارے اپنے منہ سے کبھی اس کا نام بھی بول نہ پاتی۔ مکھن سنگھ کی یہ پتنی کلونت کور ایک دن بولی ۔ لسی کے کٹورے میں منے کے ابا تیر رہے ہیں ۔ کچھ ایسی ہی خبر پچھلے دنوں امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق لائے ہیں۔ کہنے لگے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے کہا ہے کہ سینٹ کے الیکشن میں ووٹ دینے کا حکم اوپر سے آیا ہے ۔ اب وہ اتنے سادہ لوح بھی نہیں جتنے بنتے ہیں۔ طلباءسیاست کی راہ سے عملی سیاست میں آنے والے یہ سیاستدان سب کچھ جانتے بوجھتے ہیں۔ وہ خوب سمجھتے ہیں کہ لسی کے کٹورے میں تیرنے والا منے کا ابا مکھن سنگھ نہیں ، مکھن کا پیڑا ہے ۔ اسی لئے ان اللہ والے نے پرویز خٹک سے یہ وضاحت بھی نہ چاہی کہ اوپر سے حکم کس نمبر کے آسمان سے اتراہے ،پہلے یا ساتویں۔ہم نے صرف سات آسمانوں کا ہی سن رکھا ہے ۔ ابھی تک سارامعاملہ اشاروں کنایوں میں تھا۔پھر سوشل میڈیا میں ایک تصویر آئی ۔ عمران خان کے پیچھے کچھ وردی پوش سے دکھائی دے رہے ہیں۔ تصویر کچھ واضح ہے کچھ غیر واضح، لیکن اتنی بھی مبہم نہیں کہ کچھ پلے نہ پڑے ۔ تصویر کے نیچے اک شعر ۔
اندھیری رات ہے سایہ تو ہو نہیں سکتا
یہ کون ہے جو میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
میں نے ایک صاحب راز سے پوچھا۔ مجھے یہ شاہکار آپکا لگتا ہے ۔ اتنی دور کی اور کسے سوجھ سکتی ہے۔ بولے ۔ نہیں!لیکن ان دنوں سوشل میڈیا میں ایک سے بڑھ کرایک صاحب فن موجود ہے۔ بڑے کمال کے فن پارے دیکھنے میں آرہے ہیں۔یہ بھی ہوگا کوئی چھپا رستم۔ پھر ٹی وی ،اخبارات میں خلائی مخلوق کا ذکر چھڑ گیا۔میاں نواز شریف نے انکشاف کیا کہ خلائی مخلوق اپنی مرضی کی پارلیمنٹ لانا چاہتی ہے ۔ لیکن اب ان کا وہ اثررسوخ نہیں رہا۔ پھردھمکی دینے لگے کہ میرے سینے میں بہت سے راز ہیں۔ ان کے افشا ہونے سے پہلے سدھر جائیںورنہ ۔۔۔۔۔؟پھر انہوں نے اپنی بات یوں مکمل کی ۔ ریاست کے تین ستون ہوتے ہیں۔ان پر ایک ہی ستون نے قبضہ کررکھا ہے ۔ اس مرتبہ عام انتخابات میں ہمارامقابلہ پیپلز پارٹی یا پی ٹی آئی سے نہیں بلکہ آسمانی مخلوق سے ہے ۔ وہ احتساب عدالت میں پیشی کے موقعہ پر اخبار والوں سے بات چیت کر رہے تھے ۔ ہماری احتساب عدالتوں نے یہ منظر نامے بھی دیکھے ہیں کہ پرویز مشرف کے دور میں ان عدالتوں میں ملزمان تاریخ بھگتنے کیلئے جھنڈے والی گاڑیوں میں بیٹھ کر آیا کرتے تھے ۔ اب جواب آں غزل سنےے اور سر دھنےے۔ ہمارے سیدھے سادے ،اکل کھرے پٹھان ،جناب عمران خان بولے ہیں۔ انہوں نے کہا 2013کے الیکشن میں نواز شریف کو فوج کی حمایت حاصل تھی ۔ نواز شریف اس الیکشن میں فوج کی مدد سے جیتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف پرجب بھی دباﺅ آئے وہ ایسی ہی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ نواز شریف ہمیشہ اپنے امپائروں کی مدد سے میچ کھیلنے کے عادی ہیں۔ آج اگر عدلیہ اور فوج غیر جانبدار ہو گئی ہے تو یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے ۔ آج وہ نیلسن منڈیلا بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نیلسن منڈیلا نے ستائیس برس جدو جہد کی تھی ۔ لو! اوپر والے اور خلائی مخلوق کا قصہ ختم ہوا۔اب بات میں کوئی اوٹ پردہ نہیں رہا۔ عمران خان نے سیدھی بات کہہ دی ۔ ہر جنرل کی پالیسی مختلف ہوتی ہے ۔ میرے نزدیک جنرل باجوہ سب سے زیادہ جمہوریت پسند اور غیر جانبدار جنرل ہیں۔ میاں نواز شریف اور عمران خان کے درمیان اس لفظی جنگ میں ہمارے ”حاضر سروس“ وزیر اعظم عباسی بھی کود پڑے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی جانب سے ارکان قومی اسمبلی کے اعزاز میں الوداعی عشائیہ کے بعد وہ میڈیا سے مخاطب تھے ۔ کہنے لگے ۔ نگران وزیر اعظم کا معاملہ ہم باہمی اتفاق رائے سے طے کر لیں گے ۔ ماضی کی طرح یہ معاملہ الیکشن کمیشن کوسونپنے کی نوبت نہیں آئیگی۔ نگران وزیر اعظم کیلئے مجھے فیصلہ کرنے کا اختیار ہے ۔ نگران وزیر اعظم کے حوالہ سے قائد حزب اختلاف ابھی کوئی نام دیں ، میں ابھی منظوری دیئے دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اصل معاملہ یوں ہے کہ انتخاب نگران حکومت نہیں بلکہ خلائی مخلوق کروائے گی ۔بہر حال ہم پھر بھی اس الیکشن میں حصہ لیں گے ۔ اس مرتبہ اس مجادلہ ، مذاکرہ ، مناظرہ کا الیکشن کمیشن نے بھی نوٹس لینا ضروری سمجھا ہے ۔ انہوں نے وزیر اعظم کے خلائی مخلوق بارے بیان کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اسے خلاف آئین قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ اہم منصب پر بیٹھی شخصیت کو مفروضوں اور قیاس آرائیوں پر مبنی بیانات سے گریز کرنا چاہےے۔ انہوں نے اس مرحلے پر یہ اعلان دہرانا ضروری سمجھا کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کروانے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریگا۔خیر انتخاب کا موقعہ آئیگا ، جو ہوگا دیکھا جائے گا۔یہ اوپر والے ، یہ خلائی مخلوق اور یہ فوج ہمارے ہاں پہلے کہاں ڈسکس ہوتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ ان کے لئے” مقتدر قوتوں “کا لفظ استعمال میں آتا تھا۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ میثاق جمہوریت کا معاہدہ تھا ۔ حکمران تھے اور ان کی جیسی تیسی جمہوریت تھی ۔ لاہور میں اکتوبر 2011ءکا تحریک انصاف کا یادگار پاکستان میں ایک یادگار جلسہ ہوااور پھر کرپشن کے خلاف یہ کہانی چل پڑی ۔ عمران خان نے پہلی مرتبہ حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف آواز بلند کی ۔ پھر بات آگے بڑھتی رہی ۔ پانامہ کیس بھی عطیہ خداوندی ثابت ہوا۔ عمران خان نے قوم کو باخبر کیا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ ہمارے قرضوں کی واپسی کیلئے ادائیگی ہمارے دفاعی بجٹ سے بڑھ چکی ہے ۔ 2008سے پہلے ملک پر چھ ہزار ارب ڈالر کا قرضہ تھا۔ آصف زرداری کے پانچ سالوں میں یہ قرضہ تیرہ ہزار ارب تک بڑھا۔ اب مسلم لیگی حکومت نے اس قرضے کو ستائیس ہزار ارب تک پہنچا دیا ہے ۔ عمران خان ، نواز شریف پر تین سو ارب روپوں کی کرپشن کا الزام لگاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس الزام پر پورا پہرہ دیا ہے، عوام میں بھی ، عدالتوں میں بھی ۔ بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ یہ اقامہ کیا بلا ہے ؟ یہ ورک پرمٹ دراصل ویزے کے ساتھ پیسے ٹرانسفر کروانے کی راہداری ہے ۔ ورنہ انہیں نوکری کی کوئی حاجت نہیں۔بات محض بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ لینے یا نہ لینے کی نہیں ہے ۔ بہت سے اچھا لکھنے والے ، اچھا بولنے والے اور مہنگے وکیل ٹی وی اور اخبارات پر حق نمک ادا کرتے ہوئے نواز شریف کا دفاع کر رہے ہیں۔ وہ نہایت ہنر مندی سے نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات کو جمہوریت کے خلاف جنگ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ نے خواجہ آصف والے کیس میں اس کی نا اہلی کا فیصلہ سناتے ہی یہی رائے دی کہ مناسب ہوتا اگر یہ معاملات پارلیمنٹ میں حل ہوتے لیکن ایسا ممکن نہیں ۔ ممبران اسمبلی کی کرپشن اور انتخابی عذر داریوں کے معاملات کیلئے بہر حال کوئی کمرہ عدالت ہی چاہئے ۔ اب ہمارے زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم لوگ ستائیس ہزار ارب ڈالر کے عوض خریدی ہوئی اتنی مہنگی جمہوریت کو حیرت سے تک رہے ہیں۔