سیاسی کارکن
Jerry, Tom اور Spike کے کارٹون دیکھتے دیکھتے ہم بڑے ہو گئے۔ ہنس ہنس کے پیٹ میں بل پڑ جاتے تھے مگر اب سیاست کے Tom, Jerry اور Spike کو دیکھ کر صرف کفِ افسوس ملتے ہیں۔ جس طرح Jerry نے کبھی Tom کی کوئی بھی سازش کامیاب نہ ہونے دی اور نہ ہی Tom کے کسی اچھے کام کا انجام اچھا ہونے دیا اور اس کی مالکن نے ہمیشہ اُسے گردن سے پکڑ کر باہر نکال دیا یا Spike نے اُسے سزاوار ٹھہرایا۔ اسی طرح سے سیاستدانوں میں Tom, Jerry اور Spike کے ساتھ ساتھ مالکن بھی کہیں نہ کہیں کارفرما نظر آتی ہے۔ ویسے تو یہاں Jerry کے مددگار میں امریکہ جیسے Bluto بھی موجود ہیں اتنی ہوشیاری سے Jerry کا استعمال کر رہے ہیں کہ شاید اُسے خود بھی پتہ نہیں کہ وہ کسی کے کھلواڑ کا کھلونا بنا ہوا ہے۔ امریکہ تو یہی کہتا ہے کہ ”دُدھ ویچاں کہ پانی میں گجراں دی رانی“ ۔(یعنی کہ وہ ہرمعاملے میں بااختیار ہونے کا دعویٰ کرتاہے)
جناب امریکہ یعنی کہ Blutoکا کردار تو Popeye کے کارٹون میں اچھا لگتا ہے مگر Bluto کوئی کسی کا پابند تھوڑا ہی ہے۔ Olive نہ سہی ہمارے چیختے چلاتے مدد کے لیے پکارتے سیاستدان سہی مگر ان سیاسی حرکاروں کو یہ سمجھ جانا چاہیے کہ ان کے لئے Spinach کھا کر کوئی Popeye نہیں آئے گا کیونکہ نہ یہ سچے حقدار ہیںنہ ہی یہ کسی کارٹون کے کردار ہیں۔ امریکہ نے تو ان کا استعمال ایک مذاق بنا لیا ہے۔ اُس کی کامیابی تو یہی ہے کہ آج ہمارے تیار کردہ طالبان جو اُس کے حکم پر تیار کیے گئے ہمارے ملک میں پھیلا دیے اور اب ان پر ڈرون کے حملوں کا ڈرامہ رچا کر وہ دراصل ہمیں نشانہ بناتا ہے اور پوری دنیا میں ہرزہ سرائی ہماری ہوتی ہے۔ اپنے ایک دوسرے کی بوٹی بوٹی بھی کردیں تو بھی بڑے کہتے ہیں کہ ”نوواں (ناخن) نال ماس الگ نئیں ہوندا“پر یہاں تو سارے محاورے ساری کہاوتیں اُلٹی پڑ گئیں ”نہ اپنا مار کے چھاویں سٹدا اے“ ”نہ دُدھ دا جلایا چھاج پھوک پھوک پیندا اے“ ہاں ایک محاورہ ضرور کارگر ہے ہمارے ملک میں کہ ہم جس کو چاہیں ”دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دیتے ہیں۔“
اگر ملک میں عُہدے ملنے کی یہی شرط رہ گئی ہے کہ نعرے لگاﺅ، دھرنے دو، جلوس پہ سینکڑوں عوام اکٹھی کرو تو جناب ہاتھی کی چنگھاڑ شیر سے زیادہ گرجدار ہوتی ہے مگر جنگل کا بادشاہ تو شیر ہی بنتا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ ہمارا وطن دشمن کی آنکھ میں کھٹکتا ہے تو جناب اب تو ایسا لگتا ہے کہ پنجاب دوسرے صوبوں کی آنکھوں کا شہتیر بن چکا ہے۔ جس صوبے میں امن ہے جہاں گزرے زمانے کے شیر شاہ سوری کی مثل سڑکیں، پُل اور دیگر بہبود کے کام سرانجام دیئے جا رہے ہیں تو وہاں ”کوڈی کوڈی کر کے اڑینگی دینے کا کھیل“ کیوں رچایا جا رہا ہے۔ ہر صوبے عہدیداروںکے اپنے چوبارے ہیں پھر اپنے شملے خود کیوں نہیں اونچے کرتے۔ دوسروں کے شملے کا پھندا بنا کر انہیں کیو ں لٹکاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جو اپنے اپنے صوبے کی ترقی و ترویج کے لیے کام ہو رہے ہیں اُن کاموں کی دوسرے بھی نقل کریں اور کچھ عقل کریں ورنہ عالمی سطح پر تو انہیں شاید اپنے ضمیر کی قیمت مل جائے مگر پاکستانی عوام اب کسی ضمیر فروش کے خریدار بننے کو تیار نہیں ۔الیکشن کوئی کبڈی کا میدان نہیں الیکشن تو عقل و شعور ، ادراک اور آگہی کا وہ کھلا امتحان ہے کہ جہاں شاید اب بوٹی مافیا کامیاب نہ ہو سکے۔ نہ تو اب بریانی کی پلیٹ پر ووٹ بکے گا نہ ہی جعلی نوٹ چلے گا۔ پچھلے کچھ عرصے کی قانونی کارروائیوں اور نیب کے متحرک ہونے سے ہر کوئی اپنے گریبان میں جھانک رہا ہے۔ جھانکئے حضور ضرور جھانکئے اور جو زیادہ شرمندہ ہیں اُن کو کہنا ہے کہ ”چُلّو بھر پانی میں ڈوب جائیں“ قانون کا کُنڈا گاﺅںکے جوان منڈے کی طرح کوچہ بہ کوچہ دنداناتا پھر رہا ہے۔ قانون بے چارا بھی کیا کرے کورٹ کچہری میں بلانے کے لیے قاصد تو بھیجنے پڑتے ہیں سندیسے تو لکھنے پڑتے ہیں۔ پہلے تو بابا رحمتے اس لیے خاموش تھے کہ شاید ”ایناں ساریاں نوں آپے ای شرم آجاوے“پر کتھے!
”ڈاکٹر کی نرس سے شادی ہو گئی تو دوست نے پوچھا کیسی گزر رہی ہے ڈاکٹر بولا یار عذاب میں پھنس گیا ہوں جب تک سسٹر نہ بولوں سنتی ہی نہیں۔“ ہمارے سیاستدان یا ملک کے قرضدار اور مجرم بھی اب قانون کے ”سسٹر“ کہنے پر ہی عدالتوں میں مٹر گشت کرتے نظر آتے ہیں۔ کراچی کی دھماچوکڑی میں دیکھیں کون دھمال ڈالتا ہے تو کون چوکڑی مار کے کھڈے لائن لگتا ہے میں خاموشی سے ایک مشورہ دیتی ہوں کہ چپ چپیتے اندر کھاتے ایک ہو جائیں اور کراچی میں ”بھٹو زندہ ہے“ کے نعرے سلامت رہنے دیں۔ ”(بے چارے فاروق ستار، مصطفی کمال کو اتنا تو اعتماد دیں کہ وہ کہہ سکیں ”کجھ اِدی نئیں دتا کجھ پدی نئیں دتا تے میرا وی کجھ بن گیا“ منی پاکستان کراچی کو زندہ دلانِ شہر کے ہم پلہ لے آئیں اور اس کی روشنیاں جگمگانے دیں۔ آپ لوگوں نے تو اس کو اینٹیں بنانے والا بھٹہ سمجھ لیا ہے اگر سمجھنا ہی تو پھر بھٹے کے مزدور بھی بن جائیں لگائیں اینٹیں ،سینکیں آگ اورہو جائیں کوئلہ پھر تو کندن بن ہی جائیں گے۔
قارئین مذاق ہر بار صرف مذاق ہی نہیں ہوتا اُس کے اندر طنز برائے اصلاح بھی پایا جاتا ہے۔ پچھلے کئی عشروں میں ایسی سیاست ہمیں کہیں نظر نہیں آئی جو جمہوریت کے منہ پر بھی طمانچہ ہو اور سیاستدان عہدے اور اپنی بقا کے لئے اتنا ناچا ہو۔ اصول و ضوابط تو معمولی سے دکاندار کے بھی ہوتے ہیں۔ گھوڑا بھگانے کے لیے کوچوان بھی چابک اس کی ٹاپوں کے ردھم کے ساتھ ملا کے مارتا ہے۔ کیا اتنی سی بات ہمارے صاحب ِ عقل کو سمجھ نہیں آتی؟ ملک کا بٹوارہ تو پہلے ہو چکا اور اس میں بھی ایسے ہی وطن سے نام نہاد محبت کرنے والے اپنے مفاد کی جنگ میں آدھا دھڑ کاٹ کر دے آئے تھے۔ گھر کی لڑائی کو اپنے گھر کے اندر لڑو کھڑکیاں ، کواڑ، دریچے بند کر کے جو گناہ ثواب کرنا ہے جو حساب کتاب کرنا ہے کرلو۔
ہم تو ایک امن و آشتی کے ملک کو جنگ کا گہوارہ بنا رہے ہیں تو ہم کشمیریوں کو انصاف کیسے دلائیں گے۔ پوری اُمت مسلمہ کے معصومین کے لیے کیسے عالمی سطح پر آواز اٹھائیں گے۔ اپنا میدانِ کارزار تو جل رہا ہے بولو....! اس آگ کو بجھاﺅ گے یا اُمت مسلمہ پہ بھڑکنے والی آگ کو!