محمد ذکی کے کالم "وغیرہ وغیرہ" کا جواب
آزاد میڈیا کی یہ خوبی ہے کہ اس کی بدولت ہر کسی کو اپنی رائے کا اظہار کرنے اور کسی بھی موضوع پر طبع آزمائی کے پورے مواقع میسرہیں۔ مگر جب بعض مخصوص سوچ کے حامل افراد اس آزادی کو حقائق مسخ کرنے اور خوشامد و چاپلوسی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں تو نہ صرف تعجب ہوتا ہے بلکہ ایسے لوگوں کی ذہنی مفلوک الحالی پر رحم آتا ہے۔ گذشتہ روز ©"وغیرہ وغیرہ "کے عنوان سے چوہدری نثار علی خان کے پارٹی ٹکٹ کے حوالے سے محمد ذکی کی جانب سے جس انداز میں حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے وہ نہایت افسوس ناک اور قابل ِ مذمت ہے۔ محمد ذکی کو مکمل آزادی ہے کہ وہ جس کے بھی گن گانا چاہیں شوق سے اسکی مدح سرائی کریں اور اسکی شان میں قصیدہ گوئی کریں مگراس کوشش میں وہ کم ازکم ان حقائق کو تو مدنظر رکھیں جو روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں اور ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ اپنے اس کالم میں موصوف کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ چوہدری نثار علی خان 2013کے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی سیٹ تو جیت گئے لیکن آزاد حیثیت میں صوبائی اسمبلی کی سیٹ ہار گئے۔ موصوف کا یہ دعویٰ نہ صرف حقائق کے منافی اور غلط بیانی ہے بلکہ نوائے وقت کے قارئین کو صریحاً گمراہ کرنے کی بھونڈی کوشش ہے۔ ذکی صاحب کسی وقت اگر ریکارڈ کا مطالعہ کرنے کی زحمت گوارہ کریں تو ان کو معلوم ہوگا کہ 2013کے صوبائی الیکشن میں چوہدری نثار علی خان نے گائے کے نشان پر کامیابی حاصل کی تھی۔ انکی اطلاع کے لئے یہ بھی عرض ہے کہ 1985، 1988اور1990میں چوہدری نثار علی خان شیر کے نشان کے بغیر بھی الیکشن لڑے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کامیاب ہوئے۔ محمد ذکی کی کم علمی اور حقائق سے ناواقفیت کا سلسلہ یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ انکو تو یہ بھی علم نہیں کہ چوہدری نثار علی خان عمران خان اور طاہر القادری کے جلوس کو اسلام آباد داخلے کی اجازت دینے کے سخت مخالف تھے اور انہوں نے اس جلوس کو ،جو کہ بعد میں دھرنے کی شکل اختیار کر گیا، روکنے کے تمام انتظامات کر چکے تھے۔ اگر محمد ذکی کی یادداشت کمزور ہے تو وہ کم ازکم اس دور کے اخبارات کا ہی مطالعہ کرلیں تاکہ انکو پتہ چلے کہ چوہدری نثار علی خان کے تمام تحفظات کے باوجود عمران خان اور طاہر القادری کے جلوس کو وفاقی دارالحکومت میںداخلے کی اجازت اس وقت کے وزیرِ اعظم محمد نواز شریف کی جانب سے دی گئی تھی جس پر چوہدری نثار علی خان نے شدید اختلاف اور احتجاج کیا تھا۔شایدذکی صاحب یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ پی ٹی آئی کے دوسرے دھرنے کے موقع پر چوہدری نثار علی خان نے بہت سارے ہمنواﺅں کی مخالفت کے باوجود وفاقی دارالحکومت کو یرغمال بنانے کی کوشش کو ناکام بنانے اور جلوس کو اسلام آباد داخلے سے روکنے کا ذمہ اٹھایا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ان کے نام کے ساتھ لگے لقب سے لگتا ہے کہ وہ ایک وکیل ہیں۔ اگر وہ واقعی ایک وکیل ہیں تو ایک وکیل ہونے کے باوجود ذکی صاحب یہ بھی بھول گئے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان وزیرِ داخلہ تھے اسلام آباد پولیس کے آئی جی نہیں ۔ وہ تو اس دن اسلام آباد میں موجود ہی نہیں تھے جس دن وہ واقعہ پیش آیا جس کی طرف وہ اشارہ کررہے ہیں۔ الغرض محمد ذکی صاحب کا پورا کالم اور اس کے مندرجات تضادات کا مجموعہ اور غلط حقائق کا شاہکار ہے۔
چوہدری نثار علی خان کی مسلم لیگ سے وابستگی و رفاقت گذشتہ چونتیس سالوں کی ہے لیکن محمد ذکی کی شخصیت مسلم لیگ ن کے لئے اجنبی ہے ۔ اب اگر اچانک ان کے دل و دماغ میں میاں نواز شریف اور انکی بیٹی کی محبت جاگ اٹھی ہے تو وہ قلم کشائی کرتے وقت کم از کم حقائق اور واقعات کو مسخ کرنے سے تو گریز کریں اور ایسے معاملات پر اظہارِ خیال کرنے کی زحمت نہ کریں جن کا انکو سرے سے علم ہی نہیں اور جس سے انکی حقائق سے ناواقفیت ظاہر ہو۔