• news

بلوچستان میںپانی کا مسئلہ سنگین ،آئندہ نسل اور تاریخ حکمرانوںکومعاف نہیں کریگی :چیف جسٹس

کوئٹہ (امجد عزیز بھٹی سے+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں جمعرات کو آبی قلت ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی عدالت میں سابق وزرائے اعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثناء اللہ زہری بھی پیش ہوئے۔ سابق وزیر اعلی بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے عدالت کو اپنے دور حکومت میں کیے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پٹ فیڈر کے علاوہ فراہمی آب کا کوئی اور منصوبہ بھی ہے جس پر ڈاکٹر مالک نے کہا کہ برج عزیز ڈیم سے 23 ملین گیلن پانی فراہم کیا جاسکتا ہے برج عزیز ڈیم کی فیزیبلٹی سٹیج پر ہے،حلق ڈیم منصوبے پر 6 ارب روپے لاگت آسکتی ہے، ڈائریکٹر جنرل واسا نے عدالت کو بتایا کہ گراؤنڈ واٹر سے کوئٹہ کو پانی فراہم کیا جارہا ہے، زیر زمین پانی تیزی سے کم ہو رہاہے، ہم زمین سے گنجائش سے زائد پانی نکال رہے ہیں کسی بھی وقت یہ کہہ سکتے ہیں کہ شہر میں پانی موجود نہیں رہا،چیف جسٹس نے کہا کہ تین چار سال بعد کوئٹہ میں پینے کے پانی کی شدید قلت ہو جائے گی،کوئٹہ کو یومیہ 49 ملین گیلن کی ضرورت تھی کتنی حد ضرورت کو پورا کیا گیا50 ڈیم بنا کر کیا فائدہ ملا، پٹ فیڈر بہترین منصوبہ ہے لیکن کام نہیں شروع کیا گیابارش نہیں ہوگی تو ڈیم میں پانی کہاں سے آئے گا کوئٹہ اور بلوچستان میں میں پانی کی فراہمی کے لیے تجاویز ، حل اور سفارشات ایک ماہ کے اندر تحریری طور پر عدالت میں پیش کی جائیں ،کوئٹہ اور بلوچستان میں پانی کی قلت کے معاملے پر سابق وزرا اعلی ، چیف سیکریٹری اور واسا کے نمائندوں سے استفسار کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ پانی کی فراہمی کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کیا جائے،چیف جسٹس کا پٹ فیڈر سے پانی کی فراہمی کے لیے نواب ثنا اللہ کی تجویز سے اتفاق کیا اور حکم دیا کہ غیر قانونی ٹیوب ویلوں کو بند کیا جائے اور سابق وزراء اعلی اور بیوروکریٹس عید کے بعد ایک ماہ تک تجاویز مرتب کرکے کورٹ میں پیش کریں۔ پٹ فیڈر سے پانی لانے میں 3سے 4سال لگ جائیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ پٹ فیڈر کے علاوہ کون سے آپشن ہیں۔ عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ برج عزیز خان ڈیم سے 53ملین گیلن پانی مل سکتا ہے لیکن کچھ سیاسی مسائل ہیں۔ ہلک ڈیم کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ابھی کوئٹہ کو کہاں سے پانی مل رہا ہے۔ ڈائریکٹر واسا نے کہا کہ ہم ٹیوب ویل سے پانی دے رہے ہیں مگر پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے۔ ہم ری چارج سے زیادہ پانی دے رہے ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے پوچھا کہ کیا یہاں پانی کے بغیر زندگی ہو گی۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی کہ پانی کے غیر قانونی کنکشن ختم کرنے کیلئے اقدامات کریں۔ چیف جسٹس نے کہا زمین پر زندگی پانی سے وابستہ ہے۔ عوامی مسائل حل کرنا منتخب نمائندوں کا کام ہے۔ پانی کے مسئلے پر 5سال کے دوران حکومت کیا کر رہی تھی۔ آج پتہ چلا کوئٹہ میں پانی کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرگیا ہے‘ حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ تاریخ اور آئندہ نسل حکمرانوں کو معاف نہیں کریگی۔ ہمیں اتنا بتایا جائے دستیاب وسائل سے آئندہ 4برسوں میں پانی فراہم کریں گے۔ کچھ لوگ قدرت اور کچھ بارشوں کے نہ ہونے کو الزام دیتے ہیں۔ اندرون بلوچستان پانی کی شدید قلت ہے۔ پانی کا مسئلہ ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ طویل بحث کے بعد ہمیں یہ مسئلہ کافی حد تک سمجھ آ گیا ہے۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ پانی کا بل ادا نہ کرنے والوں کیخلاف کارروائی کی جائے۔ پانی کی قیمت مقرر کرنے پر بھی غور کیا جائے۔ پانی کا مسئلہ چندہ کر کے بھی حل کیا جائے تو میں سب سے پہلے چندہ دینے کو تیار ہوں۔ قوموں کو جب بھی ضرورت پڑی انہوں نے ایماندار لوگوں کو چندہ دیا۔ چیف جسٹس نے پٹ فیڈر سے پانی کی فراہمی کیلئے ثناء اللہ زہری کی تجویز سے اتفاق کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ غیر قانونی ٹیوب ویلوں کو بند کیا جائے۔ تین چار سال بعد کوئٹہ میں پینے کے پانی کی شدید قلت ہو جائیگی۔ کوئٹہ کو یومیہ 49ملین گیلن کی ضرورت تھی‘ ضرورت کس حد تک پوری کی گئی۔ پچاس ڈیم بنا کر کیا فائدہ ملا۔ پٹ فیڈر بہترین منصوبہ ہے لیکن اس پر کام شروع نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس کا سابق وزراء اعلیٰ کے پانی کے مسئلے کے حل کی کوششوں کیلئے جوابات غیر تسلی بخش قرار دیئے۔ چیف جسٹس

ای پیپر-دی نیشن