مالیاتی اختیارات کیلئے دونوں ایوانوں کی کمیٹی بننی چاہئے:سینٹ میں مطالبہ
اسلام آباد (این این آئی+ اے پی پی) سینٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے سینٹ کو مالیاتی اختیارات دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینٹ کے اختیارات قومی اسمبلی کے برابر ہونے چاہئیں، ہماری سفارشات کو نہیں ماننا تو ہمارے یہاں بیٹھنے کا کیا فائدہ جبکہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے رولنگ دی فنانس بل اور پی ایس ڈی پی سمیت سینٹ کے اختیارات بڑھانے کے حوالے سے سینٹ کی قرارداد پر عمل کیا جائے۔ قائد حزب اختلاف شیری رحمان نے عوامی اہمیت کے معاملہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سینٹ کو منی بل کے حوالے سے اختیارات دیئے جائیں۔ اس حوالے سے کئی بات بات ہو چکی، قراردادیں بھی پیش ہوئیں لیکن سینٹ کے مالیاتی اختیارات نہیں۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا سینٹ کے اختیارات قومی اسمبلی کے برابر ہونے چاہئیں۔ سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا سینٹ کو مزید اختیارات دیئے جائیں، بیلنس آف پاور ہونا چاہئے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا پارلیمان سینٹ، اسمبلی اور صدر پاکستان پر مشتمل ہے۔ قائد ایوان حکومت سے بات کر کے ایک بل لے آئیں۔ رحمان ملک نے کہا سینٹ ایوان بالا ہے، ہماری سفارشات ماننا ناگزیر نہیں ہوتا، ان کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، ہماری سفارشات کو نہیں ماننا تو ہمارے یہاں بیٹھنے کا کیا فائدہ۔ سینیٹر سسی پلیجو نے کہا اس حوالے سے سینٹ متفقہ قرارداد منظور کر چکی ہے۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہا سینٹ بہت محنت سے سفارشات تیار کرتی ہے، انہیں اہمیت دینی چاہئے۔ اجلاس کے دوران وومن ان ڈسٹریس اینڈ ڈیٹینشن فنڈ (ترمیمی) بل 2017ء پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ اور فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق، کمسن بچوں کے لئے فوجداری قانون وضع کرنے کے بل قانون برائے کمسن بچے بل 2018ء فوجداری قوانین (ترمیمی) بل 2018ئ، اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری تحفظ اطفال بل 2018ء پر کمیٹی کی رپورٹ پیش کر دی گئی۔ اے پی پی کے مطابق ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف سمیت مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے سینٹ کو مالیاتی اختیارات دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے تجویز دی اس سلسلے میں دونوں ایوانوں کے ارکان پر مشتمل کمیٹی بننی چاہئے۔ سینٹ کی سفارشات بجٹ میں شامل نہ ہونے سے محنت اور قومی خزانہ کا ضیاع ہوتا ہے۔ ایوان بالا میں حکومت سے تعلق رکھنے والے ارکان نے کہا حکومت نے متوازن بجٹ پیش کیا، موجودہ حکومت کو ورثہ میں بہت بڑے بڑے مسائل ملے لیکن سیاسی قیادت نے اپنے عزم سے ان مسائل کو حل کیا اور ملکی معیشت کی حالت درست کی جبکہ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے کہا پانی کا معاملہ بہت اہم ہے، اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں کمی آئی، ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل نے بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے میثاق معیشت کیلئے کمیٹی بنانے کی تجویز کو دہراتے ہوئے کہا ہمیں معیشت کے حوالے سے بڑے فیصلے کرنے کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا، طویل المدتی منصوبوں کا فائدہ آنے والی حکومتوں کو بھی پہنچے گا۔ حکومت نے صوبوں کو پہلے سے بہت زیادہ وسائل دیئے، صوبوں کو اپنی استعداد کار بہتر بنانے پر توجہ دینا ہوگی۔ تمام اقتصادی اشاریئے پہلے سے بہت بہتر ہیں۔ کچھ نئے چیلنجز سامنے آئے جن سے نمٹنے کے لئے ہم نے بہترین پالیسیاں دیں۔ بے بنیاد الزامات لگانے والوں کو ثبوتوں کے ساتھ متعلقہ اداروں سے رجوع کرنا چاہئے۔ ایمنسٹی سکیم سے وہ پیسہ واپس آئے گا جو حالات کی وجہ سے ملک سے چلا گیا۔ ہم نے بہترین سمت میں سفر شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف ورلڈ بینک کا پروگرام ہم نے کامیابی سے مکمل کیا جس سے پاکستان کی ساکھ بہتر ہوئی۔ انرجی میں 12 ہزار میگاواٹ کو پہنچے۔ اڑھائی سال سے صنعتوں کو 24 گھنٹے بجلی دے رہے ہیں۔ اس کو کوئی متنازعہ نہیں بنا سکتا۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف آپریشن جرات مندی سے کئے، یہی فوج تھی، پرویز مشرف کی بھی جرات نہ ہوئی کہ آپریشنز کا آغاز کریں لیکن نواز شریف نے جرات کا مظاہرہ کیا اور سیاسی قیادت نے ذمہ داری لی، آج پاکستان ایک پرامید اور پرامن ملک ہے۔ تجارتی خسارہ ایک چیلنج ہے، آج ہمارے پاس پیسہ ہے، ہم سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ ڈالرز کی قلت پوری ہو جائے گی۔ ترکی بھی اسی صورتحال سے نکلا۔ سرمایہ کاری کے فوائد سامنے آئیں گے۔ نیلم جہلم پر پیسہ لگا لیکن اب اس کے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ فی کس آمدنی ایک لاکھ 80 ہزار پر چلی گئی ہے۔ ایسے ہی قومیں ترقی کرتی ہیں۔ معیشت ٹیک آف کی پوزیشن میں آ گئی۔ آج ایک پرامید پاکستان ہے جہاں لوگ نئی کمپنیاں بنا رہے ہیں۔ سی پیک کی کنیکٹویٹی سے قومی یکجہتی میں اضافہ ہوگا۔ ٹیکس میں جو مراعات دی ہیں اس سے 80 ارب کا لاس آئے گا۔ ہم پی آئی اے، سٹیل ملز جیسے اداروں کی نجکاری کے حوالے سے فیصلے نہ کر کے مشکلات کا شکار ہیں۔ ہمیں ڈسکوز کے نقصانات پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ لاس والے فیڈرز کا مسئلہ حل کرنا ہوگا۔ ہم صوبوں کو بلک میں بجلی دینے کو تیار ہیں۔ ہمیں طویل المدت منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ محض قلیل المدت منصوبوں سے واہ واہ نہیں کرانی۔ اس کے لئے میثاق معیشت کی ضرورت ہے۔ دفاعی بجٹ کے حوالے سے بات ہونی چاہئے۔ ہم نے ملازمین کے ہائوس رینٹ اور ایڈوانسز میں اضافہ کیا۔ سراج الحق نے سود سے پاک معیشت کی بات کی۔ ہماری بھی یہی خواہش ہے لیکن اب بنکوں کی اسلامی شاخیں موجود ہیں۔ کالا باغ ڈیم ایک ’’ٹیبو‘‘ بن چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس پر بات نہیں ہو سکتی کیونکہ اس پر صوبوں کی قراردادیں ہیں لیکن ہمیں ملک میں پانی کی قلت کے مسئلہ کو دیکھنا ہوگا اور میثاق معیشت کے ایجنڈے میں اس معاملے کو بھی شامل کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا صوبوں کو وسائل دے دیئے ہیں اب وہ اپنی استعداد کار بہتر بنائیں اور ان وسائل کو بروئے کار لائیں۔ پنجاب کی حکومت نے کمپنیاں بنا کر اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی تاکہ ان کا مناسب آڈٹ ہو سکے۔ انہوں نے اس سلسلے میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی مثال دی اور کہا پنجاب کے پانچ شہروں میں یہ کمپنیاں بہترین کام کر رہی ہیں اور اب ہم اس مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں اس فضلے سے توانائی پیدا کر سکیں۔