12 مئی کیس کا جائزہ لیں گے‘ تھر میں بچوں کی اموات‘ ذمہ دار سندھ حکومت : چیف جسٹس
کراچی (نوائے وقت نیوز‘ نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کراچی میں کئی کئی گھنٹے بجلی غائب ہونے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کے الیکٹرک کو غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا حکم جبکہ کے الیکٹرک سے 20 مئی کو تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے کراچی میں لوڈشیڈنگ مجرمانہ غفلت، بجلی چوروں کیخلاف کارروائی کی جائے، کیا نجکاری کا مطلب یہ ہے کراچی کے لوگوں کو جہنم میں ڈال دیں؟ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کراچی میں لوڈشیڈنگ کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔ آن لائن کے مطابق سپریم کورٹ نے تھرمیں بچوںکی اموات کا ذمہ دارسندھ حکومت کو قرار دیدیا۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میںچیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میںجسٹس فیصل عرب اورجسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے تھرمیں صحت کی سہولتوں کے فقدان اور بچوںکی اموات سے متعلق کیس کی سماعت کی سماعت کے دوران آغا خان ہسپتال نے تھرمیں بچوںکی اموات سے متعلق تجزیاتی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ تجزیاتی رپورٹ میںبچوںکی اموات کی بنیادی وجہ صحت کی سہولیات کے فقدان کو قرار دیا گیا۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھر میں صورتحال اس قدر خراب ہے ایس اوپی کوبھی فالو نہیں کیا جا سکتا۔ اس موقع پرچیف جسٹس نے تجزیاتی رپورٹ پڑھنے کے بعد ریمارکس دیئے اس کامطلب یہ ہوا سندھ حکومت ہی تھر میں بچوںکی اموات کی ذمہ دارہے۔ عدالت نے تھرپارکر میں بچوںکی اموات سے متعلق قائم کمشن کی رپورٹس بھی طلب کر لیں۔ عدالت نے مقدمے کی مزید سماعت ملتوی کر دی۔ عدالت نے کے الیکٹرک حکام پر شدید برہمی اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کراچی کے لوگ تباہ ہوگئے۔ کیا ان کو بجلی دینا آپ کا کام نہیں؟، رمضان شروع ہورہا ہے اس طرح تو پورا رمضان گزر جائے گا۔کے الیکٹرک کے سی ای او طیب ترین نے عدالت میں بتایا کراچی میں طلب 3200 میگاواٹ ہے جب کہ کے الیکٹرک کی پیداوار 2650 میگاواٹ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ کو کس نے لوڈشیڈنگ کی اجازت دی؟ یہ تو مجرمانہ غفلت ہے کیا آپ کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا حکم دے دیں؟۔ سپریم کورٹ نے کے الیکٹرک کو لوڈ مینجمنٹ کے نام پر غیر ضروری لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کے الیکٹرک سے 20 مئی کو تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔ اس موقع پر سربراہ حیسکو بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے حیدرآباد میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور حیسکو کے سربراہ کی بھی سرزنش کی۔ چیف جسٹس نے حیسکو کے سربراہ سے کہا کہ لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہوئی تو آپ کے گھر پر 12 گھنٹے کیلئے بجلی بند کردیں گے۔ چیف جسٹس نے بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔جسٹس ثاقب نثار نے بھوجا ائرلائن حادثے کی تحقیقات سے متعلق آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ طلب کرلی۔ بھوجا ائرلائن حادثے میں جاں بحق افراد کے لواحقین عدالت میں پیش ہوئے۔ متاثرین نے بتایا کمشن نے حادثے کا ذمہ دار سول ایوی ایشن اور بھوجا ایئرلائن کو قرار دیا۔ چیف جسٹس نے مقدمے سے متعلق آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے ائرلائن انتظامیہ کو (آج) اتوار کو طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے ائر بلیو حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کے معاوضے کی رقم (آج) اتوار تک سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس میں جمع کرانے کا حکم دےدیا۔ ائرلائن ائر بلیو کی جانب سے پائلٹس کی ڈگریوں کی تصدیق میں تاخیر پر چیف جسٹس نے ائر لائن کو 50ہزار روپے اور شاہین ائرلائن کو ایک لاکھ رورپے جرمانہ کر دیا۔ انہوں نے جرمانہ فاطمہ فاﺅنڈیشن میںجمع کرا کر رسید عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے جب کہ چیف جسٹس نے واضح کیا سپریم کورٹ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو طلب نہیں کیا۔ایم ڈی ائر بلیو جنید خان عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایئر بلیو کا چیف ایگزیکٹو کون ہے۔چیف جسٹس نے ایم ڈی ائر بلیو جنید خان سے استفسار کیا کہ آپ کے پاس کتنے پائلٹس ہیں۔ اس پر ایم ڈی ائر بلیو نے جواب دیا کہ ہمارے پاس 101 پائلٹس اور دیگر عملے کی تعداد 251 ہے۔ چیف جسٹس نے ڈگریوں کی تصدیق میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ اب تک پائلٹس کی ڈگریوں کی تصدیق کیوں نہیں ہوئی۔ دوران سماعت ایم ڈی ائر بلیو نے کہا کہ وزیراعظم کو طلب کرنے پر بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سیاسی آدمی ہیں اور سیاسی لوگوں کی بریکنگ نیوز چلتی رہتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہم نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو طلب نہیں کیا۔دریں اثناءچیف جسٹس نے سانحہ12 مئی کیس کی فائل طلب کرلی۔سانحہ 12 مئی کی برسی کے موقع پر سپریم کورٹ رجسٹری میں شہداء12 مئی کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔چیف جسٹس نے بیرسٹرفیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ کیاسانحہ 12 مئی کی تحقیقات نہیں ہوئیں؟ بیرسٹرفیصل صدیقی نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ میں معاملہ زیرسماعت ہے جس پر چیف جسٹس نے 12 مئی کیس کی فائل طلب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیس نمبر دیں ہم جائزہ لیں گے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں 17اعلیٰ پولیس افسران کے خلاف انکوائری کے معاملے پر بھی سماعت ہوئی ۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 6اعلیٰ پولیس افسران کے خلاف تحقیقات مکمل کر لیں ۔ بعض افسران کے خلاف سابق ڈی جی ایف آئی اے تحقیقات کر رہے ہیں ۔ عدالت نے سابق ڈی جی ایف آئی اے شاہد حیات کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت سے طلب کر لیا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ بتایا جائے کتنے اضلاع میں تحقیقات باقی ہیں ؟،غیر قانونی بھرتیوں میں ملوث پولیس افسران کے نام سندھ حکومت کو ارسال کر دئیے گئے ہیں ۔ عدالت نے صوبائی اور وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کر لی ۔ عدالت نے سوال کیا کہ بتایا جائے کتنے پولیس افسران کے خلاف حتمی کارروائی کی گئی ؟ ۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت2ہفتے تک ملتوی کردی ۔صاف پانی کی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران میئر کراچی وسیم اختر عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیں کتنے نالے صاف ہو گئے؟ وسیم اختر نے کہا کہ کام شروع ہو گیا ہے۔ جامع منصوبہ بنا لیا ٹینڈر کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ خوشخبری کب سنائیں گے کہ کراچی گندگی سے صاف ہو گیا۔ میئر نے جواب دیا کہ 15 روز میں پیشرفت ہو جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میئر صاحب مل کر کام کرنا اور صاف ستھرا ماحول ہر شہری کا حق ہے۔ ہر کوئی اپنا حق ادا کرے۔ پی آئی اے ملازمین کو تنخواہ نہ ملنے کے معاملے پر چیف ایگزیکٹو مشرف رسول سیاں عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا معلوم ہوا ہے کہ پی آئی اے ملازمین کو تنخواہ نہیں ملی، شرم کریں، کیا آپ کو تنخواہ مل گئی، آپ کی تنخواہ 2 ملین سے زیادہ ہو گی۔ غریبوں کو کیوں تنخواہ نہیں دیتے؟ پی آئی اے کی کارکردگی رپورٹ پیش کریں۔ چیف جسٹس نے سنٹرل جیل کراچی کا دورہ کیا۔ سزایافتہ قیدیوں کے وارڈ سمیت دیگر وارڈز اور جیل کے ہسپتال کا بھی دورہ کیا۔ چیف جسٹس کچن، ہسپتال اور قیدیوں کی بیرکوں میں بھی گئے۔ کھانا کھا کر چیک کیا اور قیدیوں کی شکایات بھی سنیں۔ چیف جسٹس نے جیل حکام سے سزا کاٹنے والے قیدیوں کی رپورٹ طلب کر لی۔ چیف جسٹس نے کینسر میں مبتلاقیدی کے علاج کے بھی احکامات جاری کئے۔ چیف جسٹس نے جیل کے انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اے این این کے مطابق اس موقع پر قیدیوں نے شکایات کے انبار لگا دئے۔چیف جسٹس نے مختلف کمپنیوںکے دودھ کی جانچ جاری رکھنے کاحکم دے دیا، سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ڈبوںکی غیرمعیاری دودھ کی فروخت سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ اس موقع پرڈبے کی دودھ فروخت کرنے والی کمپنیوںکے حکام عدالت میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے سکیم ملک کے سربراہ کومخاطب کرتے ہوئے استفسارکیا آپ نے سفارش بھی کرائی تھی نا؟چیف جسٹس نے ریمارکس دئے میرے لئے سفارش صرف اللہ کی ذات ہے۔ یہ بھول جائیں گے کسی کی سفارش مانوںگایہ ہمارے بچوںکی زندگی کامعاملہ ہے کوئی سمجھوتہ نہیں کریںگے۔ اس موقع پرعدالت نے سکیم اور میلاک دودھ نہیں ہے درج کریں۔
چیف جسٹس