فیصل آباد میں انتخابی سرگرمیاں شروع !
احمد کمال نظامی
فیصل آباد میں الیکشن 2018ءکے حوالے سے انتخابی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں۔ الیکشن کمیشن جو نئی حلقہ بندیوں کا اعلان کر چکا تھا اس ہفتے نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے حتمی رپورٹ جاری کر دی گئی جس میں فیصل آباد شہر سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے نمبر تبدیل کر دیئے گئے۔ جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فیصل آباد ڈویژن کے قومی اور صوبائی حلقوں میں انتخابات کا انعقاد کرنے کے لئے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کے علاوہ تیس ریٹرننگ آفیسرز اور ساٹھ اسسٹنٹ ریٹرننگ آفیسر کا تقرر کر دیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عبدالناصر خاں کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر، قومی اسمبلی حلقوں میں این اے 101 کے لئے جمشید مبارک بھٹی ایڈیشنل سیشن جج کو ریٹرننگ آفیسر، این اے 102 جڑانوالہ کے لئے محمد نعیم سلیم، این اے 103 کے لئے تاندلیانوالہ کے لئے شہزآد حسین، این اے 104 کے لئے محمد ریاض بھٹی، این اے 105 کے لئے عامر شہباز میر، این اے 106 فیصل آباد کے لئے عدنان طارق، این اے 107 کے لئے محمد کلیم خاں، این اے 108 کے لئے ذوالفقار احمد نعیم، این اے 109 کے لئے خالد سعید وٹو اور این اے 110 فیصل آباد کے لئے خضرحیات کو ریٹرننگ آفیسر مقرر کیا گیا ہے۔ صوبائی اسمبلی کے حلقوں پی پی 97 کے لئے عبدالغفار چوہدری، پی پی 98 کے لئے احسان صابر، پی پی 99 کے لئے طلعت وحید، پی پی 100 محمد فیاض، پی پی 101 اسد عمران، پی پی 102بلال منیر، پی پی 103نذر عباس گوندل، پی پی 104سید فضل الحسن شاہ، پی پی 105مستنصر لطیف، پی پی 106محمد فرحان نبی، پی پی 107عثمان علی اعوان، پی پی 108، پی پی 109محمد امین شہزاد، پی پی 110محمد یوسف ہنجرا، پی پی 111خدایار، پی پی 112منظور احمد، پی پی 113محمد ضیاءخان، پی پی 114فاروق احمد، پی پی 115غلام مرتضیٰ ورک، پی پی 116عرفان رفیق اور پی پی 117 کے لئے کاشان محمد کو ریٹرننگ آفیسر مقرر کیا گیا ہے۔ الیکشن 2013ءاور اس سے پہلے انتخابات میں وزیرمملکت حاجی محمد اکرم انصاری کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 85 ضلع فیصل آباد کا آخری حلقہ تھا اور شہر سے قومی اسمبلی کی چار نشستوں میں بھی اس حلقہ کا نمبر آخری تھا۔ حتمی حلقہ بندی سے پہلے بھی اسے شہر سے قومی اسمبلی کا آخری حلقہ این اے 110 رکھا گیا تھا جبکہ اس ہفتے جاری ہونے والی حتمی رپورٹ میں اس حلقہ کا نمبر این اے 107 ظاہر کیا گیا ہے اور یہ فیصل آباد شہر کا قومی اسمبلی کا پہلا حلقہ ہے۔ وزیرمملکت عابد شیرعلی کے انتخابی حلقہ کا پہلا نام این اے 84 تھا، نیا نام این اے 108 ہے۔ الیکشن 2013ءمیں ایک نوجوان میاں فرخ حبیب کو چوہدری عابد شیرعلی کے مقابلے میں اتارا گیا تھا۔ وزیرمملکت رانا محمد افضل کے حلقہ این اے 82 کا نیا نام این اے 110 رکھا گیا ہے اور یہ فیصل آباد ضلع اور شہر کا آخری حلقہ ہے اور اس حلقہ میں تحریک انصاف سابق سینئر صوبائی وزیر راجہ ریاض احمد کو رانا محمد افضل کے مقابلے میں اتارنے کا پروگرام رکھتی ہے جبکہ اس حلقہ میں سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا بھی انتخابی دنگل کا حصہ ہوں گے ۔ تحریک انصاف حامد رضا اور راجہ ریاض احمد خاں دونوں میں سے کسی ایک کو پارٹی ٹکٹ دینے کے بارے میں تذبذب کا شکار ہے البتہ پیپلزپارٹی کی طرف سے فیصل آباد کے شہری حلقوں میں ابھی تک کوئی نام سامنے نہیں آیا تاہم شہر میں مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف سے پارٹی ٹکٹوں کے حصول کی خواہش رکھنے والے اپنی پارٹیوں کو پارٹی ٹکٹوں کے لئے درخواستیں دینے کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے حلقوں میں انتخابی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ جس طرح شہری قومی نشستوں کے نام تبدیل کئے گئے ہیں اسی مناسبت سے صوبائی حلقوں کی حتمی فہرست میں شہر سے پنجاب اسمبلی کی آٹھ نشستوں کے نام تبدیل کر دیئے گئے ہیں اور ان تبدیلیوں کی وجہ سے تقریباً ڈیڑھ ماہ پہلے سے شہری حلقوں کو الاٹ کئے گئے ناموں کے حوالے سے مختلف جماعتوں کی فلیکسوں اور ہورڈنگز پر امیدواروں کے کروڑوں روپے حتمی فہرست کے جاری ہونے کے ساتھ ہی ڈوب گئے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے حلقوں میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے اس بیان کو نہایت سنجیدہ لیا گیا ہے جس بیان میں انہوں نے امکان ظاہر کیا ہے کہ انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے خدشات بے وجہ نہیں ہیں۔ الیکشن 2018ءکا کوئی ایمپائر ایسا ضرور موجود ہے جو تحریک انصاف کے چیئرمین کو اندر کی خبریں دیتا رہتا ہے اور پوری قوم یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ جیسے جیسے انتخابات قریب آ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین کو مختلف طریقوں سے ”ریلیف“ پہنچایا جا رہا ہے اور بظاہر لگتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کو الیکشن کے کھیل میں ”فا¶ل پلے“ سے اقتدار سے باہر رکھنے کا منصوبہ بن چکا ہے۔ خفیہ ہاتھ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کی کامیابیوں کی رپورٹس دے رہے ہیں اور انتخابات پر اثرانداز ہونے والے خفیہ ہاتھ ملنے والے اشاروں کی روشنی میں ایمپائرنگ کرنے والوں کو ”بریف“ کرنے کی حکمت عملی بنانے میں مصروف ہیں تاکہ ووٹ کی طاقت سے سپریم کورٹ سے ملنے والی نااہلیوں کو ختم کرنے کا عزم رکھنے والوں کو انگوٹھوں کی طاقت سے اوپر آنے سے روکا جا سکے اور ”انگلی“ اٹھا کر آ¶ٹ دینے کا پروگرام غیرمحسوس انداز میں انتخابی نتائج کو بدلتا رہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک طرف سیاسی وفاداریوں کی تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری طرف تحریک انصاف کے پارٹی ٹکٹوں کے حصول کے لئے دوڑ لگی ہوئی ہے۔ میاں محمد نوازشریف ایک طرف احتساب عدالت میں اپنے اور اپنی بیٹی، بیٹوں اور داماد کے خلاف ریفرنسز اور اس کیس کے متوقع نتائج کی طرف دیکھ رہے ہیں اور دوسری طرف نہایت تیزی کے ساتھ مسلم لیگ(ن) کے انتخابی مہم کو چلانے میں مصروف ہیں۔ وہ گزشتہ روز مانسہرہ میں عوام سے مخاطب تھے تو آج پنجاب کے چھوٹے چھوٹے شہروں میں عوام کو باور کرا رہے ہیں کہ وہ پانچ برسوں کے دوران دوسرے صوبوں کے مقابلے میں پنجاب میں ہونے والے ترقیاتی کام کو دیکھیں، ان کا صادق آباد کا انتخابی جلسہ اور ایک روز پہلے جہلم کا انتخابی جلسہ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ عوام نے حکمران پارٹی کے ذریعے پنجاب کے شہروں میں ہونے والے ترقیاتی کامو ںکو پسند کیا ہے اور وہ ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ(ن) کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن کیا سابق وزیراعظم کو قوم دوبارہ اقتدار کے ایوانوں میں دیکھ سکے گی۔ الیکشن 2018ءکے نتیجے میں کس کو اقتدار میں آنا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان کہتے ہیں کسی سے اتحاد نہیں ہو گا۔ نہ الیکشن سے پہلے اور نہ الیکشن کے بعد بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف مل کر حکومت بنائیں گی۔ مخلوط حکومت کا بننا اچھنبے کی بات نہیں ہوتی۔ 1993ءکے انتخابات کے بعد پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے ارکان کی تعداد کم و بیش برابر تھی۔ جونیجو لیگ کے پاس پنجاب اسمبلی میں صرف پندرہ ارکان تھے لیکن مسلم لیگ(ن) کو صوبے کے اقتدار سے باہر رکھنے کے لئے پیپلزپارٹی نے میاں منظور احمد وٹو کو وزیراعلیٰ بنا لیا تھا۔ سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن میں پوری قوم نے تحریک انصاف کو مسلم لیگ(ن) اور اس کے اتحادیوں کے نامزد امیدواروں کے خلاف آصف علی زرداری کے نامزد امیدواروں کو ووٹ ڈالتے دیکھا اگر اقتدار کی بساط بچھانے اور اقتدار کا نقشہ بگاڑنے والے خفیہ ہاتھ عمران خان کو ایوان بالا کی چیئرمین شپ اور ڈپٹی چیئرمین شپ کے لئے آصف علی زرداری کے امیدواروں کے پیچھے کھڑا کر سکتی ہے تو پھر آصف علی زرداری نے الیکشن 2018ءکے بعد بننے والی حکومت کے حوالے سے بالکل درست بتا دیا ہے کہ پیپلزپارٹی آئندہ وفاق میں تحریک انصاف کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گی۔ عمران خان، زرداری کے ساتھ ہاتھ نہ ملانے کے حوالے سے اپنا جو بھی موقف اختیار کریں۔ کراچی میں 12مئی کو حکیم سعید شہید پارک میں جلسہ کرنے کے حوالے سے دونوں پارٹیوں میں کتنا بھی خون خرابہ ہو، بلاول بھٹو زرداری، عمران خان اور میاں محمد نوازشریف کو ایک دوسرے جیسی سیاست کرنے کی بات جتنی بھی اونچی آواز میں کہیں اور طعنہ دیں کہ وہ دونوں ایک طرح کے ہیں۔ دونوں کو عوام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ میاں محمد نوازشریف اور عمران خان کے طرز حکومت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ وہی فرق ہے جو 29اپریل کو لاہور کے جلسہ میں خیبر پی کے سے آئے ہوئے ہزاروں افراد نے دیکھا۔ مسلم لیگ(ن) کا پنجاب ترقیاتی کاموں سے نکھرا ہوا ہے اور تبدیلی کا نعرہ لگا کر حکومت کرنے والوں کے خیبر پی کے کی سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کو اس امر کا یقین ہو چکا ہے کہ سینٹ کی چیئرمین شپ اور ڈپٹی چیئرمین شپ کے لئے ”اوپر“ کے حکم سے ووٹوں کا استعمال کرنے والے ان کا راستہ روکنے کے لئے ان کے مخالفوں کو اکٹھا کر کے ان کار استہ روکنے کا اہتمام کر چکے ہیں۔ انہوں نے درست کہا ہے کہ سر جھکانے سے انکار پر کچھ لوگ ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے یہ بات بھی بالکل بجاطور پر کہی ہے کہ عمران خان جو اسلام آباد میں دھرنا دے کر ایمپائر کی انگلی اوپر اٹھنے کی امید میں پارلیمنٹ کے باہر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک مطالبہ کر رہے تھے کہ میاں محمد نوازشریف استعفیٰ دیں۔ انہوں نے انہیں ووٹ سے اقتدار سے باہر نکالنے کا انتظار نہیں کیا اور چور دروازے سے ووٹ کی طاقت پر ”نااہلی“ کی چھاپ لگوا دی۔ وہ لاکھ کہیں ”زرداری سب سے بڑی بیماری“ لیکن پوری قوم دیکھ رہی ہے کہ ان دونوں کی سیاست کی ڈور کہیں اور سے ہل رہی ہے اور وہ لوگ جو ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں وہ سیاست میں عدم رواداری کی فضا پیدا کر رہے ہیں۔ عمران خان اور زرداری کیا اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ وفاقی وزیرداخلہ پر قاتلانہ حملہ کن عوامل کا نتیجہ ہے اور سیاست میں اتنا زہر کیوں آیا ہے کہ اس وقت سب ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ سیاست میں اختلافات ہوتے ہیں، نفرتیں نہیں ہوتیں۔ کراچی میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے جنون اور جیالے پن میں تصادم ہوا۔ احسن اقبال پر انتخابی جلسہ سے نکلتے وقت گولی چلائی گئی۔ زخمی احسن اقبال کو پھولوں کا گلدستہ عمران خان نے بھی بھجوا دیا۔ اس قاتلانہ حملے کی مذمت بلاول بھٹو زرداری نے بھی کر دی، کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ سیاست دان ملک کے سیاسی مسائل کو باہم مشاورت سے حل کریں۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے لہجے میں جو کڑواہٹ ہے اس کی وجہ سامنے نظر آتی ہے لیکن عمران خان کی زبان میں ہر سیاسی حریف کے لئے گالی کیوں ہے۔ آصف علی زرداری جو سیاسی مفاہمت کے لئے خصوصی شہرت رکھتے تھے وہ میاں محمد نوازشریف کے خلاف تیروں کی بارش کیوں کر رہے ہیں۔ اگر الیکشن 2008ءسے پہلے لیاقت باغ کے انتخابی جلسہ سے نکلتے وقت ایک گولی لگنے کے نتیجے میں ہسپتال پہنچنے پر سب سے پہلے وہاں میاں محمد نوازشریف کے پہنچنے، بے نظیر بھٹو انکم پروگرام بحال رکھنے، الیکشن 2018ءکے بعد میثاق جمہوریت کے احترام میں مسلم لیگ(ن) کے پیپلزپارٹی کے ساتھ وفاق اور پنجاب میں مخلوط حکومت بنانے کے سیاسی کلچر کے فروغ سے ہٹ کر باہمی نفرت اور ایک دوسرے کو گالی کی سیاست کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ میاں محمد نوازشریف کو عدالت نے نااہل کیا ہے۔ وہ برسوں قومی اسمبلی کے قائد ایوان رہے۔ قائد حزب اختلاف بھی رہے۔ کیا اب سیاست دانوں کے متعلق اس قسم کے فیصلے پارلیمنٹ کو نہیں کرنے چاہئیں۔ میاں محمد نوازشریف جب یہ کہتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو تو وہ پارلیمنٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مشورہ ہے کہ ملک کے صف اول کے تمام سیاست دان میاں محمد نوازشریف، عمران خان، آصف علی زرداری، میاں محمد شہبازشریف، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمن، سراج الحق، اسفند یار ولی، محمود خاں اچکزئی، چوہدری نثار علی خاں، شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین یہ سب رمضان شریف سے پہلے کسی ایک جگہ بیٹھ کر سیاسی اختلافات کے لئے باہمی اخلاقیات طے کر لیں اور الیکشن 2018ءسے پہلے سیاست دانوں کی سلامتی اور ملک کی بقاءکے لئے ایک دائرہ آدرش و اقتدار طے کر لیا جائے تاکہ گولی اور گالی کو سیاسی کلچر سے نکال باہر کیا جائے۔
جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی راہیں جدا ہو چکی ہیں امیر جماعت اسلامی سراج الحق جب سے پانامہ کیس میں 450 کے لگ بھگ افراد کے نام آئے ہیں مسلسل دہائی دے رہے ہیں کہ ان سب کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان کو نوٹس لینا چاہیے اور اسی طرح 70سالوں کے دوران جن بیوروکریٹ، صنعت کاروں، سیاست دانوں نے اربوں کروڑوں روپے کے قرضے لے کر ہڑپ کئے اور انہیں معاف کروایا انہیں بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ حقیقی معنوں میں احتساب ہو سکے اور عوام میں جو رائے بنتی جا رہی ہے اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت یہ تاثر دے رہی ہے کہ ہمیں الیکشن سے آ¶ٹ کرنے اور دیوار سے لگانے کے لئے احتساب کے نام پر انتقام لیا جا رہا ہے۔ سینیٹر سراج الحق جب سے پانامہ کیس آیا وہ مسلسل کہہ رہے تھے کہ نوازشریف سمیت تمام حکمرانوں اور سیاست دانوں کا احتساب ہونا چاہیے مگر ایسا احتساب ہو کہ جس پر انگلیاں نہ اٹھائی جا سکیں اور 450پانامہ میں آنے والے افراد کو کٹہرے میں لایا جائے۔ اب وہ سینٹ کے انتخابات پر کہہ رہے تھے کہ انہیں کے پی ‘کے وزیراعلیٰ نے دریافت کرنے پر کیا آپ نے پیپلزپارٹی کے امیدوار کو کیوں ووٹ دیا یہ کہا تھا کہ اوپر سے حکم آیا تھا جبکہ جب وزیراعلیٰ سرحد سے صحافیوں نے دریافت کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ اوپر یعنی بنی گالا سے تھی یعنی انہوں نے کہا کہ عمران خان کا حکم تھا مگر سینیٹر سراج الحق یہ ماننے کے لئے تیار نہیں وہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ اوپر سے یعنی بالائی مخلوق کا حکم تھا۔ جونہی انتخابات کا زمانہ قریب سے قریب تر آ رہا ہے 2013ءکے انتخابات کی طرح ملک کی دینی جماعتوں نے ایک مرتبہ پھر متحدہ مجلس عمل کی بحالی نے ثابت کر دیا ہے۔ متحدہ مجلس عمل نے دوبارہ جنم لیا تھا اور جمعیت علماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو متحدہ مجلس عمل کی سربراہی کا تاج سر پر رکھ دیا گیا تھا اسی روز میا ںمحمد نوازشریف نے اپنے مخالفین کی چوکیوں کو ہی مسمار نہیں کر دیا تھا بلکہ ان کے قلعہ کی دیواروں کو بھی شکستہ کر دیا تھا۔ صوبہ خیبر پی کے میں جماعت اسلامی، تحریک انصاف کی اتحادی تھی لیکن جونہی ایم ایم اے نے جنم لیا یہ اتحاد پارہ پارہ ہو گیا۔ اب تحریک انصاف کے مینار پاکستان لاہور پر جلسہ کے بعد متحدہ مجلس عمل اپنی عوامی قوت کا مظاہرہ ہی نہیں کرےگی بلکہ تحریک انصاف کے جلسہ کاجواب دےگی۔ متحدہ مجلس عمل اور جماعت اسلامیکے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ نے فیصل آباد میں اپنے دورہ کے دوران مختلف وفود سے دوران ملاقات کہا ہے کہ انتخابات میں تاخیر ملک و قوم کے مفاد میں نہیں اور ایم ایم اے 13مئی کا لاہور میں جلسہ دین بیزار قوتوں کے خلاف اعلان جنگ ثابت ہو گا اور جو لوگ مختلف جواز پیش کرتے ہوئے انتخابات کو چند ماہ التوا کی بھینٹ چڑھانے کی باتیں کر رہے ہیں دراصل وہ انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کررہے ہیں۔ پاکستان الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بروقت انتخابات کے انعقاد کی تیاری کرے بلکہ اس کے شیڈول کا اعلان بھی کرے جبکہ لیاقت بلوچ نے مقامی متحدہ مجلس عمل کے رہنما¶ں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں دوٹوک الفاظ میں کہا کہ متحدہ مجلس عمل حقیقی تبدیلی کی علمبردار ہے اور سیاسی مداریوں کو دولت کے بل بوتے پر جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کرنے دیں گے۔ مارشل لائ، عدالتی مارشل لاءمسائل کا حل نہیں ہے اور نہ ہی جوڈیشل مارشل لاءکی کسی سازش کو کامیاب ہونے دیں اور انتخابات آئین میں دیئے گئے ٹائم فریم کے مطابق بروقت ہونے چاہئیں۔ اس کے ساتھ ہی مرکز اور صوبوں میں بروقت عبوری حکومتوں کا قیام عمل میں لایا جائے جبکہ جمعیت علماءاسلام کے مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا ہے کہ عمران خان نے مینار پاکستان پر جو جلسی کی تھی 13مئی کو مینار پاکستان پر ہونے والا اجتماع ثابت کرے گا کہ جلسہ کسے کہتے ہیں اور جلسہ کیا ہوتا ہے۔ اس میں جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ، جمعیت علماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور ایم ایم اے میں شامل دیگر جماعتوں کے لیڈر وہی بیانات دے رہے ہیں اور وہی لہجہ اختیار کر رہے ہیں جو مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں محمد نوازشریف کر رہے ہیں۔ مفہوم اور مقاصد ایک ہوتے ہیں صرف الفاظ کی تلخی اور شیرینی کا فرق ہے۔ اس وقت سیاسی طور پر ملک میں تین بڑی سیاسی قوتیں آپس میں دست و گریبان دکھائی دیتی ہیں ان میں مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی ہیں۔ باقی جماعتیں تو ان تینوں قوتوں کے ذیلی ادارے ہیں۔ پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں جو بھی جمہوری حکومتیں آئیں ہر ایک نے ملکی ترقی اور عوام کے لئے بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے سبزباغ دکھائے اور اپنے منشور کا اہم حصہ بنایا لیکن سب زبانی کلامی دعو¶ں پر عملدرآمد کبھی ہوا۔ اس کا اندازہ بین الاقوامی درجہ بندی کے مختلف اشاریئے مثلاً غربت کی لکیر، خواندگی، انسانی ترقیاتی اشاریئے، برآمدات، بجٹ کے خسارے اور کاروباری سہولتیں فراہم کرنے کے دعوے حکمرانوں کو شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ملک پر مسلط جاگیردار طبقہ جو شروع سے ہی اقتدار پر قابض ہے لیکن وقت کے ساتھ ایک تبدیلی ضرور آئی کہ جاگیردار طبقہ اور سرمایہ داروں نے اپنے اپنے مفادات کے لئے باہمی اتحاد کر لیا اور یہ ایک مضبوط اور طاقتور قوت کے طور پر عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح آپس میں تقسیم کرتے ہوئے حکمرانی کے تخت پر فائز چلے آ رہے ہیں اور ہم پورے دعویٰ اور وثوق سے یہ بات کہتے ہیں کہ پاکستان میں صحیح معنوں میں کوئی سیاسی جماعت ہے اور نہ مذہبی ہے سبھی نے اپنے اپنے سائن بورڈ آویزاں کئے ہوئے ہیں۔ ایم ایم اے ہو یا کوئی اور مذہبی اتحاد یہ مداریوں کا ایک گروہ ہے جو شخصی بنیادوں پر قائم سیاسی جماعتوں کے بچہ جمورا کا کردار بڑی خوبصورتی سے ادا کرتے ہیں لیکن کوئی لاکھ اختلاف کرے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 2018ءکے انتخابات کسی منشور پر نہیں ہو رہے بلکہ اس بار ایجنڈا ہی اور ہے اور وہ ایجنڈا ہے جس کی طرف لیاقت بلوچ نے اشارہ کیا ہے کہ مارشل لاءیا جوڈیشل مارشل لاءقبول نہیں اور نہ اس سازش کو کامیاب ہونے دیں گے۔ میاں محمد نوازشریف جو پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ ان کا مقابلہ آصف علی زرداری اور عمران خان سے نہیں ہے بلکہ خلائی مخلوق سے ہے۔ ان کا اشارہ دراصل انتخابات کے نام پر ایسی حکومت کے قیام کی طرف ہے جس کی تاریں خلائی مخلوق کے ہاتھ میں ہوں گی۔ ایم ایم اے میاں محمد نوازشریف کے اس موقف کے ساتھ خود کو کھڑی کر چکی ہے اور اب میاں محمد نوازشریف کا بیانیہ اکیلے میاں محمد نوازشریف کا بیانیہ نہیں بلکہ فضل الرحمن، لیاقت بلوچ، سراج الحق، ساجد میر اور دیگر اتحادی قوتوں کا بھی یہی بیانیہ ہے اور حیران کن بات ہے کہ کرپشن جو ام الامراض کا درجہ رکھتی ہے اس بیانیہ نے کرپشن کے خاتمہ کے عوامی نعرہ کو یوں پس پشت ڈال دیا ہے جیسے مکھن سے بال نکالا جاتا ہے۔ یہ تو ابتداءہے اور متحدہ مجلس عمل نے میاں محمد نوازشریف کو اور بھی طاقتور بنا دیا ہے۔ ہم اپنی بات اس جملہ پر مکمل کرتے ہیں کہ سیاست دانوں کے بیانئے کچھ بھی ہوں لیکن پارلیمانی نظام جمہوریت ایک ایسے ملک میں کام نہیں کر سکتا جہاں خواندگی کی سطح کم ہو اور جہاں جاگیردار، سرمایہ دار اور ملائیتی نظام قومی سیاست پر قابض ہو اور نفرتوں کا جو بیج اس وقت سیاست دان اپنے ہی سیاست دانوں کے خلاف بو رہے ہیں۔ یاد رکھئے کہ انہیں کانٹا بھی پڑے گا اور آج کل سیاست دانوں کی عزتوں اور زندگیوں پر جو حملے ہو رہے ہیں وہ ہمیں اشارہ دے رہے ہیں کہ ابھی وقت ہے مخالفت ذاتیات تک نہ پہنچ جائے۔کہیں حالات ایسے پیدانہ ہو جائیں کہ بروقت انتخابات کا انعقاد ممکن نہ رہے ۔