جاوید ہاشمی کی ’’واپسی‘‘
دوچار برس کی بات نہیں یہ نصف صدی کا قصہ ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی سے میری دوستی پانچ عشروں پر محیط ہے، پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا تھا ان سے طویل عرصہ سے ’’دوستی‘‘ قائم رکھنا ایک میری زندگی کا سرمایہ ہے سیاست کا گرم سرد موسم ان سے دوستی پر کبھی اثر انداز نہیں ہوا۔ وہ اپنی افتاد طبع کے باعث ’’باغیانہ مزاج‘‘ رکھتے تھے ان کا شمار پاکستان کے ان سیاسی لیڈروں میں ہوتا جن کی سیاست کا طرہ امتیاز ’’جیل یاترا‘‘ ہے آغا شورش کاشمیری فخریہ انداز میں جیل یاترا کا ذکر کرتے تھے اور وہ جیل کو عجلہء عروسی سے کم نہ سمجھتے تھے، کچھ ایسی ہی کیفیت مخدوم جاوید ہاشمی کی ہے جن کی سیاسی زندگی کا ایک بڑا حصہ جیل میں گزر گیا انہوں نے جس جرات و استقامت سے جیل گذاری وہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک حصہ ہے یہی وجہ ہے انہیں ’’اک بہادر آدمی، ہاشمی ہاشمی‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کی پوری زندگی وقت کے ’’فرعونوں اور آمروں‘‘ سے لڑتے لڑتے گذری ہے ان کی زندگی کا کچھ عرصہ ایک فوجی آمر کے ساتھ گذرا وہ اس پر آج بھی شرمندہ ہیں ان کو اس بھی زیادہ ملال اس بات پر رہا انہوں نے میاں نواز شریف جیسی محبت کرنے والی شخصیت کو چھوڑ کر ایک ایسی جماعت میں کیوں شامل ہو گئے جو ان کے نظریات اور سوچ سے متصادم تھی وہ کم و بیش تین سال تک تحریک انصاف میں ’’قید ‘‘ رہے اس جماعت میں ان کا ایک دن بھی نہ لگا۔ جب انہوں نے 2014ء کے ناکام دھرنے کے موقع پر تحریک انصاف کو خیرباد کہا تو انہوں نے ’’جوڈیشل مارشل لائ‘‘ کا بھانڈہ پھوڑ کر عمران خان کے سیاسی عزائم خاک میں ملا دئیے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے راقم السطور سے ایک ملاقات میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ’’مسلم لیگ (ن) کی حکومت بچانے میں جن 4 عوامل نے مدد کی ان میں مخدوم جاوید ہاشمی کا بروقت ’’سکرپٹ‘‘ کو ایکسپوز کرنا تھا، سپریم کورٹ نے مخدوم جاوید ہاشمی کو بلایا اور نہ ہی کسی نے ان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی۔ پھر وقت نے ثابت کر دیا کہ مخدوم جاوید ہاشمی جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ حقیقت پر مبنی ہے مخدوم جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے کے بعد جب قومی اسمبلی میں خطاب کیا تو وہ اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکے اور کھلم کھلا اس بات اعتراف کیا کہ میاں نوازشریف پہلے بھی ان کے لیڈر تھے اور آج بھی ان کے لیڈر ہیں۔
’’کپتان ‘‘ مخدوم جاوید ہاشمی کی اس جرات رندانہ کو برداشت نہ کر سکے اور اس ’’جرم‘‘ پر ان کو ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کے منصب سے ہٹا دیا۔ مخدوم جاوید ہاشمی جتنے عرصہ تحریک انصاف میں رہے ان کے دل سے میاں نوازشریف کی محبت اور مسلم لیگ (ن) نہ نکل سکی۔ مخدوم جاوید ہاشمی پچھلے3، 4سال تک مضطرب کیفیت میں رہے مخدوم رشید میں اس بات کے منتظر رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ان کو دوبارہ سینے سے نہیں لگایا کچھ عرصہ قبل پنجاب ہائوس میں میاں نوازشریف کی درخواست پر ان کی ملاقات ہوئی اس موقع پر مریم نواز نے ان کو گھر واپس آنے پر خیر مقدم کہا لیکن مخدوم جاوید ہاشمی کی مسلم لیگ (ن) میں دوبارہ شمولیت کی کوئی صورت نہیں نکلی جب میاں نوازشریف نے11مئی2018ء کو ملتان میں جلسہ عام سے خطاب کرنے کا پروگرام بنایا تو اس موقع پر مخدوم جاوید ہاشمی کی شمولیت کے اعلان کا اہتمام کیا گیا۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنی تقریر میں کہا کہ’’ان کے اندر سے مسلم لیگ (ن) نکلی کب تھی وہ جہاں بھی تھے مسلم لیگی ہی رہے‘‘ انہوں نے ملتان میں بڑے جلسہ عام میں نواز شریف کی قیادت میں کام کرنے کے عہد کا اعادہ کیا انہوں نے کہا کہ میاں نوازشریف میرے لیڈر تھے اور رہیں گے۔ نوازشریف کے ساتھ ہمیشہ کھڑا رہوں گا انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی اولاد کو وصیت کر رکھی ہے کہ مجھے مسلم لیگ کے پرچم میں سپرد خاک کیا جائے۔ شاید ان کے اس مزاج کی وجہ سے ہی ان کو اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ قید وبند کی صعوبتوں میں گذارنا پڑا مخدوم جاوید ہاشمی کا جماعت اسلامی سے تحریک انصاف اور اب مسلم لیگ (ن) تک کے سیاسی سفر میں کئی طوفان آئے لیکن انہوں نے ہمیشہ حق و صداقت کا پرچم مضبوطی سے تھامے رکھا ان کا سب سے زیادہ وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) میں گذرا ہے تحریک انصاف میں عمران خان کے بعد دوسرا بڑا عہدہ ہونے کے باوجود ان کا ایک دن بھی اس جماعت میں سکون سے نہیں گذرا لٰہذا انہوں نے تحریک انصاف میں مضطرب شخص کی طرح وقت گذارا۔ انہیں سب سے زیادہ عزت و توقیر بھی مسلم لیگ (ن) میں ملی نوازشریف کی جلاوطنی کے ایام میں قائم مقام صدر کی حیثیت سے پارٹی کا وجود قائم رکھا لیکن جب انہوں نے محسوس کیا کہ پارٹی میں ان کی عزت و توقیر میں کمی آگئی ہے تو دل برداشتہ ہو کر ان لوگوں کے ساتھ جا بیٹھے جن کے پاس عام حالات میں جانا پسند نہ کرتے مخدوم جاوید ہاشمی جو پارٹی کے قائم مقام صدر تھے ان کی ’’ناراضی‘‘ ملتان کا ایک حلقہ انتخاب نہ دینے سے ہوئی دوسری وجہ یہ تھی وہ اپنے آپ کو میاں نوازشریف کے جتنا قریب سمجھتے تھے ان کو پارٹی قیادت نے قدرے فاصلے پر رکھ کر جب ’’سیاسی تنہائی‘‘ کا احساس دلایا تو وہ بھرا میلہ چھوڑ کر تحریک انصاف کا حصہ بن گئے۔ میاں نواز شریف اور مخدوم جاوید ہاشمی کے درمیان مدینہ منورہ کے ’’اوبرائے ہوٹل‘‘ میں ہونے والی گفتگو کا غم بھی مخدوم جاوید ہاشمی کو اندر سے کھائے جاتا رہا جس میں انہوں نے مخدوم جاوید ہاشمی سے کہا تھا کہ اگر وہ چھوڑ گئے تو ان کا کیا بگاڑ لیں گے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے اس روز مسلم لیگ (ن) کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا جب وہ میاں نوازشریف کے ہمراہ لاڑکانہ سے لاہور واپس آئے تو لاہور ایئرپورٹ پر میاں نوازشریف اصرار کر کے ان کو گاڑی تک الوداع کرنے آئے تو گاڑی کا شیشہ اتار کر مخدوم جاوید ہاشمی نے میاں نوازشریف کو مخاطب ہو کر کہا ’’میاں صاحب! آپ کو ہمیشہ کے لئے الوداع‘‘۔ بظاہر مخدوم جاوید ہاشمی کا چلے جانا، چوہدری نثار علی خان کا ناراض ہو کر بیٹھ جانا معمولی بات نہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی تو کچھ دیر بعد مسلم لیگ (ن) میں آئے چوہدری نثار علی خان کا شمار مسلم لیگ (ن) کے بانیان میں ہوتا ہے اسی لئے وہ برملا یہ بات کہتے کہ انہوں نے بھی میاں نوازشریف اور مسلم لیگ (ن) کا بڑا ’’سیاسی بوجھ اٹھایا ہے مخدوم جاوید ہاشمی کی مسلم لیگ (ن) سے علیحدٰگی پر جہاں مسلم لیگی کارکن رو پڑے، وہاں ان کے دوست بھی پریشان ہوئے۔ اسی طرح میں نے چوہدری نثارعلی خان اور میاں نوازشریف کے درمیان پائے جانے فاصلوں سے ہر مسلم لیگی کو مضطرب پایا ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے پارٹی میں بے پناہ عزت دی جس رات شریف خاندان سعودی عرب جلاوطن کیا جا رہا تھا اس رات میاں نواز شریف نے پارٹی کی صدارت کا تاج مخدوم جاوید ہاشمی کے سر سجا دیا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں شریف خاندان کا کس قدر اعتماد حاصل تھا وہ نوازشریف اور شہباز شریف کی جلاوطنی کے ایام میں قائم مقام صدر کی حیثیت سے پارٹی کے سیاہ سفید کے مالک رہے لیکن جب میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف وطن واپس آ گئے تو لا محالہ پارٹی میں ان کی اہمیت میں قدرے کمی آ گئی پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) 2008کے انتخابات کے نتیجہ میں برسر اقتدار آنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کا حصہ بنی تو مخدوم جاوید ہاشمی نے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف سے حلف لینے سے انکار کر کے پارٹی کے فیصلے سے بغاوت کی اسی طرح جب پاکستان مسلم لیگ (ن) اپوزیشن بنچوں پر جا بیٹھی تو میاں نوازشریف نے اپوزیشن لیڈر کا تاج چوہدری نثار علی خان کے سر سجا دیا بظاہر مخدوم جاوید ہاشمی نے اس فیصلے پر ناراضی کا اظہار نہیں کیا لیکن انہوں نے میاں نوازشریف کے اس فیصلے کو دل سے قبول نہیں کیا انہوں نے کبھی بھی اپنے آپ کو اپوزیشن لیڈر کے ڈسپلن میں نہیں سمجھا انہوں نے کبھی چوہدری نثار علی خان کو اپنے دل سے لیڈر تسلیم نہیں کیا پچھلے دنوں میڈیا کے کچھ لوگوں نے مخدوم جاوید ہاشمی اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان لڑائی کرانے کی کوشش کی تو مخدوم جاوید ہاشمی کو جلد احساس ہو گیا کہ اس بے مقصد لڑائی سے کوئی اور فائدہ اٹھا رہا ہے تو انہوں یک طرفہ سیز فائر کر دیا۔ مخدوم جاوید ہاشمی اپنی جماعت میں واپس آگئے ہیں مسلم لیگ (ن) کے جلسوں میں ایک بار پھر بہادر آدمی ’’ہاشمی ہاشمی‘‘ کے نعروں کی گونج سنائی دینے لگے گی نوازشریف مخدوم جاوید ہاشمی کے جراء ت مندانہ کردار کے معترف ہیں اور وہ سمجھتے ہیں اس وقت ان کو ایسے مسلم لیگی لیڈروں کی ضرورت ہے جو ان کے اڈیالہ جیل جانے کے بعد پارٹی کے ساتھ کھڑے رہیں میاں نوازشریف نے مخدوم جاوید ہاشمی کو اپنے سینے سے لگا لیا ہے اب انہیں آگے بڑھ کر اپنے 35سالہ ساتھی چوہدری نثار علی کو بھی سینے سے لگا لینا چاہیے جو کچھ ’’عاقبت نا اندیش‘‘ لوگوں کی ریشہ دوانیوں کے باعث پارٹی کے امور سے الگ تھلگ بیٹھ گئے ہیں مخدوم جاوید ہاشمی ایسے لیڈر ہیں جو نہ صرف اپنے مخالفین سے پنجہ آزمائی کرتے ہیں بلکہ ان کو پسپائی پر مجبور کر دیتے ہیں چوہدری نثار علی خان کے پایہ کے لیڈر کسی جماعت کا سرمایہ ہوتے ہیں لہذا میاں نوازشریف کو اپنے ناراض ساتھیوں کو قریب تر کرنے کے لئے ’’انا‘‘ کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیے۔
٭٭٭٭٭