ابھی گوجرانوالہ میں گندگی کا راج ہے
منصور آفاق شعرو ادب کے آدمی ہیں۔ ان کے مسائل کچھ انہی سے خاص ہیں۔ پچھلے دنوں شائع ہونے والے ان کے ادبی کالم کا عنوان تھا ’’شہر غزل کی بلدیہ متوجہ ہو‘‘۔ ہم لوگوں کے مسائل کچھ اور طرح کے ہیں۔ ہمیں اپنے شہر گوجرانوالہ کی بلدیہ کے میئر کی توجہ چاہئے تھی۔ سو میرے دوست حاجی ٹیپوسلطان نے اپنی گاڑی کے ڈرائیور کو مقامی میئر شیخ ثروت اکرام کے ہاں مڑنے کی ہدایت کر دی ۔ میئر ہائوس میں ایک تنو مند کتے اور ایک مریل سے ملازم نے ہمارا سواگت کیا۔ پالتو کتوں کو ہمارے ہاں عام انسانوں سے بہتر خوراک میسر ہے۔ اسی لئے ان کی صحت عام آدمیوں سے بہتر ہوتی ہے ۔ ہم اپنے میئر کے ہاں کوڑے کا ایک ڈھیر اٹھوانے کی فرمائش لیکر پہنچے تھے ۔ انہوں نے یہ سنتے ہی اپنی بے بسی بتا دی ۔ بولے! ہمارے پاس کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کوئی بندوبست نہیں۔کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ حاجی ٹیپو انہیں ایک ویڈیو دکھانے لگے، جس میں آر پی او ہائوس کی دیوار سے کوڑے کا ڈھیرا ٹھوایا جا رہا تھا۔ میئر یہ دیکھ سن کر چپ سے ہو رہے ۔اب وہ یہ تو کہنے سے رہے کہ یہ تو آر پی او ہائوس ہے ۔ انہیں اعداد و شمار ازبر تھے ۔ وہ بتانے لگے کہ میرے شہر میں ڈیڑھ ہزار ٹن کے لگ بھگ ہر روز کوڑا کرکٹ پیدا ہوتا ہے ۔ اس میں چار پانچ سو ٹن گوبر بھی شامل ہے ۔ میں سوچنے لگا ۔ ہم پہلے ہی گوالوں کو شہر سے باہر منتقل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی جانب سے شہر گوجرانوالہ میں ایک گجر امیدوار قومی اسمبلی کے آنے کا امکان دکھائی دے رہا ہے ۔ اگر ایسا ہوا ،پھر تو گجروں کے ان جانوروں کو شہر میں رہنے کا’’ آئینی‘‘ حق مل جائیگا۔ پھر شاید جانور بھی کچھ بڑھ جائیں اور اس طرح ان کا گوبر بھی ۔ مجھے اپنے میئر کے چہرے پر بے پناہ بے بسی دیکھ کر لندن کا میئر یاد آگیا۔لندن کے میئر صادق خاں نے برطانوی وزیر اعظم تھریسامے پر لندن کو غیر محفوظ بنانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا۔ ’’آپ ناکام ہو گئی ہیں‘‘۔ ہمارے میئر اپنے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ تو درکنار یہ جملہ خود کوبھی سوتے میں نہیں کہہ سکتے ۔ نا اہلی سے اگلا مرحلہ استعفے کا آتا ہے ۔ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا ہمارے ہاں’’ غیر مردانہ ‘‘سا فعل سمجھا جاتا ہے ۔ یہاں ہر قیمت پر اپنے عہدے سے چمٹے رہنا ہی بہادری کی علامت ہے ۔ وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف بڑے کام کے آدمی ہیں۔ ہر دم کام میں جُتے رہتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ کرتے بناتے رہتے ہیں۔ اس مرتبہ انہوں نے پنجاب میں پچاس کے قریب کمپنیاں بنائیں۔ گوجرانوالہ سالڈ ویسٹ کمپنی بھی وزیر اعلیٰ کی بنائی ہوئی انہی کمپنیوں میں سے ایک ہے ۔آپ پوچھیں گے کہ ان کمپنیوں کی کوئی افادیت؟ جناب من !کیا کوئی افادیت ضروری ہے ؟ سب سے پہلے اس سالڈ ویسٹ کمپنی میں بھاری تنخواہ پر ایک ایم ڈی ڈاکٹر عطاء الحق کو رکھا گیا۔پھر بھاری مشاہروں پر اور بھی ڈھیر سارا عملہ ڈھونڈا گیا۔شاندار دفتر بنائے گئے ۔ ان کے پاس تین ارب اڑتالیس کروڑ کے فنڈز تھے۔کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کیلئے کوئی زمین نہیں خریدی گئی ۔ کوڑاکرکٹ اٹھانے کیلئے کوئی مشین بھی نہ خریدی گئی ۔ بار برداری کیلئے گاڑیاں بھی نہ خریدی گئیں۔افسروں کیلئے گاڑیاں ؟ ان کی خریداری کون روک سکتا ہے ؟ اسطرح سارے فنڈخرد برد ہو گئے ۔ گوجرانوالہ بہت صاف شہرپہلے بھی نہیں تھا لیکن اتنا گندا بھی نہیں تھا۔ پھرتو شہر میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگ گئے ۔ بعض سڑکوں پر یہ ڈھیر ٹریفک میں بھی رکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں۔ اس ’’سڑی سیاپا‘‘ پر سب سے جاندار عوامی احتجاج مقامی صحافی اور چیئرمین ڈاکٹر عمر نصیر نے کیا۔ انہیں بھی اپنی یونین کونسل کے کوڑے کرکٹ سے بھر جانے پر اعتراض تھا۔ ان کا احتجاج کامیاب ثابت ہوا۔ ان کی یونین کونسل خاصی صاف ہو گئی ۔ حسد کرنے کی ضرورت نہیں ۔ چند ہی روز میں وہاں بھی دوبارہ کوڑے کے ڈھیر لگ جائیںگے ۔ پچھلے دنوںڈی سی روڈ انڈر پاس کے قریب چند منچلے ایک بھینس پکڑ لائے ۔ بھینس کے گلے میں تختی لٹکائی گئی ۔ تختی پر لکھا تھا’’تین وفاقی وزراء کے شہرگوجرانوالہ کا کوئی پرسان حال نہیں۔ گندگی اٹھائو ۔ شہر بچائو ‘‘۔ انہیں کہیں سے سپیروں والی بین تو نہ مل سکی ۔ انہوں نے بھینس کے آگے رانجھے والی بانسری بجا بجا کر تصویریں بنوالی ہیں ۔ تصویر کے پس منظر میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر بھی نمایاں ہیں۔ اخبارات میں شائع ہونے والی یہ تصویر دیکھ کر میں سوچ رہا ہوں ، جیتنا ہارنا بعد کا مرحلہ ہے ۔آنے والے الیکشن میں اس ن لیگی شہرمیںتینوں ن لیگی وزیراپنی انتخابی مہم شروع کیسے کریں گے ؟ کیا وہ اپنی انتخابی تقریریں ان کوڑے کے ڈھیروں پر کھڑے ہو کر کیا کریں گے ؟لدھیوالہ سے میاں طارق محمود سوشل میڈیا پر لمبی ہانک کر اب میدان سے یونہی پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ ہمت کریں ۔ کامیابی ان کی منتظر کھڑی ہے ۔ ملتان سے ایک عرصہ سے آواز آرہی تھی ۔ ’’اسیں باغی تخت لاہور دے ‘‘۔ اب انہوں نے تخت لاہور کی غلامی سے جان چھڑوانے کا بندوبست کرلیا ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ اب گوجرانوالہ بھی ن لیگی شہر نہیں رہا۔اب اس ن لیگی شہر میں بھی ن لیگ کی بجائے گندگی کا راج ہے ۔ شیخ ثروت اکرام کو کارپوریشن میں شیخ برادری کی اکلوتی نشست کے باوجود میئرشپ بخشی گئی ۔ بخشنے والوں کو2018ء کے الیکشن میں شیخ برادری کے ووٹوں سے غرض تھی ۔اب شیخ عامر رحمان کے تحریک انصاف کے ایم پی اے کے امیدوار بننے کی صورت میں شیخ برادری تحریک انصاف کے ساتھ جا رہی ہے ۔ تدبیر کنند بندہ ‘تقدیر کنند خندہ۔ پچھلے دنوں گوجرانوالہ سالڈ ویسٹ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس ہوا۔ یہ لوگ کوڑا کرکٹ اٹھانے کیلئے مشینری کرایہ پر لینا چاہتے تھے۔ جبکہ آڈٹ اکائونٹس کے افسران پچھلے تین ارب اڑتالیس کروڑ کا حساب مانگ رہے تھے۔سردست پچھلے ایم ڈی ڈاکٹر عطاء الحق سے اینٹی کرپشن والوں کی پوچھ گچھ جاری ہے ۔ سالڈ ویسٹ کمپنی کے باقی ممبران سے 31مئی کے بعد پوچھا جائیگا۔زمانہ قبل مسیح سے گوجرانوالہ میں تعینات اور اب سالڈ ویسٹ کمپنی کے نئے ایم ڈی خالد بشیر بٹ نے فنڈز نہ ہونے کے باعث شہر کی صفائی کیلئے مخیر حضرات کے آگے ہاتھ پھیلائے ہیں۔ وہ ہاتھ پھیلانے کی بجائے شہریوں کو ان لوگوں کے نام بتائیں جو میونسپل کارپوریشن کی اربوں روپوں کی جائیداد پر عرصہ دراز سے برائے نام کرایہ پر قابض ہیں۔ میونسپل کارپوریشن گوجرانوالہ ایک باوسائل ، امیر کبیر ادارہ ہے ۔ اسے زکوٰۃ خیرات نہیں لگتی ۔ اس ادارے کے کرتا دھرتا اسکے لوٹے ہوئے وسائل واپس لینے کی کوشش کریں تو اچھا ہوگا۔ ملا واحدی نے اپنی کتاب’’ میرے زمانے کی دلّی ‘‘ میں لکھا۔ آزادی سے پہلے دلّی میونسپل کمیٹی زیادہ عمر کے بوڑھے بوڑھیوں کو تین تین روپے مہینہ وظیفہ دیا کرتی تھی ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب روپیہ ، روپیہ ہوا کرتا تھا اوروہ ٹھنکانے پر آواز نکالتا تھا ۔ایک دفعہ دلّی میونسپل کمیٹی کا عملہ ایسے بوڑھے بوڑھیوں کی پڑتال کر رہا تھا ۔ ایک گھر سے ایک باوقاربوڑھا نکلا اور بولا۔مجھے امداد کی ضرورت نہیں۔میرے بچے کماتے ہیںاور میں اللہ کے فضل سے ہر روزگوشت روٹی کھاتا ہوں۔محلے کے بچے جو وہاں کھڑے تھے انہوں نے اس بڑے میاں کا نام ہی’ ’گوشت روٹی‘ ‘رکھ دیا۔لیکن ہماری میونسپل کارپوریشن کے ذمہ داران کو جب اپنی لوٹ کھسوٹ سے کوئی فرصت ملے گی تو وہ تب ہی شہر کے بوڑھے بوڑھیوں کا کچھ سوچ سکیں گے۔ ؎
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لادوا نہ تھے
٭٭٭