ملتان کی گلیاں اور شاہ محمود قریشی
آج کل میرے ملک کی بہت سی جماعتیں اور ان کے پیچھے بہت سے خود ساختہ دانشور جنوبی پنجا ب کی محرومیو ںکا رونا روتے نظر آرہے ہیں ۔جو لوگ سالہا سال حکومت میں رہے ۔پچھلے ساڑھے چار سال انہوں نے اسمبلی میں علیحدہ صوبے کے لیے آواز اٹھائی اور نہ ہی انہیں الگ صوبے کے لیے سڑکوں پہ آنے کا شعورمیسر آیا ۔اب جب کہ موجودہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرچکی ہے ۔آئندہ ہفتوں نگران حکومت کا قیام عمل میں آجائے گا , ایسے میں جنوبی پنجا ب سے منتخب ہونے والے ممبران کو ساتھ کھڑا کر کے الگ صوبہ بنانے کا نعرہ بلند کیا جانے لگا ہے ۔۔یہ سچ ہے کہ شمالی پنجا ب جنوبی پنجا ب سے زیادہ بہتر حالت میں رہا تھا اور ہے ۔لیکن اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ شمالی پنجا ب میں زیادہ فنڈز استعمال ہوتے ہیں ۔اور جنوبی پنجا ب کو کم حصہ دیا جاتا ہے ۔اس نقطہ یہ ہے کہ جس علاقے کے لوگوں نے خود کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ہمیشہ ترقی کی نعمتوں سے بھی وہی لوگ پہلے مستفید ہوئے ہیں ۔جس کی بڑی مثال کل کا جاپان ,امریکہ ,یورپ اور آج کا چین ہے ۔جنوبی پنجاب میں شرحِ تعلیم ابھی بہت کم ہے ۔وہاں بڑے بڑے زمیندار ہیں ۔ان کے اپنے بچے تو ملکی اور بدیسی ملکوں کے اعلی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔جبکہ مزارعین کے بچوں کی قسمت میں شاید دو وقت کی روٹی کے لیے ہی کام کرنا لکھ دیا گیا ۔ابھی چند دن پہلے میاں نواز شریف جب ملتان جلسہ کرنے گئے ۔تو اُس کے فوری بعد ٹی وی چینلز پر محترم مخدوم جناب شاہ محمود قریشی کا بیان چل رہا تھا کہ,اگر میاں صاحب کے پاس وقت ہوتا تو میں انہیں ملتان کی گلیاں دکھاتا ۔ملتان کی گلیاں اگر آج بھی کچی ہیں ۔یا ان گلیوں میں گندے پانی کے جوہڑ بن چکے ہیں تو اس میں میاں صاحب کا کوئی قصور نہیں بنتا ہے ۔اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو مخدوم شاہ محمود قریشی پچھلی تین نسلوں سے سیاست میں ہیں ۔ان کے دادا قائد کے قریبی ساتھ خیال کیے جاتے ہیں ۔پھر شاہ محمود قریشی کے والد جناب مخدوم سجاد حسین قریشی کا نام آتا ہے ۔جو مسلسل دس سال نہ صرف ملتا ن شہر کے میئر رہے بلکہ آپ ڈپٹی چیئرمیں سینٹ اور جنرل ضیاء کی نوازشات کی بدولت گورنر پنجاب جیسے بڑے انتظامی عہدوں پر بھی براجمان رہے ۔جو علاقہ آج بھی بنیادی تعلیم میں بہتری نہ ہونے کے شکوے کررہا ہے ۔اس علاقے سے بار بار منتخب ہونے والے محترم شاہ محمود کا تعلیمی سفر ایچی سن سے لے کر کیمرج تک کا بتایا جاتا ہے ۔جو آج بھی ملتان کی گلیوں کی حالت بہتر نہ ہونے کے شکوے کر رہے ہیں ۔انہوں نے ہر دور میں ہر حکومت کے اعلی انتظامی عہدوں کو اپنے ہاتھ رکھا ہے ۔محترم شاہ صاحب کا سیاسی کیریئر پچاسی کے انتخابات میں جنرل ضیاء کی محبتوں میں شروع ہوتا ہے ۔شروع میں آپ کی وابستگی پاکستان مسلم لیگ سے ہوتی ہے ۔لیکن بہت جلد آپ میاں نواز شریف کی سیاسی صلاحیتوں سے متاثر ہو کے پاکستان مسلم لیگ نون میں شامل ہوجاتے ہیں ۔نواز شریف حکومت میں پلاننگ اور ڈیولپمنٹ کا قلمدان آپ کی انگلیوں کی زینت بنتا ہے ۔منظور ووٹو کے دور میں آپ پنجا ب کے وزیرِ خزانہ مقرر کیے جاتے ہیں ۔جب میاں نواز شریف انہیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ نہیں دیتے تو آپ اپنی طبیعت سے مجبور کے مسلم لیگ چھوڑ پیپلز پارٹی کو پیارے ہوجاتے ہیں ۔بے نظیر حکومت میں بھی وزیر کا قلمدان آپ کو ملتا ہے ۔اور ساتھ ہی آپ کو پیپلز پارٹی پنجا ب کا صدر بنایا دیا جاتا ہے ۔1997کے الیکشن میں پہلی بار انہیں ہار کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اور مخدوم جاوید ہاشمی قومی اسمبلی پہنچ جاتے ہیں۔
مشرف دور میں آپ ملتان کے ناظمِ اعلی رہے ۔اور کہا جاتا ہے کہ اپنے اس دور میں آپ نے بہت سے ترقیاتی کا م شروع کروائے ۔2002سے لے کر آج تک آپ قومی اسمبلی کی نشست جیتتے چلے آئے ہیں ۔بی بی کی بے وقت موت کے بعد 2008 میں جب آپ قومی اسمبلی کا الیکشن جیتے تو آپ کی نگاہیں وزارتِ عظمی پر تھیں ۔مگر آپ کے شاندار سیاسی ماضی کو دیکھتے ہوئے محترم آصف علی زرداری نے آپ کو وزیر خارجہ کا قلمدان سونپ دیا اور وزیر اعظم پاکستا ن کے لیے محترم یوسف رضا گیلانی کانامِ نامی سامنے آگیا ۔جنہوں نے اپنے قائد کے اصولوں پہ چلتے ہوئے کرپشن میں خوب نام بنایا ۔ریمنڈ ڈیوس واقعے کے بعد جب آپ کو وزیر خارجہ کی بجائے دوسری وزارت پیش کی گئی تو اپنی طبیعت کے مطابق آپ نے ایک بار پھر نئی منزلوں کا سفر شروع کیا ۔نون لیگ کے قائدین سے آپ کو کسی بڑے عہدے کا یقین نہ دلوایا جانا آپ کو عمران خان کی جماعت میں لے گیا۔آپ نئی جماعت میں نئے نعرے کے ساتھ کامیابی سے قومی اسمبلی کا الیکشن جیت گئے ۔اور کہا جارہا ہے کہ شاہ صاحب آج کل میں پی ٹی آئی بھی شاید چھوڑ نے والے ہیں ۔کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ آج کل زرداری صاحب عمران کی نسبت ’’ان‘‘ کے زیادہ منظورِ نظر ہیں ۔کہا جاتا ہے شاہ محمود کی کامیابی کی وجہ ان کے سیاسی سماجی کام نہیں ہیں بلکہ وہ ایک بہت بڑے زمیندار ہیں ۔جن کی کھیتوں میں کام کرنے والے مزارعین کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔اس کے علاوہ ایک بڑی گدی کے سجادہ نشین ہونے کی وجہ سے بھی وہاں کے عوام انہیں ووٹ دینے پہ مجبور رہے ہیں ۔
جلالی طبیعت کے مالک شاہ محمود قریشی کسان ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر بھی رہے ہیں ۔بہاوالدین ذکریا کی وراثت کی بدولت نہ صرف انہیں بے پناہ دولت حاصل ہوتی رہی ہے۔بلکہ مریدین کے ووٹ پر بھی انہی کا پہلا اور آخری حق سمجھا جاتا رہا ہے ۔شاہ صاحب کسی وقت فرصت میں بیٹھ کے سوچیے گا کہ ملتان کی محرومیاں اگر ہیں تو ان میں آپ کا قصور کتنا ہے ۔آپ ا ور آپ کے والد محترم کتنے سال شہر کے میئر اور ناظمِ اعلی رہے ۔یہ گلئیاں نالیاں پکی کروانا کس کا کام ہے ۔شاہ صاحب آپ تو ملتان کے عوام کی آنکھوں میں دھول نہ جھونکئے ۔آپ جہاں بھی جائیں گے ۔آپ کو ووٹ ملتے رہیں گے ۔کیونکہ آپ نے اپنی عوام کو تعلیم سے شعور سے بہت دور رکھا ہے ۔آپ کس پارٹی میں جاتے ہیں ۔کونسے جھنڈے کو اپنا لباس بناتے ہیں ۔مزارعین کی محدود سوچ میں یہ باتیں کب آسکتی ہیں ۔بس آپ نے انہیں خواب دکھانے ہیں ۔تعبیریں خود کے لیے سوچنی ہیں ۔جنوبی پنجا ب کے حالات تقسیمِ پنجا ب سے بہتر نہیں ہوسکتے ہیں ۔بلکہ جنوبی پنجاب سے ایسے لوگ سامنے آنے چاہیے جو وہاں کے عوام کے دکھ بانٹ لینا چاہیں ۔ پاکستان زندہ باد