پاکستانی جمہوریت ، قاتلانہ حملوں کی زد میں …؟
دنیا کے بیشتر ان جمہوری ممالک میں جہاں عوامی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے اور عملی شکل دینے کیلئے باالعموم ٹھوس اقدامات کیے جاتے ہیں اختلاف رائے کی پھر بھی گنجائش رہتی ہے اور اسے جمہوریت کا حسن کہا جاتاہے مگر افسوس کہ آزادی کے 70 برس گزرنے کے باوجود ہمارے ہاں سرے سے کوئی ایسا جمہوری اور فلاحی نظام قائم ہی نہیں ہو سکا جس پر دنیا میں ہم اپنا سر فخر سے بلند کر سکیں ۔ ایسا نظام اگر کوئی ہوتا تو امریکہ پاکستانی سفارتی عملے پر مخصوص علاقوں تک سفر کرنے کی پابندیاں آج عائد کرتا……؟
اگلے روز وزیر داخلہ احسن اقبال پر کیے گئے قاتلانہ حملے نے ایک بار پھر ہماری کمزور اور تربیتی مراحل سے گزرنے والی جمہوریت کا بھانڈا پھوڑ دیا جس سے دنیا بھر میں ہماری ایک مرتبہ پھر جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ ہماری قومی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ اپنے کسی بھی سیاسی حریف یا سیاسی شخصیت کو برداشت کرنے کا ہمارے ہاں آج تک کلچر ہی پیدا نہیں ہو سکا۔ جو حقیقی جمہوریت کو پروان چڑھانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مارنے سے بچانے والا چونکہ بہت بڑا ہے اس لئے بروقت طبی امداد ملنے پروزیر داخلہ کی جان بچ گئی ۔ مگر میں تادم تحریر یہ سوچنے پرمجبور ہوں کہ شہر اقبال میں ایسا کوئی ہسپتال نہیں تھا جہاں وزیر محترم احسن اقبال کا وزارتی پروٹوکول کے تحت فوری طورپر علاج کیا جا سکتا!!
سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف کے اس شہر میں قائم سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں کیا ایسا کوئی بھی سہولتی نظام نہیں تھا جس سے جسم میں لگی گولی نکالنے اور مزید آپریشن کی فوری سہولتیں فراہم کی جاسکتیں؟؟ ان ہسپتالوں میں سانس کی بحالی ، بلڈٹرانسفیوثرن ، ایکسرے ، الٹراسائونڈ کی سہولتیں بھی کیا موجود نہیں تھیں؟؟ سیالکوٹ میں تو سابق میئر ڈاکٹر کیپٹن (ر ) محمد اشرف ارائیں کے میڈیکل کامپلکس اور متعدد دیگر نجی ہسپتالوں کو اعلیٰ کارکردگی کی مثالیں بھی موجود ہیںجن کی گواہی خواجہ آصف دے سکتے ہیں۔
مگر ان سہولتوں کے باوجود وزیرداخلہ کو بذریعہ ہیلی کاپٹر لاہور لے جایا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نارووال، شکر گڑھ تودورکی بات سیالکوٹ میں بھی ہسپتالوں کا ابھی تک وہ معیار نہیں جو خادم اعلیٰ کے شہر لاہور کے ہسپتالوں کا ہے!! احسن اقبال پر کیے شرمناک قاتلانہ حملے کی سب سے پہلے اطلاع مجھے مسلم لیگ ن کے رہنما سابق پارلیمانی سیکرٹری برائے دفاع اور سابق صوبائی وزیر برائے کوآپریٹو چودھری ریاض کے برادر اصغر چودھری خورشید زمان نے ’’واٹس اپ‘‘ پر اس وقت دی جب وہ وزیر داخلہ کی خریت دریافت کرنے سروسز ہسپتال پہنچے تھے۔ 22 سالہ عابد حسین نامی نوجوان نے وزیرداخلہ پر آخر گولی کیوں چلائی؟ جبکہ احسن اقبال اس نوجوان کو جانتے تک نہ تھے! اوراس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ کہ ملزم کارنر میٹنگ شروع ہونے سے کئی گھنٹے قبل مسلح ہو کر مبینہ طور پر وزیر داخلہ کی آمد کا انتظار کرتا رہا جبکہ موقع پر موجود پولیس کے بڑے تھانیداروں ، ڈیپٹیوں اور مقامی ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ پروٹوکول ڈیوٹی پر مامور پولیس اور سپیشل برانچ نے پیشگی انٹیلی جنس اطلاعات کے باوجود اس ملزم کو ٹریس کیوں نہ کیا…؟؟ ملزم کامبینہ طور پر تعلق واقعی اگر تحریک یا رسول اللہ تنظیم سے تھا تو مقامی پولیس اس کا ڈیٹا کیوں چیک نہ کر پائی؟؟ ان سوالات کا جواب کون دے گا ، اس لئے بھی مشکل ہے کہ ہماری پولیس کا ابھی یونیفارم بدلا ہے طور طریقے اور ڈیوٹی کے انداز بدستور پرانے ہیں ۔
میری اطلاعات کے مطابق سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر اور ضلعی پولیس آفیسر کا شمار نیک اور فرض شناس افسران میں ہوتا ہے جبکہ نارووال کی پولیس پر شک اس لئے بھی نہیں کیا جاسکتا کہ یہ وزیر داخلہ احسن اقبال کا اپنا شہر ہے جہاں پٹواری سے ڈی ، آر ، او اور ایک سپاہی سے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس تک کے تمام اہلکار اور افسران ’’ٹھوک وجا‘‘ کر سلیکشن کی بنیاد پر لگائے گئے ہوںگے مگر دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا سبب بنے والا یہ واقعہ پھر بھی رونما ہوگیا ۔
یہ سب تھانہ کلچر کی کارفرمائیاں ہیں جب تک یہ تبدیل نہیں ہوگا پولیس کو لوگ ’’پلس‘‘ ہی کہتے رہیں گے ۔ جے ، آئی ، ٹی کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ جس کی ابتدائی تحقیقات کے بعد ہی اب یہ پتہ چل سکے گا کہ 22 سالہ ملزم عابد حسین نے گولی چلانے کا فیصلہ کیوںکیا؟ جبکہ اقبال حسن پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی علاقہ میں کسی سے بھی دشمنی نہیں تھی مگر اس افسوسناک واقعہ سے امریکہ سمیت مغربی دنیا کو Nagative Messageدیاگیا اس سے ہماری ’’لولی لنگڑی‘‘ جمہوریت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں سیاسی لیڈروں ، وزرائے اعظم، صدور اور وزیروں مشیروں پر جوتے ،جوتیاں ، انڈے ، سیاہیاں ، اور عمارتی رنگ پھینکنے کے واقعات دنیا کے جمہوری ملک میں رونماہوتے ہیں کہ عوام کی جانب سے ان اقدام کو سب سے سستا ترین احتجاج تصور کیا جاتاہے مگر عوامی احتجاج کو بندوق یا پستول کی گولیوں کا حصہ بنا کر بے گناہ افراد کو قتل کردینے کی کوئی مذہب قطعی اجازت نہیں دیتا بحیثیت من حیث القوم اپنا حوصلہ اور قوت برداشت چونکہ ہم کھو چکے ہیں اس لئے ’’احتجاج‘‘ کے معنوی اور اصطلاحی مفہوم کا ہمیں سرے سے ادراک ہی نہیں رہا۔
قومی انتخابات اب گو زیادہ دور نہیں مگر فکر مندہوں کہ قتل و غارت، یا اقدام قتل کے ایسے واقعات اسی رفتار سے اگر رونما ہوتے رہے تو مہذب جمہوری ملکوں میں ہماری رہی سہی عزت و وقار کا دفاع کون کرے گا۔ ہمیں دنیا کے بدلتے سیاسی حالات پر نظر رکھنا ہوگی ۔ پاکستان کے استحکام کے لئے بانی پاکستان محمد علی جناح کے اقوام اور قربانیوں کو مشعل راہ بنانا ہوگا۔ ہر شعبہ زندگی میں دانشمندی کا ثبوت دینا ہوگا۔ اپنی سیاست کو صاف و شفاف بناتے ہوئے رائے دہی اور باہمی عزت و احترام کو استحکام بخشنا ہوگا ۔ کہ پاکستان کو سیاسی اور معاشی طورپر کمزور کرنے کیلئے متعدد صیہونی طاقتیں میدان میں اتر چکی ہیں امریکہ نے بھارت کے دوستانہ تعاون سے پاکستان کے گرد گھیرا اور تنگ کر لیا ہے۔ آنے والے دنوں میں پاکستان کے معاشی اور اقتصادی مسائل کی نوعیت کیاہوگی؟ یہ وہ سوال ہے جس کا تعلق قومی غیرت سے ہے۔