ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہ
کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اس کے عوام کی صحت اور تعلیمی معیار ان اہم ترین عناصر میں شامل ہیں جس سے کوئی معاشرہ انحراف نہیں کر سکتا۔ جہاں تک طبی اور علاج معالجے کی سہولیات کا سوال ہے۔ تو UNOکے 300 (تین) سو سے زائد ممالک میں سے((100 ممالک ایسے ہیں جو اس مد میں پاکستان سے زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں۔ ملک میں حکومت کی طرف سے چلائے جانے والے ہسپتالوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔ اور وہاں بنیادی سہولیات تک میسر نہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارے لیڈرز اپنے علاج کے لیے ہی نہیں بلکہ CHECKUPکے لیے بھی سرکاری خرچ پر بیر ون ممالک جاتے ہیں۔ اور نجی سطح پر چلائے جانے والے شفاخانوں کے اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ ایک عام آدمی وہاں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
آج سابقہ وزیراعظم جناب نواز شریف کو آئے دن اپنی زوجہ کی بیماری کے لیے انگلستان بھاگنا پڑتا ہے۔ طبی سہولیات کے حوالے سے امریکہ ہر شہری پر 4,271ڈالر خرچ کرتا ہے۔ جبکہ ہمارے ملک میں یہ شرح 18ڈالر فی کس ہے۔ ایران میں 128(ایک سو اٹھائیس )ڈالر ہے۔برما، سری لنکا میں بھی ہم سے زیادہ رقم اس حوالے سے خرچ کی جاتی ہے۔ جہاں تک دوسرے اہم عنصر تعلیم کا تعلق ہے تو اس کی حالت اس سے کہیں زیادہ کسم پرسی کا شکار ہے۔ بڑے ہی دکھ کی بات ہے کہ دنیا کے ــ"تمام"ممالک ہم سے زیادہ رقم تعلیم کیلئے خرچ کرتے ہیں۔مثلا کیوبا میں18.7(اٹھارہ اشاریہ سات)خرچ کیا جاتا ہے۔حکومت کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی ادارے خاص طور پردور دراز علاقوں میں قائم سکول اور کالجز میں بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔ گائوں میں با اثر لوگ سرکاری سکولوں کو اپنے ذاتی استعمال میں لاتے ہیں۔ اور سرکاری سکولوں میں چاردیواری اور بیت الخلاجیسی سہولیات تک موجود نہیں۔
مزید برآں ملک میں خاص طور پر دور دراز علاقوں میں GOHST SCHOOLS اور GOHST TEACHERS کی بھرمار ہے یہ ادارے اور اساتذہ صرف کاغذات کی حد تک محدود ہیں۔ اور عوام کا پیسہ اس محکمے کے بدعنوان اور غیر محب وطن افراد کی تجوریوں میں جاتا رہا۔ دنیا کی ترقی یافتہ ا قوام بجٹ کا ایک بڑا حصہ تعلیم کے لئے مختص کرتی ہیں۔ بنیادی تعلیمی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لئے اس پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ تا کہ اس پر اعلی تعلیم یعنی Higher Education کی عمارت کو کھڑا کیا جا سکے۔ ہماری تعلیمی صورت حال کا مقابلہ اگر عالمی تناظر میں کیا جائے تو ہم شرح تعلیم کے لحاظ سے آج بھی بہت پیچھے ہیں۔ ہر حکومت قومی بجٹ کا صرف اور صرف 2% ہر سال تعلیم کی مد میں خرچ کرتی ہے۔جو کہ بہت ہی خطیر رقم ہے۔ جبکہ یہی شعبہ خاص توجہ کا مستحق ہے۔ ہماری ترقی اور خوشحالی اس سے وابستہ ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ کو دیکھ لیں تعلیم کی اہمیت سے نہ تو انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کے بغیر گزارہ ہے۔ اگر ماضی پر نظر دوڑائیں تو تعلیم اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے والی اہم شخصیت سر سید احمد خان ہمارے سامنے ہیں۔جنھوں نے قوم کو احساس دلایا کہ کسی قوم کا مقابلہ کرنے اور غلامی سے نجات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ تعلیم ہے۔پھر آج ہم تعلیم کو نظر انداز کیونکر کر سکتے ہیں؟ لیکن چونکہ یہ جدت اور مقابلے کا دور ہے۔اس لیے وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلے ہمیں ہر سطح ُپر معیاری اور فنی تعلیم کے وقار کو مزید بلند کرنا ہو گا۔ اس سلسلے میں اعلی تعلیم Higher Education اور اعلی تعلیمی اداروں یعنی یونیورسٹیز پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ وطن عزیز میں انگریز حکومت کے زمانے سے کام کرتی ہوئی چیدہ چیدہ یونیورسٹیاں جنھیں گورنمنٹ کی یونیورسٹیاں کہلوانے کا اعزاز حاصل ہے آ ج بھی اعلی پائے کی تعلیم فراہم کرنے میں کوشاں ہیں۔ لیکن افسوس ناک بات ہے کہ ہمارے وزراء اور لیڈرز نے ان اداروں میں کسی قدر اضافہ نہیںکیا۔ آج بھی وہی عمارتیں جو انگریزنظام حکومت میں بنائی گئیں تھیں ہمارے سامنے ہیں۔ان میں ردوبدل تو ضرور ہوا ہے مگرکوئی حکومت ان جیسی معیاری یونیورسٹی بنانے سے قاصر رہی ہے۔ ان چند اداروں کے ہونے کی وجہ سے ہر سال طلباء کی ایک کثیر تعداد داخلے سے کومحروم رہ جاتی ہے اور کتنے ہی طلباء اور ان کی ذہنی صلاحیتیں مفلوج ہو کر نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ کچھ یونیورسٹیاں پرائیوٹ سیکٹر کے تحت کام کر رہی ہیں مگر ان کے اخراجات ایک عام طالب علم کی وساطت سے دور ہونے کی وجہ سے ان کے ثمرات سے مستفید نہیں ہوا جا سکتا۔ اللہ تعالیــ نے اس قوم کو خاص خوبیاں عطا کیں ہیں۔ اعلی خام مال اور اعلی دماغ پر مشتمل افرادی قوت تو ہمارے پاس موجود ہے ضرورت ہے تو اس بات کی کہ ان دماغوں اور صلاحیتوں کو نکھار کر ان کے لئے درست راہ متعین کی جائے۔ یہاں اقبال کا شعر یاد کو تازہ کرتا ہے۔؎
نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ٓاب بات اعلی تعلیم کے Standardizeہونے کی آتی ہے۔ دنیا کی باقی اقوام کا مقابلہ کرنے کے لیے جس طرح ہم اپنی دفاعی پوزیشن اور صلاحیتیوں پا بھرپور توجہ دیتے ہیں۔ اسی طرح اعلی تعلیم کو بھی مد نظر رکھنا لازم ہے۔ اس کے نصاب میں وقت کی ضرورت کے مطابق ترمیم ضروری ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں Research Based سرگرمیاں یا تو بہت کم ہیں یا پھر سرے سے موجود ہی نہیںْ جب کہ کسی بات یا کسی بھی چیز کی حقیقت اور سچائی ہمارے سامنےResearchکی بنیاد پر آتی ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے پاس بہترین راہنمائوں کی کمی ہے۔ اگر ٹیکنالوجی کے میدان کو لیا جائے تو چند ادارے ہمارے پاس موجود ہیں اُن کے نظام تعلیم اورResearch process کوا س معیار پر لے کر آیا جائے کہ پوری دنیا میں ہمارے انجینئرز، ڈاکٹرز، سائنس دانوںاورعلماء کو فخر کی نگاہ سے دیکھا جاسکے۔