• news

92مطالبات زر منظور، حکومت جمعہ کو فاٹا بل قومی اسمبلی میں پیش کرے گی

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + نوائے وقت رپورٹ + اے پی پی) قومی اسمبلی نے گزشتہ روز 23 ہزار 732ارب روپے کے لازمی اخراجات کا آئندہ مالی سال میں مختلف وزارتوں کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 92 مطالبات زر کی بھی منظوری دیدی۔ اپوزیشن نے59مطالبات زر پر کٹوتی کی تحاریک جمع کرا رکھی ہے۔ گزشتہ روز جب قومی اسمبلی میں مطالبات زر کی منظوری کا مرحلہ شروع ہوا تو پی پی پی کے رکن اعجاز جاکھرانی نے کہا کہ ہم بجٹ کو قانونی نہیں مانتے۔ اس لئے احتجاجاً واک آئوٹ کرکے ایوان سے جا رہے ہیں۔ سپیکر نے کہا کہ آپ کی کٹوتی تحاریک ہیں۔ تاہم اپوزیشن کے ارکان جن کا تعلق پی ٹی آئی اور تحریک انصاف سے تھا ایوان سے باہر چلے گئے جبکہ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے ارکان ایوان میں موجود رہے۔ ان ارکان کی بھی کٹوتی کی تحاریک ہیں جو آج قومی اسمبلی میں زیر غور آئیں گی جبکہ قومی اسمبلی آج بروز بدھ فنانس بل پر غور کرے گی جس کی منظوری بھی آج متوقع ہے۔ لازمی اخرجات میں قومی اسمبلی، سینٹ، پاکستان ریلویز، صدر مملکت کے عملہ، بیرونی قرضہ ادئیگی، عدالت عظمیٰ، اسلام آباد ہائیکورٹ، وفاقی ٹیکس محتسب، انتخابات کی مد میں 2ارب 53کروڑ روپے رکھے گئے۔ 92مطالبات زر کی منظوری دی گئی۔ ان میں کٹوتی کی تجاویز نہیں تھیں۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مطالبات زر قومی اسمبلی میں پیش کئے۔ جن وزارتوں کے مطالبات زر کی منظوری دی گئی، ان میں اے ایس ایف، موسمیات، نیشنل سکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن، وزارت تجارت، مواصلات، ٹیکسٹائل، دستاویزی فلمیں، قانون و انصاف، منصوبہ بندی، قومی احتساب بیورو، سابق ریاستی حکمرانوں کے الائونسز، افغانستان مہاجرین کے اخراجات، دفاع شامل ہیں۔نوائے وقت رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی کی مدت مکمل ہونے سے پہلے 30 ویں آئینی ترمیم منظور کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ 30ویں آئینی ترمیم کے ذریعے فاٹا کو خیبر پی کے میں ضم کیا جائے، قائمہ کمیٹی قانون و انصاف آج 30ویںآئینی ترمیم کی منظوری دے گی۔ قائمہ کمیٹی سے منظوری کے بعد حکومت جمعہ کو آئینی ترمیم کا بل ایوان میں پیش کردے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی اتحادی مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی بدستور فاٹا انضمام پر ناراض ہیں، حکومت کو بل کی منظوری میں اپوزیشن کی حمایت حاصل ہے۔ اے پی پی کے مطابق قومی اسمبلی نے مختلف وزارتوں اور ڈویژنز کے جن مطالبات زر کی منظوری دی، اپوزیشن کی جانب سے ان مطالبات زر پر کٹوتی کی کوئی تحریک پیش نہیں کی گئی تھی جبکہ 59 مطالبات زر پر کٹوتی کی تحریکیں جمع کرائی گئیں۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کھادوں پر ٹیکس میں کمی ‘ سرکاری ملازمین کے کنوینس الائونس اور صنعتوں کے فروغ کے حوالے سے سینٹ کی مجموعی طور پر 42 سفارشات کی کلی اور جزوی طور پر منظوری کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہمارا مقصد ملک کا مالیاتی استحکام اور جمہوریت کا فروغ ہے‘ غریب اور کم آمدنی والے افراد کے لئے ٹیکسوں میں جو ریلیف دیا گیا ہے ملکی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی‘ بجٹ میں زرعی شعبے اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کے لئے بھی تاریخی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ 2018-19ء پر بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا بجٹ تجاویز کو بہتر بنانے اور رہنمائی پر اپوزیشن سمیت تمام ارکان کے شکرگزار ہیں۔ انہوں نے سندھ کے وزیراعلیٰ کی طرف سے تین ماہ کا بجٹ پیش کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ انہوں نے تین ماہ کا بجٹ کیوں پیش کیا اور تین ماہ بعد تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے ملازمین کیا کریں گے۔ انہوں نے کہا بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے ایک ماہ کا بجٹ پیش کیا ہے ہم ان کے بھی شکرگزار ہیں۔ ہم چیئرمین سینٹ اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین فاروق ایچ نائیک سمیت تمام ایوان بالا کے ارکان کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر157 سفارشات تیار کرکے ہمیں ارسال کیں۔ ان سفارشات میں سے108 کا تعلق پی ایس ڈی پی سے تھا جسے منصوبہ بندی کمیشن کو بھجوا دیا گیا ہے اور باقی 49 سفارشات میں سے 42 سفارشات کلی اور جزوی طور پر منظور کرلی گئی ہیں۔ حکومت نے بجٹ میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو ٹیکس میں جو ریلیف دیا ہے اس کی ملک کی 70 سالہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ پٹرول‘ ڈیزل پر 30 ارب روپے کا کوئی اضافی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ پٹرولیم لیوی کی اپر حد میں اضافہ قانونی تقاضا تھا۔ ملک میں غربت کے خاتمے کے لئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فنڈز تین گنا بڑھا دیئے گئے ہیں۔ جب ہم آئے تھے تو بیت المال کا بجٹ دو ارب روپے تھا جو اب چھ ارب روپے ہو چکا ہے اور آئندہ مالی سال میں دس ارب روپے تک بڑھا دیا گیا ہے۔ ملک میں بجلی کے صارفین کو سستی بجلی کی فراہمی کے لئے 150 ارب روپے کی سبسڈی دی جارہی ہے۔ حکومت کی بہتر پالیسیوں کی وجہ سے ملکی برآمدات تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ مارچ میں برآمدات 24 فیصد اور اپریل میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ درآمدات میں مسلسل کمی لا رہے ہیں ‘ اپریل میں ملکی برآمدات صرف دو فیصد بڑھی ہیں۔ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو ملک میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ تھی‘ پانچ سالوں میں حکومت نے 12230 میگاواٹ بجلی کا اضافہ کیا۔ گردشی قرضوں کا سلسلہ ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے اور آنے والے دو ہفتوں میں گردشی قرضے مزید کم کرنے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے ملکی قرضوں کے حوالے سے جو بات کی ہے تو میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ قرضے بجلی کی پیداواری صلاحیت بڑھانے اور ملکی انفراسٹرکچر بہتر بنانے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ برآمدات بڑھانے کے لئے وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر نیا برآمدی پیکج دے رہے ہیں۔ بجٹ میں پہلے ہی 24 ارب روپے اس پیکج کے لئے مختص کئے گئے ہیں مزید ضرورت پڑی تو سپلیمنٹری گرانٹ سے مزید رقم فراہم کی جائے گی۔ آئی ٹی کے شعبے کے لئے مراعات کا اعلان کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ٹی خدمات پر کیش ایوارڈ کا اجراء کر رہے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں آئی ٹی پر سیلز ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کرکے پانچ فیصد کی جارہی ہے۔ صوبوں کو بھی اس حوالے سے اقدامات کرنے کا کہا جارہا ہے۔ ملک میں زراعت کے شعبے کو ترقی دینے کے لئے مزید اقدامات کر رہے ہیں۔ تمام کھادوں پر ٹیکس کی شرح کم کرکے دو فیصد کردی گئی ہے۔ کھیتوں میں جپسم کی کمی پوری کرنے کے لئے برآمدات پر 20 فیصد ڈیوٹی عائد کی جارہی ہے تاکہ ملکی جپسم کی صنعت کو تقویت ملے۔ سرکاری ملازمین کے لئے مراعات کا اعلان کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ گریڈ ایک سے گریڈ 16 تک کے ملازمین کے لئے دیر تک کام کرنے والے ملازمین کے کنوینس الائونس میں 50 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے۔ کم آمدن والوں کے لئے 25 لاکھ روپے تک کے مکان کے ٹیکس میں 50 فیصد کمی کی جارہی ہے۔ نان فائلر پر 40 لاکھ روپے تک کی جائیداد خریدنے کی حد کو بڑھا کر 50 لاکھ کیا جارہا ہے۔ ماچس سازی کی صنعت کے لئے سیلز ٹیکس کے استثنیٰ کا اعلان کیا جارہا ہے تاکہ کاروباری سرگرمیوں کو فروغ ملے۔ قومی اسمبلی میں 237 کھرب 32 ارب 14 کروڑ 97 لاکھ اور 21 ہزار روپے کے لازمی اخراجات کی تفصیلات پیش کردی گئیں۔ تفصیلات کے مطابق الائونسز، پنشن کے لئے 3 ارب 86 کروڑ 52 لاکھ‘ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین امدادی رقوم اور متفرق تطبیق کے لئے 14 کروڑ‘ شعبہ امور خارجہ کے دیگر اخراجات کے لئے 15 کروڑ‘ سول ورکس کے لئے 77 لاکھ 41 ہزار‘ شعبہ قانون و انصاف کے دیگر اخراجات 23 کروڑ 62 لاکھ 68 ہزار‘ قومی اسمبلی کے لئے ایک ارب 75 کروڑ 19 لاکھ 15 ہزار‘ سینٹ کے لئے 1 ارب 69 کروڑ 84 لاکھ 69 ہزار‘ پاکستان پوسٹ آفس ڈیپارٹمنٹ کے لئے دو کروڑ 24 لاکھ ‘ پاکستان ریلویز کے لئے ایک ارب روپے‘ وفاقی حکومت کے غیر ملکی ترقیاتی قرضوں اور ایڈوانسز کے لئے 171 ارب 86 کروڑ 67 لاکھ 4 ہزار‘ صدر کا عملہ خانہ داری و الائونسز 1 ارب 36 کروڑ‘ آڈٹ 4 ارب 63 کر وڑ 30 لاکھ‘ مصارف ملکی قرضہ جات کے لئے 13 کھرب 91 ارب ‘ ملکی قرضہ جات کی واپسی کے لئے 211 کھرب 29 ارب 74 کروڑ 82 لاکھ 81 ہزار‘ مصارف بیرونی قرضہ جات 229 ارب 22 کروڑ 95 لاکھ 15 ہزار‘ بیرونی قرضہ جات کی واپسی 601 ارب 75 کروڑ 39 لاکھ 53 ہزار‘ قلیل المیعاد غیر ملکی قرضے کی واپسی 174 ارب 16 کروڑ 32 لاکھ 75 ہزار‘ عدالت عظمیٰ ایک ارب 96 کروڑ 40 لاکھ‘ اسلام آباد ہائی کورٹ 52 کروڑ 70 لاکھ‘ انتخابات کے لئے 2 ارب 53 کروڑ 10 لاکھ‘ وفاقی محتسب کے لئے 72 کروڑ 20 لاکھ روپے اور وفاقی ٹیکس محتسب کے لئے 24 کروڑ 30 لاکھ روپے بتائے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی ان اخراجات پر بحث تو کر سکتی ہے تاہم لازمی اخراجات کی قومی اسمبلی سے منظوری لینا لازمی نہیں ہے۔ اجلاس میں پی ٹی آئی کو کورم کی نشاندہی پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ مفتاح اسماعیل جب بجٹ پر بحث سمیٹنے کے لئے تقریر کر رہے تھے تو اس دوران پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی حامد الحق نے کورم کی نشاندہی کردی جب کہ اس دوران پی ٹی آئی‘ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ارکان واک آئوٹ پر تھے۔ سپیکر نے گنتی کا حکم دیا۔ ارکان کی مطلوبہ تعداد پوری نکلنے پر کارروائی شروع ہوئی اور اپوزیشن کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا تاہم کچھ دیر بعد پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ارکان ایوان میں واپس آگئے۔

اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی کی مدت مکمل ہونے سے قبل 30 ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے جس کے تحت فاٹا کو خیبر پی کے میں ضم کر دیا جائیگا۔ وزیراعظم آئینی ترمیم پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کے دو اجلاس منعقد کر چکے ہیں لیکن جمعیت علماء اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی مخالفت کی وجہ سے پیش رفت نہیں ہو سکی جس کے بعد وزیراعظم آئینی ترمیم پر دوبارہ پیشرفت کیلئے پارلیمانی جماعتوں سے رابطے قائم کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) فاٹا کو خیبر پی کے میں ضم کرنے کا کریڈٹ حاصل کرنا چاہتی ہے، اپوزیشن کی جماعتوں نے آئینی ترمیم کی مخالفت کی تو آئینی ترمیم ڈراپ ہو جائے گی اور مسلم لیگ (ن) سارا ملبہ اپوزیشن پر ڈال دے گی۔ واضح رہے مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں دو ہفتے رہ گئے ہیں وفاقی حکومت آئینی ترمیم پر اتفاق رائے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو موجودہ اجلاس کو جاری رکھ سکتی ہے یا پھر اس ترمیم کو منظور کرانے کے لئے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس بلائے جائیں گے۔

ای پیپر-دی نیشن